02:38    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

مجموعہ موسم اچھا ہے

2909 0 0 00




موسم اچھا ہے

رنگ دھنک نے بکھرائے ہیں موسم اچھا ہے

گئے زمانے یاد آئے ہیں موسم اچھا ہے

آنکھیں ، چہرے ، خوشبو، وعدے ، آنسو ، یادیں ،پھول

ایک اک کر کے لوٹ آئے ہیں موسم اچھا ہے

شامِ شفق کی سیر بہانے تم بھی آ جاؤ

دوست پُرانے سب آئے ہیں موسم اچھا ہے






خُدا اور خلقِ خُدا

یہ خلقِ خُدا جو بکھرے ہوئے

بے نام و نشاں پتوں کی طرح

بے چین ہوا کے رستے میں گھبرائی ہوئی سی پھرتی ہے

آنکھوں میں شکستہ خواب لئے

سینے میں دلِ بے تاب لئے

ہونٹوں میں کراہیں ضبط کئے

ماتھے کے دریدہ صفحے پر

اک مہرِ ندامت ثبت کئے ٹھکرائی ہوئی سی پھرتی ہے

اے اہلِ چشم اے اہلِ جفا!

یہ طبل و علم یہ تاج و کلاہ و تختِ شہی

اس وقت تمہارے ساتھ سہی

تاریخ مگر یہ کہتی ہے

اسی خلقِ خُدا کے ملبے سے اک گونج کہیں سے اُٹھتی ہے

یہ دھرتی کروٹ لیتی ہے اور منظر بدلے جاتے ہیں

یہ طبل و علم یہ تختِ شہی ، سب خلقِ خُدا کے ملبے کا

اک حصہ بنتے جاتے ہیں

ہر راج محل کے پہلو میں اک رستہ ایسا ہوتا ہے

مقتل کی طرف جو کھُلتا ہے اور بن بتلائے آتا ہے

تختوں کو خالی کرتا ہے اور قبریں بھرتا جاتا ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔






اُن جھیل سی گہری آنکھوں میں

اُن جھیل سی گہری آنکھوں میں اک شام کہیں آباد تو ہو

اُس جھیل کنارے پل دو پل

اک خواب کا نیلا پھول کھلے

وہ پھول بہا دیں لہروں میں

اک روز کبھی ہم شام ڈھلے

اُس پھول کے بہتے رنگوں میں

جس وقت لرزتا چاند چلے

اُس وقت کہیں ان آنکھوں میں اس بسرے پل کی یاد تو ہو

اُن جھیل سی گہری آنکھوں میں اک شام کہیں آباد تو ہو

پھر چاہے عُمر سمندر کی

ہر موج پریشاں ہو جائے

پھر چاہے آنکھ دریچے سے

ہر خواب گریزاں ہو جائے

پھر چاہے پھول کے چہرے کا

ہر درد نمایاں ہو جائے

اُس جھیل کنارے پل دو پل وہ روپ نگر ایجاد تو ہو

دن رات کے اس آئینے سے وہ عکس کبھی آزاد تو ہو

اُن جھیل سی گہری آنکھوں میں اک شام کہیں آباد تو ہو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔






معصوم ہنسی

میرے گھر میں روشن رکھنا یہ معصوم ہنسی

چینی کی گُڑیا سی جب وہ

چھوٹے چھوٹے قدم اُٹھاتی

میری جانب آتی ہے

اُس کے لبوں پر ایک ستارہ کھلتا ہے

’’پاپا‘‘

اللہ......اس آواز میں کتنی راحت ہے

ننھے ننھے ہاتھ بڑھا کر

جب وہ مجھ کو چھوتی ہے تو یوں لگتا ہے

جیسے میری روح کی ساری سچائی

اُس کے لمس میں جاگ اُٹھی ہے.....

اے مالک ، اے ارض و سما کو چٹکی میں بھر لینے والے

تیرے سب معمور خزانے

میری ایک طلب!

میرا سب کچھ لے لے

لیکن جب تک

اس آکاش پہ تارے جلتے بجھتے ہیں

میرے گھر میں روشن رکھنا یہ معصوم ہنسی

اے دُنیا کے رب!

کوئی نہیں ہے اس لمحے تیرے میرے پاس

سچ سچ مجھ سے کہہ

تیرے ان معمور خزانوں کی بے انت گرہ میں

بچے کی معصوم ہنسی سے زیادہ پیاری شے

کیا کوئی ہے؟






تُم

تُم جس خواب میں آنکھیں کھولو

اس کا رُوپ امر

تُم جس رنگ کا کپڑا پہنو

وہ موسم کا رنگ

تُم جس پھول کو ہنس کے دیکھو

کبھی نہ وہ مُرجھائے

تُم جس حرف پہ اُنگلی رکھ دو

وہ روشن ہو جائے

۔۔۔۔۔۔۔۔






؟؟

سورج !تیری آگ بجھے کی کتنے پانی سے؟

سوچ رہی ہے جانے کب سے آدم کی اولاد

ایک ہی بیج سے جب یہ اتنے ڈھیروں پیڑ اُگے

ایک ہی پیڑ کی شاخ شاخ پہ مہکے جو سب پھول

ایک ہی پھول کے دامن میں جو سارے رنگ بھرے

پھر یہ کیسا فرق ہے ان میں ، کیسا ہے اُلجھاؤ

ایک ہی پھول کی ہر پتی میں دُنیا ایک نئی

ایک ہی شاخ پہ کھیل اُٹھتے ہیں کیسے کیسے پھول!

ایک ہی پیڑ پہ مل جاتے ہیں باہم رنگ کئی

لیکن ان کے میل میں بھی ہے اک دوری موجود

کھا جاتے ہیں زرد سیہ کو سُرخ اور گہرے رنگ

زور آور سے دب جاتے ہیں ، جتنے ہیں کمزور

طاقت والے ہو جاتے ہیں طاقتور کے سنگ

پوچھ رہی ہے جانے کب سے آدم کی اولاد

سُکھ کا دن کب پیدا ہو گا رات کہانی سے

دھرتی! تیرا پیٹ بھرن کو کتنی مٹی ہو!

