07:57    , اتوار   ,   19    مئی   ,   2024

محاورات

578 0 0 00

( 1 ) شاخ در شاخ ہونا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

کئی پہلو نکلنا یا نکالنا شاخ دراصل کوئی معاملہ مسئلہ یا مقدمہ بھی ہوتا ہے درخت کی ڈالی یا شاخ تو اپنی جگہ ہوتی ہی ہے اور شاخ کا یہ انداز قدرتی طور پر ہوتا ہے کہ شاخ میں سے شاخ نکلتی رہتی ہے اور ایک پہلو کے مقابلہ میں یا اُس کے علاوہ کوئی دوسرا پہلو سامنے آتا رہتا ہے ہمارے سماجی معاملات ہوں یا گھریلو مسائل کاروبار سے متعلق کوئی بات ہو یا اس کا تعلق انتظامی امور سے ہو شاخ در شاخ ہوتے رہتے ہیں بات میں سے بات اور  نکتہ میں سے نکتہ ہماری عام گفتگو میں بھی نکلتا رہتا ہے۔

( 2 ) شاخِ زعفران۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

زعفران ایک خوشبودار شے ہوتی ہے جس کا اپنا پودا بھی ہوتا ہے اور  کشمیر میں اس کی کاشت کی جاتی ہے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ زعفران کا کھیت دیکھ کر ہنسی آتی ہے اسی لئے جو آدمی خوش مزاج ہوتا ہے اور ہنسنے ہنسانے کی باتیں کرتا رہتا ہے اُسے شاخِ زعفران کہا جاتا ہے۔

( 3 ) شاخسانہ نکالنا یا نکلنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

کسی بات کے ایسے پہلو یا نتیجے نکلنا جو پہلے سے نظر میں نہ ہوں شاخسانے نکلنا یا نکالنا کہا جاتا ہے اور ہماری معاشرتی زندگی میں ایسی باتیں ہوتی رہتی ہیں اور لوگوں کو اس کا شوق ہوتا ہے کہ وہ نئے نئے نتیجے نکالتے رہتے ہیں اور اُس میں لوگوں کو لطف آتا ہے آخر بات کا بتنگڑ بنانا بھی تو ہمارے معاشرے کا ایک سماجی رو یہ ہوتا ہے اسی طرح شاخسانے نکالنا ہمارے معاشرے کا خاص انداز ہے سورج کا ڈھنگ ہے۔

( 4 ) شادیِ مرگ ہونا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

اتنی خوشی ہونا کہ آدمی کی حرکت قلب بند ہو جائے کہ اس پر موت طاری ہو جائے انسان ایک جذباتی جاندار ہے وہ ایک وقت میں اتنا ناراض ہوتا ہے کہ دوسرے کا خون کر جاتا ہے یہاں تک کہ خون کو پی لیتا ہے جگر چبا لیتا ہے آدمی کی بوٹیاں چیل کوَّے کو کھلا دیتا ہے اتنا مہربان ہوتا ہے کہ اپنا سب کچھ قربان کر دیتا ہے عشق کرتا ہے تو جنگل جنگل صحرا صحرا بھٹکتا ہے بقولِ فراقؔ۔

؂ پھرتے تھے دشت دشت دوانے کدھر گئے

وہ عاشقی کے ہائے زمانے کدھر گئے

انسان کی جذباتیت کا ایک پہلو جو محاورہ بن گیا وہ یہ بھی ہے کہ اپنی غیر معمولی حیثیت کے زیر اثر اتنا خوش ہوتا ہے کہ اس لمحہ پر مر مٹتا ہے اس محاورے میں ایک طرح سے انسان کے جذبات اور حسّیات پر روشنی ڈالی گئی ہے جواس کے معاشرتی روشوں پر اثرانداز ہونے والی سچائی ہے۔

( 5 ) شامت آنا، شامت سر پر کھیلنا، یا شامت اعمال ہونا ( سید ضمیر حسن دہلوی )

ہر عمل اپنا نتیجہ رکھتا ہے اگر عمل اچھا ہو گا تو نتیجے بھی اچھے ہوں گے اگر عمل خراب ہو گا تو نتائج بھی برے نکلیں گے یہ ہماری سماجی مذہبی اور تہذیبی سوچ ہے۔ اسی لئے برے عمل کے نتیجے کو شامت آنا کہتے ہیں اور  اردو میں شامت کے معنی ہی برے نتیجے کے ہیں کسی مصیبت کے پھنسے کو شامت آنا کہتے ہیں غالبؔ کا شعر ہے۔

