کہتے ہیں گئے زمانے میں ایک ملک ایسا بھی تھا جہاں امن و امان کا یہ عالم تھا کہ شیر اور بکری ایک گھاٹ پانی پیا کرتے تھے۔ یہ بات تو ٹھیک ہے مگر یہ قصہ در اصل نا صرف ادھورا ہے اور بلکہ بینی
طور پر اس دنیا کی حقیقت سے کوسوں دور ہے۔ تاریخ میں بھی ایسا نہیں ہوا اور ناہی بھی ایسا ہو گا۔ | ہمارے خیال میں تو جس کسی عقلمند نے اس ضرب المثل کو گھڑا تھا وہ زرا گاؤدی تھا۔ نہ تو اس
نے دنیا دیکھی تھی اور نہ ہی اسے اس دنیا کے موت أصولوں ہے کوئی شدھ بدھ مھی۔ یا تو بہت ممکن
ہے کہ وہ شخص انتہائی بدنیت تھا اور عوام الناس کو گمراہ کرنے کے لیے اس نے ایک ادھورا قصہ مشہور کر دیا تھا۔ اور یہ بات تو سب ہی جانتے ہیں کہ ادھورا چ پورے جھوٹ سے زیادہ خطرناک ہوتا
ہے۔ اب خود دیکھ لیں کے صدیاں بیت ئیں، اس دقیانوسی وقت سے لے کر آج کا جدید دور آ پہنچا
ہے اور لوگ اب بھی اسی خیالی دور کی یاد میں اس کہاوت کو نسل در نسل آگے بڑھاتے چلے جارہے ہیں اور امید لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ سنہری دور ایک بار پھر آئے گا۔ ہاں اگر وہ مکمل قصہ جانتے ہوتے تو بھی اس خام خیالی میں نہ رہتے۔
اس کہاوت کا پورا قصہ در اصل کچھ یوں تھا کہ شیر روز کی ایک بکری کو ساتھ لے کر گھاٹ پر پانی پینے جاتا تھا۔ اخلا ق پہلے بکری کو پانی پینے کی دعوت دیتا اور جب بکری بھر پیٹ پانی پی لیتی تو پھر شیر پانی پیتا۔ باری تو اپنی پیاس بجھانے کے لیے پانی پیتی تھی مگر شیر نے سن رکھا تھا کہ کھانےسے پہلے پانی پینا صحت کے لیے انتہائی مفید ہے سو وہ بھی بھی بھر کر پانی پی لیتا۔ یہاں تک بات تو کہاوت کے عین مطابق ہے مگر پھر کچھ یوں ہوتا کہ شیر پانی پینے کے بعد بھری کے نرخرے پر اپنے دانت گڑا دیتا تھا اور اس وقت تک نا چھوڑتا تھا جب تک کہ اس بے جاری کی جان جسم نا چھوڑ جاتی تھی۔ پھر شیر مزے
لے لے کر بکری کا گوشت تناول کیا کرتا تھا۔ بکری کو مارنے سے پہلے پانی پلانے کام وہ صرف اپنی رحم دلی
کے باعث کرتا تھا تا کہ بے چاری پیا کی نہ مر جائے۔ یہ تھا مکمل قصہ جس پر یار لوگوں نے ایک پریوں کی داستان اخترا کر لی اور کیوں بھولے بھالے لوگوں کو ایک سراب کے پیچھے دوڑنے کی آس لگوا دی۔
ہمارے نزدیک وہ ایک ظالمانہ دور تھا۔ ظاہر ہے زمانہ جاہلیت میں اس کے علاوہ کچھ اور سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ ہاں آج کے دور کی بات کچھ اور ہے۔ رحم دلی کا زمانہ تو آج ہے جس کی مثال ہم پاکستانیوں
نے قائم کی ہے۔ اب ہم مرنے سے پہلے تو شاید م مگر زبحہ کرنے کے بعد جانور کو اس کے نرخرے
کے ذرایہ پیپ لگا کر کم و بیش 10 سے 15 لیٹر پانی پلاتے ہیں جو رحم دلی کی ایک ایک روشن ترین مثال ہے جو دنیا نے اس پہلے نا بھی دیکھی اور نا سنی ہو گی۔
مردہ جانور کو پانی پلانے میں بڑے راز پہناں ہیں ۔ ایک تو یہ صد فی صد کار ثواب ہے۔ ظاہر ہے اگر مرنے سے پہلے پانی پینا نیکی ہے تو مرنے کے بعد ایک بار پھر معصوم جانور کو حلق تک پانی پینا یقینا اس سے بڑی نیکی کے زمرے میں آتا ہو گا۔ پچھ مند ہی لوگ اسے غالب بدعت سے تعبیر کرتے ہیں مگر ان کی آخر اس دور میں سنتا کون ہے؟
دوم یہ کہ ذبیہ کو اس طرح پانی پلانے سے گوشت میں پانی کی مقدار زیادہ ہو جاتی ہے۔ بین ایک کلو گوشت میں تقریبا ایک پاؤ پانی بھر جاتا ہے۔ اس طرح گوشت نسبتا کم قیمت پر غریب عوام کو نصیب ہو پاتا ہے۔ اور یوں گرانی کے اس دور میں جب جسم و جاں کا رشتہ قائم رکھنے کے لیے عام انسان کو روزانہ جانے کتنے جتن کرنے پڑتے ہیں ایک چیز تو تھوڑی سستی مل جاتی ہے۔ اب خود ہی سوچیں اگر گوشت میں سے 25 فیصد پانی نکل جائے تو گوشت
میں فیصد مہنگا نہ ہو جائے گا؟ اور جس سے عام انسان کی کمر مذید نہ ٹوٹ جائے گی؟
سوئم فائدہ یہ کہ اس طرح کا گوشت پکاتے وقت اس میں اوپر سے پانی ڈالنے کی چنداں ضرورت نہیں پڑتی۔ اس لئے جن گھروں میں پانی نہیں آتا وہاں یہ گوشت بغیرا اضافی پانی کی جھنجٹ کے پکایا جاسکتا ہے۔
چہارم یہ کہ اس طرح گوشت پکنے کے دوران خود بخود سکڑ کر م ہو جاتا ہے اور اس طرح غریب عوام کو زیادہ گوشت کھانے سے بچا لیا جاتا
ہے۔ اب انسان زیادہ گوشت کھائے گا تو پیار بھی زیادہ ہو گا اور یوں ڈاکٹر کا خرچ بھی بڑھے گا اس لیے آج کل کے اس پر آشوب دور میں ہمارے یہاں رحم دلی کی جو مثالیں قائم ہو رہی ہیں ان کو میں دل کھول کر سراہنا چاہئے اور ساتھ ہی اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرنا چاہیے کہ حالات اور بھی خراب ہو سکتےتھے۔