سورج تیری آگ بجھے گی کتنے پانی سے؟

۔۔۔۔۔۔۔۔






گلیڈی ایٹرز

ہم اپنے قتل ہونے کا تماشہ دیکھتے ہیں

تو اپنی تیز ہوتی سانس کے کانوں میں کہتے ہیں

۔۔’’ابھی جو ریت پر لاشہ گرا تھا

میں نہیں تھا

میں تو زندہ ہوں۔۔۔۔یہاں

دیکھو،

مری آنکھیں ،مرا چہرہ، مرے بازو

سبھی کچھ سلامت ہے‘‘

ابھی کل ہی کا قصہ ہے

سرِ مقتل ہمارے دست و بازو کٹ رہے تھے

پہ ہم اپنے گھروں میں مطمئن بیٹھے ہوئے

ٹی وی کے قومی نشریاتی رابطے پر

سارے منظر دیکھتے تھے

اور یہ کہتے تھے

’’نہیں یہ ہم نہیں ہیں‘‘

ہماری آستیں پر خون کے دھبے ابھی تازہ ہیں

سوکھے بھی نہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔






گلہ

گلہ ہوا سے نہیں ہے ہوا تو اندھی تھی

مگر وہ برگ کہ ٹوٹے تو پھر ہرے نہ ہوئے

مگر وہ سر کہ جھکے اور پھر کھڑے نہ ہوئے

مگر وہ خواب کہ بکھرے تو بے نشاں ٹھہرے

مگر وہ ہاتھ کہ بچھڑے تو استخواں ٹھہرے

گلہ ہوا سے نہیں تُندیِ ہوا سے نہیں

ہنسی کے تیر چلاتی ہوئی فضا سے نہیں

عدو کے سنگ سے اغیار کی جفا سے نہیں

گلہ تو گرتے مکانوں کے بام و در سے ہے

گلہ تو اپنے بکھرتے ہوئے سفر سے ہے

ہوا کا کام تو چلنا ہے اس کو چلنا تھا

کوئی درخت گرے یا رہے اُسے کیا ہے

گلہ تو اہلِ چمن کے دل و نظر سے ہے

خزاں کی دھول میں لپٹے ہوئے شجر سے ہے

گلہ سحر سے نہیں رونقِ سحر سے ہے

۔۔۔۔۔۔۔






ایمان کے محافظوں سے

میں خُداوندِ بر تر کی تخلیق ہوں

جس نے پھولوں کو خوشبو، درختوں کو چھاؤں

سمندر کو پانی ہواؤں کو چلنے کی طاقت عطا کی

ستارے زمیں چاند سورج بنائے

میں کہتا ہوں سب آدمی ،آدمی ہیں

نہیں کوئی بہتر کسی سے

سوا اُن کے جو متقین ہیں،

میں کہتا ہوں اس خاک پر زندہ رہنے کا حق سب کو ہے

سب کو حق ہے کہ محنت کی تخلیق سے اپنے دامن بھریں

اس زمیں پر چلیں، آبرو سے رہیں، دل کی باتیں کہیں

مسکرا بھی سکیں

جس کی خواہش کریں اُس کو پا بھی سکیں

میں کہتا ہوں سب ابنِ آدم ہیں تو

کیوں نہ سب کو برابر کی عزت ملے

کیوں کوئی کج کلاہی کے نشے میں ہو

کیوں کسی کو فقط مرگِ تہمت ملے

میں اُن تیرہ بختوں ، سہی قسمتوں کے لئے روشنی مانگتا ہوں

جنہیں تم نے صدیوں تک اپنی غرض اور انا کی بقا کے لئے

پتھروں کی طرح بے حقیقت گنا ہے

میں اُن کے لئے بولتا ہوں جنہیں

تم نے اپنی فصاحت کے طوقِ توہم میں جکڑا ہوا ہے

جسے تم نے ہر دور میں ظلم کے ہاتھ بیچا ہے

میرا خُدا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔






دشتِ طلب

درِ طلسمِ صدا کھلے تو اُسے پُکاریں

کہ اُس کے ہاتھوں میں خواہشوں کا قبول رد ہے

اُسے دکھائیں کہ کتنے بادل

ہمارے کھیتوں سے بے تعلق نکل گئے ہیں

اُسے بتائیں کہ کتنی کلیاں

کشاد ہونے کی آرزو میں بکھر گئی ہیں

سنائیں اُس کو وہ لفظ جن کے

حروف بے صوت ہو گئے ہیں

رُلائیں اُس کو اُن آنسوؤں پر

جو خُشک آنکھو ں میں کھو گئے ہیں

گلو گرفتہ اُداس لمحے ، اُجاڑ صورت بکھرتے موسم

وہ بختِ گریاں جو سو گئے ہیں

درِ طلسم صدا کھُلا تو عجب ہے منظر

چہار جانب ہجومِ خلقت ہے مثلِ لشکر

اُسی کی جانب رواں دواں ہیں

برہنہ پا و شکستہ رنگ و غبار بر سر

سفید سائے، سیاہ پیکر

لبوں پہ خواہش کے سبز جنگل، نظر سمندر

صدائیں اتنی ہیں ماند پڑتا ہے شورِ محشر

اُسے سُنائیں تو کیا سُنائیں

کہ اپنی اپنی زباں میں سارے ہمارا قصہ سُنا رہے ہیں

وہ جس کے ہاتھوں میں خواہشوں کا قبول رد تھا

ہر اک کی آواز سُن رہا ہے

درِ طلسمِ صدا کھُلا ہے

کسے پُکاریں؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔






دل اک خواب نگر ہے

دل اک خواب نگر ہے جس میں لمحہ لمحہ

اُس کے سپنے بند آنکھوں میں نئے دریچے وا کرتے ہیں

ہر چہرے میں اُس کا چہرہ رکھ دیتے ہیں

میرے اُس کے بیچ ہزاروں دیواریں ہیں

رسموں اور رواجوں کی

بیگانوں کی قاتل نظروں اور اپنوں کی باتوں کی

اُس کی بے پروائی کی اور اپنی پاگل سوچوں کی

کالی دُشمن راہوں کی

میں اس ظالم اندھی اور منہ زور فضا میں اک بے مایہ ذرہ تھا

جو اپنے سے لاکھوں میں گُم تھا

اُس کے خواب نے میری آنکھیں روشن کی ہیں

خاموشی میں جادو ہے تو پھر وہ جادو گر ہے

اُس کی چُپ نے میرے دل کو نطق دیا ہے

میں قطرہ تھا اُس کی ذات سمندر ہے

اُس کی محبت نے مجھ کو تخلیق کیا ہے

ارمانوں کی بانجھ ہوائیں

آنکھوں کے گُمنام جزیروں میں چلتی ہیں

اور خواہش کے خُشک درختوں کی شاخوں میں

سائیں سائیں کرتی ہیں

موسم آنکھیں پھیر کے دل کے درد نگر سے چل دیتے ہیں

بادل ویرانے پہ گھر کر بن برسے چل دیتے ہیں

اُس کے بنا آواز کی کرنیں۔ آنکھیں۔ پھول، ستارے، پتھر

دل اک شہرِ سنگ ہے جس میں گلیاں ،باغ، منارے، پتھر

خواہش جادو کی بستی ہے، مُڑ کے دیکھو، سارے پتھر

دریاؤں کے دھارے پتھر

وہ آئے تو پتھر کو آواز ملے

شہرِ سنگ کے دروازوں کو وا کرنے کا راز ملے

دل اک خواب نگر ہے اس کے خوابوں کو آغاز ملے

۔۔۔۔۔






علی ذیشان کے لئے ایک نظم

مرے بیٹے نے آنکھیں اک نئی دُنیا میں کھولی ہیں

اُسے وہ خواب کیسے دوں

جنہیں تعبیر کرنے میں مری یہ عمر گزری ہے

مری تعظیم کی خاطر وہ ان کو لے تو لے شاید

مگر جو زندگی اُس کو ملی ہے، اُس کے دامن میں

ہمارے عہد کی قدریں تو کیا یادیں بھی کم کم ہیں

انوکھے پھول ہیں اُس کے نرالے اُس کے موسم ہیں

خود اپنی موج کی مستی میں بہنا چاہتا ہے وہ!