؂ گدا سمجھ کے وہ چُپ تھا مری جو شامت آئی

اٹھا اور اُٹھ کے قدم میں نے پاسباں کے لئے

( 6 ) شاہ عبَّاس کا عَلم ٹوٹنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

تعزیہ داری اور مجالسِ محرم کا ایک نہایت اہم مرحلہ ’’عَلم‘‘ نکالنا ہوتا ہے یہ محرم کی سات تاریخ کی رسم ہے اس تاریخ کو محرم کے ’’عَلم‘‘ اٹھائے جاتے ہیں ان میں ایک خاص ’’عَلم‘‘ وہ ہوتا ہے جس میں اوپر کی طرف ایک چھوٹی سی مُشک لٹکی ہوتی ہے یہ حضرت عباس کا’’ عَلم‘‘ ہوتا ہے مشک اس بات کی علامت ہے کہ وہ حضرت عباس کا علم ہے جو سقّہ حَرم کہلاتے تھے اور کربلا میں جب اہلِ بیت پر پانی بند کیا گیا تھا تو وہی دریائے فرات سے پانی مشک بھرکر لائے تھے اور دشمنوں کا مقابلہ کیا تھا۔

حضرت عباس کا ’’عَلم‘‘ خاص طور پر احترام کا مستحق قرار دیا جاتا ہے اور حضرت عباس کی درگاہ واقع لکھنؤ پر ’’عَلم‘‘ چڑھانا شیعوں کے یہاں ایک مذہبی رسم بھی ہے جو منت کے طور پر ادا کی جاتی ہے۔

حضرت عباس حضرت اِمام حسین کے چھوٹے بھائی تھے مگر ان کی ماں دوسری تھیں حضرت عباس حضرت امام حسین کے بڑے وفادار اور اہلِ بیت کے نہایت ہی فداکار تھے حضرت عباسؑ کے’’ عَلم‘‘ کے ساتھ ٹوٹنے کا محاورہ بھی آتا ہے جو ایک بددعا ہے اور بدترین سزا خیال کی جاتی ہے جسے ہم کہتے ہیں جھوٹے پر خدا کی مار پڑے۔

( 7 ) شرع میں رخنہ ڈالنا،شرع پر چلنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

شرع سے مُراد ہے شریعت اسلامی دستور اور قانون اور مذہبی قانون اسی لئے اُس کا احترام بہت کیا جاتا ہے اور ذرا سی بات اِدھر اُدھر ہو جاتی ہے تو اُسے مولویوں کی نظر میں بِدعت کہا جاتا ہے اور مذہب پسند طبقہ اسے شرع میں رخنہ ڈالنا کہتا ہے ’’رخنے ڈالنا‘‘ خود بھی محاورہ ہے اور اس کے معنی ہیں اڑچنیں پیدا کرنا رکاوٹیں کھڑی کرنا اس سے ہمارے معاشرتی طبقہ کے ذہنی رویوں کا پتہ چلتا ہے کہ وہ کن باتوں پر زور دیتے ہیں اور کن رویوں کو کس طرح سمجھتے ہیں اور پھِر کنِ الفاظ میں اس کا ذکر کرتے ہیں الفاظ کا چناؤ ذہنی رویوں کا پتہ دیتا ہے۔

محاورے میں الفاظ کی جو نشست ہوتی ہے اُسے بدلا نہیں جاتا وہ روزمرہ کے دائرے میں آ جاتی ہے جس کا تربیتی ڈھانچہ توڑنے کے اہلِ زبان اجازت نہیں دیتے وہ ہمیشہ جوں کا توں رہتا ہے یہ محاورے کی ادبی اور سماجی اعتبار سے ایک خاص اہمیت ہوتی ہے شرع پر چلنا ایک دوسری صورت ہے یعنی قانونِ شریعت کی پابندی کرنا جس کو ہم اپنے سماجی رویوں میں بڑی اہمیت دیتے ہیں۔

( 8 ) شرم سے پانی پانی ہونا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

ہمارے ہاں جن محاوروں کی خاص تہذیبی اہمیت ہے اُن میں اظہارِ ندامت کرنے سے متعلق محاورے بھی ہیں اِس سے معاشرے کے عمل و ردِ عمل کا پتہ چلتا ہے ایک عجیب بات یہ ہے اور اس سے سوسائٹی کے مزاج کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ ہماری زبان میں شکر یہ سے متعلق محاورے کیا ہوتے شکر یہ کا لفظ بھی قصبات اور دیہات کی سطح پر موجود نہیں ہے ہندی میں بیشک ابھاری ہونا کہتے ہیں مگر دیہات  و قصبات کی سطح پراس لفظ کی پہنچ بھی نہیں ہے اس کے مقابلہ میں اظہارِ شرمندگی کے لئے ایک بہت پرکشش اور بامعنی محاورہ آتا ہے اور وہ ہے شرم سے پانی پانی ہونا۔

( 9 ) شوشہ اُٹھانا، شوشہ نکالنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

یہ تحریر و نگارش کی ایک اِصطلاح ہے اِس کے معنی ہوتے ہیں حرف کی شکل کو ایک ایسی صورت دینا جو اِملا کے اعتبار سے زیادہ واضح اور زیادہ صحیح ہو اُردُو رسم الخط میں فنِّ کتابت کی بہت سی نزاکتوں کا خیال رکھا گیا ہے اس میں شوشہ لگانا اور شوشہ دینا بھی شامل ہے اس سے اُردُو میں جو محاورہ بنا ہے اس کی سماجی اہمیت بہت ہے لوگوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ بات بات میں اعتراض کرتے ہیں اور نئے پہلو نکالتے ہیں اسی کو شوشہ نکالنا بھی کہا جاتا ہے۔ شوشہ نکالنا بات چیت سے تعلق رکھتا ہے اور شوشہ لگانا تحریر سے مطلب اعتراض کرنا اور کمزوریاں دکھانا ہوتا ہے۔ تحریر یا تقریر کی اصطلاح یا  تصحیح پیش نظر نہیں ہوتی جس سے ہمارے معاشرتی رویوں کا اظہار ہوتا ہے۔

( 10 ) شِکار ہونا، شِکار کرنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

شِکار انسان کا قدیم پیشہ ہے اِسی کے سہارے اُس نے ہزارہا برس پہاڑوں اور جنگلوں میں گزارے ہیں وہ جانوروں کا شکار کرتا تھا اور انہی سے اپنا پیٹ پالتا تھا اُن کے پروں سے اپنے بدن کو سجاتا تھا اُن کی ہڈیوں سے اپنے لئے زیور اور ہتھیار تیار کرتا تھا اور اُن کی کھال پہنتا تھا۔

انسان کی قدیم تاریخ اُس کے شکار کی تاریخ ہے اور  اُس کے تمدّن میں جانور طرح طرح سے شریک تھے اب سے کچھ دنوں پہلے تک بھی شکار کا شوق بہت تھا۔ شکار پارٹیاں نکلتی تھیں نشانہ باز ساتھ ہوتے تھے اور شکار تقسیم کیا جاتا تھا اور تحفتاً بھیجا جاتا تھا تاریخ میں بادشاہوں کے شکار کا ذکر آتا تھا اور  اس میں کیا کچھ اہتمام ہوتا تھا اس کا بھی ہماری سماجی زندگی میں شکار جن جن اعتبارات سے حوالہ بتا رہا ہے اسی کا اثر زبان اور محاورات پربھی مُرتب ہوتا رہا ہے یہاں تک کہ شکار کرنا اور شکار ہو جانا ایک خاص محاورہ بن گیا جس کے معنی ہیں فریب دینا اور فریب میں آ جانا بہرحال یہ بھی ہماری سماجی زندگی ہے کہ ہم طرح طرح سے فریب دیتے ہیں۔ اور فریب میں آ بھی جاتے ہیں۔

( 11 ) شکل بگاڑنا، شکل بنانا ،شکل سے بیزار ہونا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

شکل یعنی صورت ہماری تہذیبی اور معاشرتی زندگی کا ایک اہم حوالہ ہے اسی لئے کہ آدمی اپنی شکل و صورت سے پہچانا جاتا ہے اور ہم دوسروں سے متعلق اپنے جس عمل ورد عمل کا اظہار کرتے ہیں اس میں صورت شامل رہتی ہے فنِ تصویر اور فنِ شاعری میں صورت کی اہمیت بنیادی ہے اور وہ اِن فنون کی جس میں بُت تراشی بھی شامل ہے ایک اساسی علامت ہے۔