نئی دُنیا ، نئے منظر میں رہنا چاہتا ہے وہ

سمجھ میں کچھ نہیں آتا اُسے کیسے بتاؤں میں

زمیں پر آج تک جتنے بھی آدم زاد آئے ہیں

اسی مشکل سے گزرے ہیں

انہی رستوں میں اُلجھے ہیں

اسی منزل سے گزرے ہیں

ازل سے آج تک جتنے محبت کرنے والے ہیں

سبھی کی اک کہانی ہے

نئی لگتی تو ہے لیکن حقیقت میں پُرانی ہے

اُسے کیسے بتاؤں کہ میرے باپ کی باتیں

مجھے بھی ایک ایسے وقت کا احوال لگتی تھیں

جو اک بھولا فسانہ تھا

میں اُس کی جیب کے متروک سکوں کو کہاں رکھتا

کہ یہ میرا زمانہ تھا

نئے بازار تھے میرے ، کرنسی اور تھی میری

وہ بستی اور تھی میری

مگر پھر یہ کھُلا مجھ پر نیا کچھ بھی نہیں شاید

ازل سے ایک منظر ہے فقط آنکھیں بدلتی ہیں

مری نظروں کا دھوکہ تھا کہ یہ چیزیں بدلتی ہیں

اُسے کیسے بتاؤں میں

کہ یہ عرفان کا لمحہ ابھی تک اُس تک نہیں پہنچا

مگر جس وقت پہنچے گا

اُسے بھی اپنے بیٹے کو یہی قصہ سُنانے میں

یہی دُشواریاں ہوں گی

کہ وہ بھی تو کچھ اپنی بات کہنا چاہتا ہو گا

نئی دُنیا نئے منظر میں رہنا چاہتا ہو گا

بس اپنی ذات کی مستی میں بہنا چاہتا ہو گا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔






وقت کے دریا میں آؤ

وقت کے دریا میں آؤ ایک دن

یوں بہا دیں جا چکے لمحوں کی راکھ

جیسے ان سے کوئی بھی رشتہ نہ تھا

جیسے ہم اس آگ سے گزرے نہ تھے

آئنے یادوں کے جھلمل منظروں کی اوٹ سے

ہم کو دیکھیں اور ششدر سے رہیں

کیسے چہرے ہیں جو اپنے عکس سے ملتے نہیں

آتے جاتے موسموں کی آنکھ میں حیرت سی ہو

کیسے غنچے ہیں جو فصلِ گُل میں بھی کھلتے نہیں

وقت کے صحرا میں آؤ ایک دن

یوں چُرا کر ڈوبتے تاروں سے آنکھ

اپنے اپنے راستوں کی گرد میں روپوش ہوں

جیسے ہم نے منزلوں کے خواب تک دیکھے نہ تھے

۔۔۔۔۔۔۔۔






ملاپ

اک دوجے میں اُلجھ گئے ہیں تیرے میرے ہاتھ

چلتی جائے ساتھ ہمارے رنگوں کی بارات

رستہ رستہ دمک رہا ہے تاروں کا اک کھیت

چمک رہی ہے پاؤں کے نیچے خنک سنہری ریت

چاروں جانب لپک رہی ہے ایک سریلی تان

تان بھی ایسی جس کی رو میں کھنچتی جائے جان

چاند اور سورج سرگوشی میں باتیں کرتے جائیں

اک بے نام سے پھیلاؤ میں تارے اُڑتے جائیں

پھیل رہی ہے لمحہ لمحہ بھید بھری یہ رات

اک دوجے میں اُلجھ گئے ہیں تیرے میرے ہاتھ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔






اے زمیں

یہ جو اقدار ہیں یہ ہماری تمہاری جو اقدار ہیں

وقت کے کوڑے دانوں میں پھینکے گئے

کھوٹے سکوں کی مبہم سی جھنکار ہیں

(اور کچھ بھی نہیں)

یہ جو معیار ہیں

یہ ہمارے تمھارے جو معیار ہیں

شب و روز کی اس کسوٹی پہ تُلنے کو لائے گئے

تو کھُلا یہ کہ یہ

بس ہمارے خیالوں اور خواہشوں کا

لگایا ہوا ایک انبار ہیں

(جن کی قیمت صفر سے زیادہ نہیں)

یہ جو کردار ہیں

یہ ہمارے تمہارے جو کردار ہیں

روشنی تیرگی ، جھوٹ سچ کی کشا کش میں اُلجھے ہوئے

اس ڈرامے کے جتنے بھی کردار ہیں

سب ہمارے ہی چہروں کے بنتے بگڑتے ہوئے نقش ہیں

جو کہ اسٹیج پر فقط اپنی چہرہ نمائی کی خاطر

ہر اک رول کرنے کو تیار ہیں

یہ وہ مرتے ہوئے چند کردار ہیں

(جن کا کھیل اب کہیں پہ بھی جمتا نہیں)

یہ جو اسرار ہیں

یہ جو آنکھوں کے اور منظروں کے میاں

جھلملاتے ہوئے لاکھوں اسرار ہیں

نیلے امبر کی چھت پر کھلے ادھ کھلے

جس قدر بھی ستارے نمودار ہیں

اپنے اندر کی اُلجھن میں اُلجھے ہوئے

یہ جو باہر کی دُنیا کے آزار ہیں

(کتنے بے درد ہیں مرگ آثار ہیں)

۔۔۔۔۔۔۔۔






اے زمیں

(۲)

آگہی کی بکھرتی ہوئی دھُند کی

ایک دیوار سی

ہر طرف ہے تنی

اور باہر نکلنے کا رستہ نہیں

کوئی باہر نکلنے کا رستہ نہیں

جیسے جادو میں ہم سب گرفتار ہیں

در پہ زنجیر ہے

کھڑکیوں اور دریچوں میں تالے پڑے ہیں

چھتوں کی طرف کوئی زینہ نہیں !!

لاکھ سورج فلک پر ہویدا ہوئے

چاند نکلے کئی

اک کرن بھی مگر ہاتھ آئی نہیں

شہ لویں جن کی آندھی میں قائم رہیں

اب فقط وہ دئیے ہم کو درکار ہیں

ہم ہیں کیا اور ہماری حقیقت کیا ہے

اس سے قطع نظر

یہ زمیں آسماں اور یہ عصرِ رواں

اپنی دھُن میں مگن محوِ رفتار ہیں

ہاتھ میں کچھ ارادوں کے پُرزے لئے

اپنے اپنے ضمیروں کے قیدی بنے

راستوں میں کھڑے

ہر مسافت کے رستے کی دیوار ہیں

اپنی اقدار کے ۔ اپنے کردار کے

جتنے بھی عکس ہیں

آئینے اُن کی صورت سے بیزار ہیں

اے زمیں ہم نے تیری حفاظت نہ کی

ہم گنہگار ہیں۔۔۔ہم گنہگار ہیں

۔۔۔۔۔۔۔






جنگل مجھ سے بات تو کر

جنگل مجھ سے بات تو کر

دیکھ کہاں سے آیا ہوں !

سناٹا ہے چاروں جانب اور ہوا کی سرگوشی میں

ٹوٹے ٹوٹے سے کچھ جملے

رات گئے تک ہونے والی بارش کے قطروں کی صورت

پتہ پتہ ٹپک رہے ہیں

تین برس اور سولہ دن پہلے کی گُزری شام کوئی

یہیں کہیں پر رُکی ہوئی ہے

اور اک گہرے سایوں والے پیڑ پہ اب بھی

ہم دونوں کے نام کھدے ہیں

(اور اک دل ہے جس میں کوئی تیر ترازو تب سے ہے)

۔۔۔۔۔۔۔۔






اب کون ہمیں دیکھے

اب کون ہمیں دیکھے

ہم لوگ کہ رستوں کی مٹی میں ہوئے مٹی!

اشکوں سے بھری آنکھیں دیکھیں تو کہاں دیکھیں

اب درد کے صحرا سے آواز نہیں آتی

رازوں سے بھرا رستہ خاموش ہے صدیوں سے

ہر سمت اُداسی ہے ہر سمت ہے ویرانی

عُمروں کی پریشانی

اس خاک پہ رکھی ہے وہ چاند سی پیشانی

جس کی تب و تابش نے صدیوں کو کیا روشن

وہ ہاتھ ہیں بے مایہ

تھیں جن کی قلم رو میں قرنوں کی جہانگیری

وہ پاؤں نہیں اُٹھتے

تھا جن کے تسلط میں امکاں کا ہر رستہ!

ہم لوگ کہ رستوں کی مٹی میں ہوئے مٹی

اب کون ہمیں دیکھے!