حیدرآباد والے صورت کے ساتھ اُجاڑ کا لفظ لاتے ہیں اُجاڑ صورت کہتے ہیں یہ وہی منحوس صورت ہے جس کے لئے ہم اپنے محاورے میں کہتے ہیں کہ اس کی شکل میں نحوست برستی ہے۔ غالبؔ کا ایک مشہور شعر ہے۔

؂ چاہتے ہیں خوب روُیوں کو اسد

آپ کی صورت تو دیکھا چاہیئے

مُنہ دیکھنا مُنہ دکھانا منہ دکھائی جیسی رسمیں اور محاورے بھی ہمارے ہاں بھی طنز و مزاح کے طور پر بھی صورت شکل کا حوالہ اکثر آتا ہے اور اُس معنی میں شکل سے متعلق محاورے یا محاوراتی اندازِ بیان ہماری زبان اور شاعری کے نہایت اہم حوالوں میں سے ہے۔

( 12 ) شکم پرور، شِکم سیر، شکم پُوری۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

پیٹ سے متعلق مختلف محاورات میں آنے والے الفاظ ہیں جس میں بنیادی علامت شِکم ہے۔ یعنی پیٹ بھرنا ہر جاندار کا ضروری ہے کہ اسی پر اُس کی زندگی کا مدار ہے۔ پیٹ کا تعلق تخلیق سے بھی ہے اور ہم’’ حمل‘‘ سے لیکر بچے کی پرورش تک بدن کی جن علامتوں کو سامنے رکھتے ہیں ان میں پیٹ بہت اہم ذہنی حوالوں کا درجہ رکھتا ہے پیٹ سے ہونا پیٹ رہنا جیسے محاورے شِکم ناگزیر طور پر شریک رہتا ہے اسی لئے کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ شِکم سیر ہو کر کھایا یا شِکم سیر ہوا۔

شِکم ’’پوری‘‘ کا مفہوم اس سے تھوڑا مختلف ہے یعنی صرف پیٹ بھرنا اچھی طرح یا بُری طرح اچھی چیزوں سے یا بُری چیزوں سے کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو بہت کھاتے ہیں اور خود غرضانہ انداز سے دوسروں سے چھین کریا ان کا حق مار کر کھاتے ہیں ایسے لوگ شکم پرور کہلاتے ہیں۔ اور زندگی بھر شکم پروری کرتے رہتے ہیں اگر ہم اِن محاورات پر غور کریں اور اُن کے معنی اور معنویت کو اپنی سماجی زندگی سے جوڑ کر دیکھیں تو یہ پتہ چلتا ہے کہ یہ معمولی محاورے ہمیں کس طرح سوچنے سمجھنے پر مجبور کرتے ہیں یا اُس کی دعوت دیتے ہیں۔

( 13 ) شگُون کرنا، شگون ہونا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

شگُون ہمارے ہندوستانی معاشرے کا ایک اہم سماجی رو یہ ہے ہم ہر بات سے شگُون لینے کے عادی ہیں ’’کو ا‘‘ بولا ’’بلی‘‘ سامنے آ گئی صبح صبح ہی کسی ایسے شخص کی شکل دیکھی جو ہمارے معاشرے میں منحوس سمجھا جاتا ہے اُردُو کا ایک شعر ہے جو شگون لینے کی روایت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

؂ جس جگہ بیٹھے ہیں با دیدۂ غم اٹھّے ہیں

آج کس شخص کا منہ دیکھ کے ہم اٹھّے ہیں

اس طرح سے شگون لینا یا شگون ہونا خوشی غم کسی کام کرنے کے ارادے سے گہرا تعلق رکھتا ہے ہم استخارہ کرتے ہیں فال نکالتے ہیں یہاں تک کہ دیوانِ حافظ سے فَال نکالتے ہیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارا ایشیائی مزاج شگون لینے اور  شگون دیکھنے سے کیا رشتہ رکھتا ہے۔