۔۔۔۔۔۔۔






ایک پل

آہستگی سے گھٹتی ہوئی سہ پہر کی دھوپ

دل میں اُتر رہی ہے کسی خواب کی طرح

نیلے فلک پہ ابر کے ٹکڑے کہیں کہیں

لرزاں ہیں دل کے ساز پہ مضراب کی طرح

صحنِ چمن میں ڈولتے رنگوں کے درمیاں

ہے ایک بے قرار سی خوشبو رُکی ہوئی

ٹھہرے ہوئے سے وقت کی سرگوشیوں کے بیچ

تتلی کوئی ہے پھول کے لب پر جھکی ہوئی

پتے صبا کے پاؤں کی آہٹ کے منتظر

شاخوں کے درمیاں کوئی حیرت رواں سی ہے

بیٹھی ہے یوں وہ گھاس پہ پھولوں کے روبرو

آنکھوں کے آس پاس کوئی کہکشاں سی ہے

چہرے پہ دھوپ چھاؤں کا میلہ لگا ہوا

شانوں پہ بے دریغ سے گیسو کھلے ہوئے

قوسِ قزح نے اپنا خزانہ لُٹا دیا

رنگت میں اس کی رنگ ہیں سارے گھُلے ہوئے

آہٹ پہ میرے پاؤں کی دھیرے سے چونک کر

دیکھا ہے اُس نے مڑ کے مجھے اد ادا کے ساتھ

پھیلی ہے جسم و جاں میں عجب ایک سر خوشی

خوشبو سی کوئی اُڑنے لگی ہے ہوا کے ساتھ

۔۔۔۔۔۔۔۔






ترا کیا بنے گا اے دل

کسی خواب سے فروزاں کسی یاد میں سمٹ کر

کسی حُسن سے درخشاں کسی نام سے لپٹ کر

وہ جو منزلیں وفا کی مرے راستوں میں آئیں

وہ جو لذتیں طلب کی مرے شوق نے اُٹھائیں

اُنہیں اب میں جمع کر کے کبھی دھیان میں جو لاؤں

تو ہجومِ رنگ و بو میں کوئی راستہ نہ پاؤں

کہیں خوشبوؤں کی جھلمل کہیں خواہشوں کے ریلے

کہیں تتلیوں کے جمگھٹ کہیں جگنوؤں کے میلے

پہ یہ دلفریب منظر کہیں ٹھہرتا نہیں ہے

کوئی عکس بھی مسلسل سرِ آئینہ نہیں ہے

یہی چند ثانیے ہیں مری ہر خوشی کا حاصل

انہیں کس طرح سمیٹوں کہ سمے کا تیز دھارا

سرِ موجِ زندگانی ہے فنا کا استعارا

نہ کھُلے گرہ بھنور کی نہ ملے نشانِ ساحل

ترا کیا بنے گا اے دل! ترا کیا بنے گا اے دل

۔۔۔۔۔۔۔۔۔






ایک انوکھی کہانی

اربوں کھربوں تاروں اور سیاروں کی اس

بھیڑ میں رُک کر دیکھ سکیں تو

اپنی زمیں کی ساری وسعت اور پھیلاؤ

دُنیا بھرکے صحراؤں میں پھیلی ریت کا اک ذرہ یا

ممکن ہے اس سے بھی کم ہو

لیکن پھر بھی

اس موہوم سے ذرے اندر

کیسی کیسی دُنیائیں اور کیا کیا منظر بستے ہیں

دیکھنے والی آنکھیں روز بدل جاتی ہیں، منظر بجھتے رہتے ہیں

لیکن ہر منظر کے اندر اپنا ایک تماشا ہے

دیکھنے والی سب آنکھوں کی اپنی اپنی دُنیا ہے

سورج کی شرطوں پہ چلتا یہ جو ہمارا

جلتا بجھتا سیرا ہے

اب تک کے معلوم جہانوں کی واحد یہ آبادی ہے

آدم کا اور اُس کی ساری نسلوں کا گہوارا ہے

ہست و بود کے جتنے منظر جتنے رنگ ہیں

ان سب کا ور تارا ہے

کیسا عجب تماشا ہے یہ

ایک ہی آدم کی اولادیں ایک ہی دھرتی پر رہتی ہیں

لیکن پھر بھی

اک دوجے کے بیچ میں کتنی دیواریں ہیں

رنگوں نسلوں ملکوں کی

دولت اور عقیدوں کی

جن سے دُنیا، ہم سب کی یہ ایک ہی دُنیا

ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتی ہے

کوئی کسی کا میت نہ ہو گا لمحوں کا فرما ن یہی ہے

ہر گلشن کا رنگ جُدا موسم کا اعلان یہی ہے

ہم جس خلقت کا حصہ ہیں اُس کی اب پہچان یہی ہے

بے چہرہ ، چہرے ہیں سب کے ، ہونٹ سوالی رہتے ہیں

بھوک کی بولی بولتی آنکھیں

پیٹ کے اندر ہوتی ہیں جو اک خالی رہتے ہیں

آئی ۔ایم ۔ایف اور اس طرح کے کئی ادارے

اُس کے رزق کا لقمہ لقمہ گنتے ہیں اور اُس کو اُسکے

اپنے ہی پیڑوں کا پھل بھیک کی صورت میں ملتا ہے

یوں لگتا ہے جیسے سب اخلاقی قدریں سارے رشتے

صرف کتابوں میں ہوتے ہیں

جیسے بس یہ زور آور ہیں اصل حقیقت

باقی سارے قصے ہیں

ایک شکستہ آئینے کے ٹوٹے بکھرے حصے ہیں

ٹوٹے بکھرے ان حصوں کو جوڑے کون

چاروں اور سے گھیرا کرتی دیواروں کو توڑے کون

یوں لگتا ہے

جیسے یہ اک خواب ہے جس کی

کوئی بھی تعبیر نہیں

ٹکڑے ہو کر پھر سے ملنا

دھرتی کی تقدیر نہیں

شاید یہ سب ٹھیک ہو لیکن

دل کہتا ہے

اس سارے سنسار سے اوپر

اور کوئی بھی تو رہتا ہے

جس کے حکم سے وقت کا دھارا

رُکتا بھی ہے اور بہتا ہے

یہ جو اندر سے اُٹھتی ہے ایک صدا انجانی سُنئے

آئیے ایک کہانی سُنیے

***

مکتب کی دیوار پہ چسپاں کرۂ ارض کا اک نقشہ تھا

اس نقشے پر بنے ہوئے تھے کتنے ہزاروں شہر اور قصبے

نہریں ، جھیلیں، دریا ، جنگل

گہرے اور منہ زور سمندر، ساحل ،کوہستان

اک دن اک بچے نے یونہی

کھیل کھیل میں نقشے والا کاغذ ایک دم پھاڑ دیا

اور

اک اک کر کے اس کے اتنے ڈھیروں ٹکڑے کر ڈالے

جن کو اب ترتیب سے واپس جوڑ کے رکھنا ناممکن تھا

ٹیچر نے بچے کو ڈانٹا

۔ جب تک سارے ٹکڑے جوڑ کے نقشے کی ترتیب کے مطابق نہیں کرو گے

تُم کو چھٹی نہیں ملے گی

جاؤ اُس کونے میں بیٹھو

اور یہ سارے پُرزے جوڑو

سارا نقشہ پھر سے اس کی اصلی شکل میں واپس لاؤ

ٹیچر دل میں سوچ رہا تھا

کام بہت مشکل ہے لیکن بچے کی اصلاح کی خاطر اتنی سختی لازم ہے

لیکن اس کی حیرت کی تو حد نہ رہی جب اُس نے دیکھا

بچہ پانچ منٹ میں سارا نقشہ جوڑ کے لے آیا تھا

ہر شے اپنی اصل جگہ پر ٹھیک طرح سے رکھی تھی

اُس نے پوچھا

تُم نے اتنے ڈھیروں ٹکڑے اتنے تھوڑے وقت میں آخر

کیسے جوڑ لیے؟۔

بچہ بولا:

اس نقشے کے پیچھے ایک انسان کا چہرا بنا ہوا تھا

میں نے جب وہ چہرہ جوڑا

دُنیا کے نقشے کے ٹکڑے ، خود ہی جُڑ کر

اپنی جگہ پر آ بیٹھے ہیں

کیا یہ ایک کہانی ہے!!

۔۔۔۔۔۔۔۔






شام تھی ساعتِ زوال میں گُم

شام تھی ساعتِ زوال میں گُم

زخم تھا اپنے اندمال میں گُم

حدِ ادراک میں تھا جو بھ کچھ

سب تھا بس ایک ہی سوال میں گُم

تیز آندھی میں کیا چراغ کی لو؟

برف میں کیسی آبلہ پائی؟

کارنس پر تھے پھول سوکھے ہوئے

سیڑھیوں میں بچھی تھی تنہائی

خواب تھے کھڑکیوں میں آویزاں

زینتِ طاق تھی شکیبائی

ایک نا طاقتی تھی چاروں طرف

راستہ راستہ تھی پسپائی

کہکشاؤں کے درمیاں لرزاں

ایک نا مختتم سی پہنائی

فاصلے تھے فریب آنکھوں کا

ناپتا کون غم کی گہرائی

اک گریزاں سے عکس کی خاطر

آئنے ہو رہے تھے سودائی

یوں ستارے تھے منتظر، جیسے

درِ محبوب پر تمنائی

وقت تھا روز و شب کی چال میں گُم

میں تھا اپنے کسی خیال میں گُم

۔۔۔۔۔۔۔۔






زمستاں مرے جسم میں موجزن ہے

کوئی بات کہہ کے،

میں جب اپنی سانسوں کو کہرے میں لپٹی ہوئی

شاہراہوں پہ چلتے ہوئے دیکھتا ہوں

تو بے روئے سانسوں کا جالا سا چاروں طرف پھیلتا ہے

اور آگے کی چیزوں ہیولوں کی مانند بنتی بگڑتی ہیں

تب لوگ کہتے ہیں

۔یہ رُت زمستاں کے کھلنے کی ہے۔

اور میں سوچتا ہوں

۔زمستاں کہاں ہے

دھُواں بنتی سانسوں میں!

آنسو کے جالے میں!

یا ان ہیولوں کے بننے بگڑنے میں یا۔۔۔۔۔۔۔

اگر یہ حقیقت میں فصلِ زمستان ہے تو کس سے پوچھوں

کہ جو اتنے موسم گئے اور آئے

سبھی کی شباہت زمستاں سی کیوں تھی؟

۔۲۔

کئی سال گزرے

انہی شاہراہوں پہ چلتے ہوئے ہم کوئی بات کہہ کے

دھُواں بنتی سانسوں میں اپنے ہی الفاظ کو دیکھتے تھے

نجانے میں اس وقت کیا کہہ رہا تھا!

کہ تُم تھے جو کچھ کہتے کہتے اچانک رُکے تھے!

کہ پھر یہ زمستاں تھا جس نے کوئی ان کہی بات کاٹی تھی !

کچھ ٹھیک سے یاد آتا نہیں۔۔۔

صرف اتنا پتا ہے

کہ اس دن سے آنکھوں میں آنسو کے جالے ہیں

آگے کی چیزیں ہیولوں کی مانند بنتی بگڑتی ہیں۔۔۔

بنتی بگڑتی ہیں۔۔۔بنتی بگڑتی چلی جا رہی ہیں

۔۳۔

زمستاں جدائی کے موسم کا اک آئینہ ہے

اور اس آئینے میں

تمہیں جس گھڑی میں مسافت کی پھیلی ہوئی دھُند میں دیکھتا ہوں

مجھے ایسا لگتا ہے

جیسے ہر اک شے اسی ایک لمحے سے پیدا ہوئی ہے

ہر اک رُت اسی خواب کا عکس ہے ، سارے موسم مرے

جسم میں موجزن ہیں

لہو کے سمندر کی امواج ہیں

زمیں ، آسماں، پھول، تارے ، ہوائیں، سمندر، جزیرے پہاڑ اور ندیاں

تمہارے ہی چہرے کے بھُولے ہوئے نقش ہیں اور موسم،

ازل سے ابد تک کا ہر ایک موسم

جُدائی کے موسم کی تجرید ہے۔۔۔

۔۴۔

زمستاں مرے ہست کا استعارہ ہے، وہ آئینہ ہے

جو کھوئے ہوئے عکس کا ترجماں ہے

جُدائی کے لمحے سے کچھ دیر پہلے جو تُم مسکرائے تھے

اس کا گماں ہے

کوئی بات کہہ کے

میں جب اپنی سانسوں کو کہرے میں لپٹی ہوئی شاہراہوں

پہ چلتے ہوئے دیکھتا ہوں تو بے روئے آنسو کا جالا سا چاروں

طرف پھیلتا ہے اور آگے کی چیزیں ہولوں مانند بنتی بگڑتی ہیں

میں سوچتا ہوں

زمستاں کہاں ہے

۔۔۔۔۔۔






آج

یہ آج جو کل میں زندہ تھا

وہ کل جو آج میں زندہ ہے

وہ کل جو کل کے ساتھ گیا

وہ کل جو ابھی آئندہ ہے

گزر چکے اور آنے والے جتنے کل ہیں جتنے کل تھے

ان کا کوئی وجود نہ ہوتا

ہم اور تم بے اسم ہی رہتے

آج اگر موجود نہ ہوتا

ممکن ہے آئندہ صرف اک خواب ہو جس کی

تعبیروں میں جینے والی ساری آنکھیں ڈوب چکی ہوں

(لیکن وہ خود بجھ کر بھی رخشندہ ہو!)

ہو سکتا ہے

رفتہ کی دہلیز پہ ٹھہری

بھید بھری اس آنکھ کے اندر

چھپا ہوا آئندہ ہو

آئندہ کے منہ پہ پڑی یہ غیب کی چادر

اُٹھ جائے تو ہو سکتا ہے

اس میں ہمارا اور تمہارا

ایک اک لمحہ زندہ ہو

(روشن اور تابندہ ہو)

لیکن یہ بھی دھیان میں رکھنا

ہو سکتا ہے آنے والے کل میں ہمارا آج نہ ہو

اور اُس کی جگہ

اک ایسے وقت کا سایہ سا رقصندہ ہو،جو

ماضی حال اور مستقبل کے

تین کناروں والے اس دریا سے یکسر باہر ہو

(اور کہیں سے جنم ہو اس کا ٔ اور کہیں پہ ظاہر ہو)

ماضی حال اور مستقبل!

تین کناروں والے اس دریا کے اندر

اپنی اپنی موجیں مارتے چلتے ہیں

پھر اُس لہر میں ڈھلتے ہیں

جو صبحِ ازل کو اُچھلی تھی اور اب تک کہیں معلق ہے

اُسی معلق لہر کے بے خود قطرے ہیں ہم

ہم اور ہم سے اربوں ،کھربوں

(گزر چکے اور آنے والے)

سو اے وقت کی حیرت میں کھو جانے والی آنکھ ۔۔ٹھہر

آج کے پُل پر رُک کر آگے پیچھے دیکھ

روشنی اور تاریکی شاید، ایک ہی ڈال کے پتے ہیں

لمحوں کا یہ فرق نظر کا دھوکہ ہے

وقت کی اس نا وقتی کے سیلاب میں ۔۔شاید!

آج ہی واحد لمحہ ہے!!

عمرِ رواں کی دہشت میں کھو جانے والی آنکھ ٹھہر!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔






اسرافیل کہاں ہے

بستیوں میں ظلم کا پرچم کھُلا ہے

لوگ پھر اندھے سفر کی راہ میں حائل ہوئے ہیں

پھر طلسمِ بابِ شہرِ غم کھُلا ہے

پھر بدن سڑکوں پہ گرتے خوں سے اپنی کشمکش کی داستاں لکھنے لگے

چوک دشتِ ہول کا منظر بنے

مر مریں بانہوں میں ٹوٹی چوڑیوں کی کرچیاں اُتریں

تو سینے یاد کے محشر بنے

پھر کئی ماؤں کی آنکھیں زینتِ در ہو گئیں اور منتظر کانوں میں

کھوئی آہٹوں کے گھر بنے

آرزو کے راستے پتھر بنے

جبر کی منزل میں ہے ! ۔۔۔۔۔ہر ایک شے

کیوں زمیں پھٹتی نہیں اندھیر ہے

آسمانو ، دیکھتے ہو کس کا منہ

کیا دیر ہے

کوہسارو روئی کے گالے بنو

اور اے سمندر ، ساحلوں کے باب سے باہر نکل

نقشِ فردا ۔ خواب سے باہر نکل

۔۔۔۔۔۔۔۔۔






آبِ حیات

۔۱۔

آتے جاتے موسموں کی لوح پر

لکھے ہواؤں نے

بہت سے لفظ ایسے

جن کے معنی، اب کسی کو بھی نہیں آتے

کہ وہ گزرے زمانوں کے کسی انجان دو راہے پہ

رستہ بھول بیٹھے تھے

نتیجہ یہ ہوا کہ اب وہ ماضی میں تو زندہ ہیں

مگر کچھ اس طرح جیسے

مشینوں کے توسط سے کوئی ۔کومے ۔ میں زندہ ہو

کچھ ایسے لفظ بھی اس لوح پر لکھے ہوئے ہیں

جن کے معنی اب نہیں ظاہر

مگر اک وقت آئے گا

کہ یہ مفہوم کی پوشاک پہنیں گے

بلند آواز میں بولیں گے اور باتیں کریں گے

۔۲۔

کبھی کے مر چکے اور آنے والے لفظ میں کیسا یہ رشتہ ہے

کہ دونوں ایک ہی لمحے میں زندہ بھی ہیں ۔۔مردہ بھی

ہمارا کام تو بس لوح کی خالی جگہوں پر

حاشیوں کی بالکونی سے

انہیں آواز دینا ہے

کہ یہ اپنی جگہ پر آ کے بیٹھیں تو

ہماری بات بھی تحریر میں آئے

ہمارے ہست کا منظر کسی تصویر میں آئے

۔۳۔

ہمیں معلوم ہے اک دن گزرتے وقت کی دیمک

ہمیں بھی چاٹ جائے گی

کہ یہ اس کا وظیفہ ہے

یہ روشن دن جو نکلا ہے یہ آخر شام بھی ہو گا

۔ وہ مہلت جو ملی ہم کو وہ کیسے بے ثمر نکلی!

وضاحت کون سُنتا ہے

تلافی کس سے مانگیں ہم۔

ہمارے سر پہ اپنے خون کا الزام بھی ہو گا

تو اس دیمک کا رزقِ بے نشاں بننے سے پہلے

آخری حیلہ تو کر دیکھیں

جو کاغذ اپنے حصے کا ہے وہ کاغذ تو بھر دیکھیں

بہت مشکل سہی لیکن نہیں امکان سے باہر

کہ وہ الفاظ جن کے آج تک معنی نہیں ظاہر

ہم اُن کا بھید پا جائیں

اُنہیں اس لوح کا پر لکھی ہوئی تحریر کا حصہ بنا جائیں

اگر اس موڑ سے پہلے

جہاں اس بے جہت کاوش کو رزقِ خاک ہونا ہے

جہاں اس زندگی کے قرض کو بے باق ہونا ہے

جہاں پر ہر بقا لمحہ ، فنا پیغام بھی ہو گا

جہاں خورشید کا سایہ شریکِ شام بھی ہو گا

اگر اُس موڑ سے پہلے

کسی صورت

ہم ان لفظوں کے پوشیدہ معانی جان پائیں تو

سمے کی لوح پر لکھے ہوئے کچھ خاص ناموں میں

ہمارا نام بھی ہو گا

ہمارا کام بھی ہو گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔






تجھے یاد ہے اسی ریت پر

میں ہوں جس مکان کی چھت تلے

مرا گھر نہیں

ترا نام درج ہے جس جگہ

ترا در نہیں

تجھے یاد ہے کسی شام ہم نے بنایا تھا

کہیں ایک چھوٹا سا ریت گھر

اُسی ریت سے اُسی ریت پر

(اُسی ریت پر

جو تھی راہ میں کسی موج کے

کبھی اپنے ہونے کے دھیان میں

کبھی معجزوں کے گمان میں)

ہمیں علم تھا

ہمیں علم تھا کہ وہ ریت گھر

جو تھے منتظر کسی موج کے

انہیں ٹوٹ جانے سے روکنے کا خیال امرِ محال ہے

اسی موج و ریگ کے کھیل سے ہی بحال ہے

وہ تلازمہ، وہی رابطہ، جسے ماننے کے فشار میں

رہِ آگہی کے سراب بھی

سبھی خواب بھی

اسی ایک لمحۂ مختصر کے حصار میں ہے گھرا ہوا

کظِ ریگ بھی کفِ آب بھی

پہ یہ داستاں

تو تھی ترجماں

کسی کھیل کی

جسے کھیلتے ہمیں آ لیا کسی رات نے

اُسی رات نے

جسے اپنے خوں سے جواں کیا

مرے شوق نے ترے ساتھ نے

کسی ان چھوئے خیال نے

کسی دور ہوتی سی بات نے

تجھے یاد ہے مجھے یاد ہے

وہ جو بات کی بڑی دیر تک

مرے ہاتھ سے ترے ہاتھ نے

کہاں تھا گُماں، کسے تھی خبر

جو کہا تھا شوق کی لہر نے

جو لکھا ریت کی لوح پر

اُسی ایک شام کا کھیل تھا

اُسی ایک پل کا جمال تھا

اُسی کھیل میں

اُسی شام کو

وہ جو ریت گھر سے بکھر گئے

وہ جو ایک پل میں اُجڑ گئے

مرے خواب تھے

ترے خواب تھے

۔۔۔۔۔۔۔






دوسری ملاقات

ہجر کی پہلی شام سے اب تک

جتنی شامیں گزری تھیں

اُن کی پتھر چُپ میں ، میں نے

(اُس کے سامنے کرنے والی)

کیا کیا باتیں سوچی تھیں!

۔باتیں گزرے برسوں کی جو ہم نے الگ سے کاٹے ہیں

غموں کی اور اُن خوشیوں کی ہم جن سے ہو کر گزرے ہیں

جیتوں کی اور اُن ماتوں کی جو عمرِ رواں کا رزق ہوئیں

آسوں اور اُمنگوں کی جو دشتِ گُماں کا رزق ہوئیں ۔

کیسے کیسے بھٹکے آہو ، صحرائے امکان میں آئے

شمعِ طلب کے کیسے کیسے روشن پہلو دھیان میں آئے

۔ڈھلتی رات کا جادو ہو گا

لمحہ لمحہ خوشبو ہو گا

پھول اور تتلی یکجا ہوں گے

رنگ ہوا سے پیدا ہوں گے

ایک ہی وصل کی بارش سے وہ سارے شکوے دھو دے گا

یعنی میرے ساتھ لپٹ کر ، کچھ نہ کہے گا رو دے گا

ارمانوں کا پھول اچانک کھل ہی گیا

جس کے غم میں آنکھ برستی رہتی تھی

آج مجھے وہ مل ہی گیا

جس کو میری پیاس ترستی رہتی تھی

وہ ایک چھلکتا جام مرے ہمراہ رہا

آج وہ ساری شام مرے ہمراہ رہا

لیکن اب وہ اور تھا کوئی ، اور تھا اُس کا روپ نگر

اوس رُکی تھی آنکھوں میں تو راکھ جمی تھی بالوں پر

اور کوئی تھی دُنیا اُس کی اور تھے اُس کے شام و سحر

( میری حیرت لکھی ہوئی تھی شاید میرے چہرے پر)

اُس نے کہا، تُم مجھے نہ دیکھو، آبِ روانِ وقت سے پوچھو

جیون کے اس پُل نیچے سے کتنا پانی گزر چکا ہے

مجھ میں جو اک شخص تھا زندہ ، وہ تو کب کا بکھر ہے

میں تو فقط رستہ ہوں اُس کا دریا جو تھا اُتر چکا ہے

آؤ چلو اب اپنی اپنی دُنیا کو ہم لوٹ چلیں

حدِ ابد تک اس رستے میں بکھرے ہیں غم لوٹ چلیں

پلٹے ہم تو ہم دونوں کے ساتھ زمانہ پلٹ گیا

ان دیکھی تعبیر لئے اک خواب پرانا پلٹ گیا

چاروں جانب بکھر رہی تھی

ایک ادھوری تنہائی

ہوا نے رُک کر ہم دونوں کو مُڑتے دیکھا تو گھبرائی

پت جھڑ کی دہلیز پہ اُس نے

پیڑ سے کچھ سرگوشی کی

اس کے بعد اُس راہ گزر پر

دور تلک خاموشی تھی

آسماں پر بادل تھا اور اُس میں تارے سمٹے تھے

ہم دونوں کے قدموں سے کچھ سوکھے پتے لپٹے تھے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔






دوسری جُدائی

تری خوشبو

ہوا کے سبز دامن میں بسی

تو سوچ نے آنکھوں میں خواہش کے دریچے کھول کر دل سے کہا

۔خدا شاہد

کہ ہم نے آج تک بچھڑے ہوؤں کو پھر کبھی ملتے نہیں دیکھا

مگر حیرت سماعت پر کہ یہ آہٹ اُسی کی ہے

جسے تُم نے گنوایا تھا

جُدائی کی ہوا جس کے مہکتے مہکتے جسم کی خوشبو سے خالی تھی

جسے کھونے کا لمحہ ہر نئے موسم کا حاصل تھا

ستارے جس کی صورت دیکھنے ہر شب نکلتے تھے

نظارے ہاتھ ملتے تھے۔

۔۲۔

یکایک شہر کی گلیوں میں اُس کے نام کی خوشبو اُڑی میں نے

رفاقت کے پُرانے نرم لہجے میں اُسے آواز دی

اُس نے مجھے دیکھا

مگر اُس کی نگاہوں میں فقط حیرت ہویدا تھی

کہ جیسے پوچھتا ہو اس تخاطب کا سبب کیا ہے

وہی چہرہ ،وہی آنکھیں، وہی خوش وضع پیکر تھا

کہ جیسے موسموں کا گھُن اُسے چھونے سے قاصر ہو

میں بچے کی طرح ششدر کھڑا تھا

اُس نے بالوں کو جھٹک کر ڈوبتے سورج کو گھورا

راستے کو آنکھ میں تولا،مجھے دیکھا

۔سفر لمبا ہے۔، وہ بولا

مری منزل تمھاری رہگزر سے سینکڑوں فرسنگ آگے ہے

خدا حافظ!

۔۔۔۔






اندیشہ

ضروری نہیں ہے

ضروری نہیں ہے جو ساحل کی گیلی خنک ریت پر

ہاتھ میں ہاتھ دے کر

سفر اور تلاطم کے قصے سُنائے

جزیروں ، ہواؤں اور ان دیکھے موسم

اور آنکھوں سے اوجھل کناروں پہ بکھرے

ہوئے منظروں، ذائقوں اور رنگوں کی باتیں کرے

وہ ان وارداتوں سے گزر ابھی ہو

گر کہے، آؤ ہم ان پریشاں موجوں کا پیچھا کریں

جو ترے اور مرے پاؤں کو چومتی ہیں

تلاطم کی بے نام منزل سے گزریں

یہ دیکھیں ہوائیں کسے ڈھونڈتی ہیں

تو چلنے سے پہلے ذرا سوچ لینا

ضروری نہیں ہے جو اندیکھے رستوں کی خبریں سُنائے

وہ ان رستوں کا شناسا بھی ہو

کہیں یہ نہ ہو جو سمندر میں تُم اُس کو ڈھونڈو تو وہ

ساحلوں پہ کھڑا مسکراتا رہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔






نئے لفظوں کی خوشبو

لکھوں وہ لفظ، کسی نے لکھے نہ ہوں اب تک

کروں وہ بات نہ جس سے ہو آشنا کوئی

چنوں وہ رنگ جو پیدا نہیں ہوئے، لیکن

یہ آگہی کے علم کس لئے بلند کروں

جو میرے ذہن میں جلتا ہے اُس چراغ کی لو

وہ روشنی تو نہیں جس کی آرزو لے کر

ازل سے محوِ سفر ہیں یہ آدمی زادے

سیاہ بخت لئے ۔۔رزق پائے باد بنے

دیارِ ذہن میں جلتے ہوئے چراغ، ٹھہر

تری ضیا ء تو کوئی اور راہ پا لے گی

یہ موجِ سیل ہے رستہ نیا بنا لے گی

مگر یہ قبر سے تاریک بستیاں میری

یہاں چراغ نہیں سُورجوں کی حاجت ہے

ہمارے خوں سے مہکتے ہوئے جواں سُورج

زمانے بھر کے غریبوں کے ترجماں سُورج

جہاں جہاں ہے اندھیرا، وہاں وہاں سورج

میں ایسے لفظ لکھوں گا جو سب کے دل میں ہیں

فقط وہ بات کروں گا جو سب سمجھتے ہیں

اور ایسے رنگ چنوں گا جو میری گل میں ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔






شاعر

کیسے کاریگر ہیں یہ!

آس کے درختوں سے

لفظ کاٹتے ہیں اور سیڑھیاں بناتے ہیں!

کیسے با ہنر ہیں یہ!

غم کے بیج بوتے ہیں

اور دلوں میں خوشیوں کی کھیتیاں اُگاتے ہیں

کیسے چارہ گر ہیں یہ!

وقت کے سمندر میں

کشتیاں بناتے ہیں آپ ڈوب جاتے ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔






اکیسویں صدی کے لئے ایک نظم

سمے کے رستے میں بیٹھنے سے

تو صرف چہروں پہ گرد جمتی ہے

اور آنکھوں میں خواب مرتے ہیں

جن کی لاشیں اُٹھانے والا کوئی نہیں ہے!

ہماری قسمت کے زائچوں کو بنانے والا کوئی ہو شاید

پر ان کا مطلب بتانے والا کوئی نہیں ہے!

وہ سارے رسے روایتوں کے جن کی گرہیں کسی ہوئی ہیں

ہمارے ہاتھوں سر اور پاؤں سے لے کے خوابوں کی گردنوں تک

ہماری روحوں میں کھُبتے جاتے ہیں

اور ہم کو بچانے والا، چھڑانے والا کوئی نہیں ہے!

زباں پہ زنجیر سی پڑی ہے

دلوں میں پھندے ہیں

اور آنکھوں میں شامِ زنداں کی بے کسی ہے

چراغ سارے بجھے پڑے ہیں جلانے والا کوئی نہیں ہے!

مرے عزیزو مجھے یہ غم ہے

جو ہو چکا ہے بہت ہی کم ہے

سمے کے رستے میں بیٹھے رہنے کے دن بھی اب ختم ہو رہے ہیں

بچے کھچے یہ جو بال و پر ہیں

جو راکھ داں میں سُلگنے والے یہ کچھ شرر ہیں

ہمارے بچوں کے سر چھپانے کو جو یہ گھر ہیں

اب ان کی باری بھی آ رہی ہے

وہ ایک مہلت جو آخری تھی

وہ جا رہی ہے

تو اس سے پہلے زمین کھائے

ہمارے جسموں کو اور خوابوں کو

اور چہروں پہ اپنے دامن کی اوٹ کر دے

یہ سرد مٹی جو بھُربھُری ہے

ہماری آنکھوں کے زرد حلقے لہو سے بھر دے

مرے عزیزو چلو کہ آنکھوں کو مل کے دیکھیں

کہاں سے سورج نکل رہے ہیں

سمے کے رستے پہ چل کے دیکھیں

۔۔۔۔۔۔۔۔






ایک دن

آخری چند دن دسمبر کے

ہر برس ہی گراں گُزرتے ہیں

کیسے کیسے گُماں گزرتے ہیں

رفتگاں کے بکھرتے سایوں کی

ایک محفل سی دل میں سجتی ہے

فون کی ڈائری کے صفحوں سے

کتنے نمبر پُکارتے ہیں

جن سے مربوط، بے نوا، گھنٹی

اب فقط میرے دل میں بجتی ہے

کس قدر پیارے پیارے ناموں پر

رینگتی بد نما لکیریں سی

میری آنکھوں میں پھیل جاتی ہیں

دوریاں ، دائرے بناتی ہیں

دھیان کی سیڑھیوں پہ کیا کیا عکس

مشعلیں درد کی جلاتے ہیں

نام جو کٹ گئے ہیں، اُن کے حرف

ایسے کاغذ پہ پھیل جاتے ہیں

حادثے کے مقام پر جیسے

خون کے سوکھتے نشانوں پر

چاک سے لائنیں لگاتے ہیں

پھر دسمبر کے آخری دن ہیں

ہر برس کی طرح سے اب کے بھی

ڈائری اک سوال کرتی ہے

کیا خبر اس برس کے آخر تک

میرے ان بے چراغ صفحوں سے

کتنے ہی نام کٹ گئے ہوں گے

کتنے نمبر بکھر کے رستوں میں

گردِ ماضی سے اٹ گئے ہوں گے

خاک کی ڈھیریوں کے دامن میں

کتنے طوفاں سمٹ گئے ہوں گے

ہر دسمبر میں سوچتا ہوں میں

ایک دن اس طرح بھی ہونا ہے

رنگ کو روشنی میں کھونا ہے

اپنے اپنے گھروں میں رکھی ہوئی

ڈائری دوست دیکھتے ہوں گے

اُن کی آنکھوں کے خاکدانوں میں

ایک صحرا سا پھیلتا ہو گا

اور کچھ بے نشان صفحوں سے

نام میرا بھی کٹ گیا ہو گا!!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تشکر: امجد اسلام امجد اجازت عطا کرنے کے لئے اور زرقا مفتی جن کے توسط سے فائل کا حصول ہوا

پروف ریڈنگ اور ای بک کی تشکیل : اعجاز عبید


0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

مجموعے

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