ہندوؤں میں شبھ گھڑی شادی کرنے سے پہلے دیکھی جاتی ہے مغل حکومت کے زمانہ میں بھی اس طرح کا رواج موجود تھا یہاں تک کہ جشنِ نو روز منانے کے سلسلے میں وہ نجومیوں سے پوچھتے تھے اور لباس کا رنگ طے کرتے تھے۔

؂ اڑتی سی ایک خبر ہے زبانی طُیور کی

غالبؔ کا یہ مصرعہ اُردُو کے اسی رجحان کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

( 14 ) شگوفہ چھوڑنا، شگوفہ کھِلنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

شگوفہ’’ کلی‘‘ کو کہتے ہیں ’’ کلی‘‘ کی پھول کے مقابلہ میں الگ اپنی پرکشش صورت اور ایک دل آویز سیرت ہوتی ہے جس کی اپنی خوبیوں کو اہلِ فن اور  اصحاب فکر کی نگاہوں نے سراہا ہے۔

شاعروں نے طرح طرح سے اس کی خاموشی دل کشی اور پُر اسراریت کو اپنے شاعرانہ انداز کے ساتھ پیش کیا ہے سنسکرت اور پراکرتوں میں اس کا ذکر کنول کے ادھ کھلے  یا بنِ کھِلے پھولوں کی تصویر کشی کے ساتھ آیا ہے۔

فارسی میں خاص طور پر گلاب کی کلی کے ساتھ اردو میں گلاب کے علاوہ چمبیلی کے مختلف رنگ رکھنے والے پھلوں کی کلیوں اور  اُن کے چٹکنے کے ساتھ اس کے حسین عکس پیش کئے گئے ہیں یہ بھی ہماری تہذیب کا ایک علامتی پہلو ہے۔

اُردو میں شگوفہ کے ساتھ ایک دلچسپ محاورہ بھی ہے یعنی شگوفہ چھوڑنا یعنی ایسی دلچسپ بات کہنا کہ جو محفل کو پر مسرت  بنا دے اور اس میں کوئی ایسا پہلو بھی ہو جو دلچسپ جھوٹ کا درجہ رکھتا ہو۔ اِس سے ہم اپنی معاشرتی زندگی میں محفل نشینی کے انداز و ادا کو بھی سمجھ سکتے ہیں اور گفتگو کے اس معاشرتی اسلوب کو بھی جس میں شگوفہ چھوڑنا آتا ہے ہم سب دلچسپ گفتگو نہیں کر پاتے لیکن دلچسپ گفتگو سے لطف لیتے ہیں جو ہمارے تہذیبی رویوں میں سے ہے۔

( 15 ) شہد سا میٹھا، شہد لگا کر چاٹو، شہد لگا کے الگ ہو جانا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

شہد ہماری مشرقی تہذیب میں ایک عجیب و غریب شے ہے کہ وہ پھولوں کا اپنا ایک ایسا جز ہے جس کو بے حد قیمتی کہا جا سکتا ہے یہ دوا ہے بلکہ ایک سطح پر امرِت  ہے یہ زہر کا تریاق ہے اور اصلی شہد میں جس شے کو بھی رکھا جائے گا وہ عام حالت میں صدیوں تک گلنے سڑنے اور خراب ہونے سے محفوظ رہے گی۔

ہماری سماجی زندگی میں شہد’’ تہذیبی‘‘ رویوں میں داخل ہے اس میں مہذب رو یہ آتے ہیں اور بعض ایسے رو یہ بھی جو لائق تحسین نہیں ہوتے مثلاً کسی آدمی کے پاس کوئی شہادت نامہ ہے مگر اس سے فائدہ کوئی نہیں ایسے موقع پر بطورِ طنز  و مزاح یہ کہتے ہیں کہ اب اُسے شہد لگاؤ اور  چاٹو یعنی اس تلخی کو برداشت کرو کہ تمہارے ساتھ یہ دھوکہ ہوا ہے انگلی کو شہد میں بھگو لینا بھی اسی معنی میں آتا ہے۔

( 16 ) شیخ چلی۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

مسلمانوں کے اپنے معاشرے کا محاورہ ہے اور  اس کے معنی ہیں ایک خاص طرح کا سماجی کردار مُلَّا نصیر الدین کے نام سے بھی اسی طرح کا ایک کردار ترکوں میں موجود ہے اور  وہیں سے یہ مسلمان کلچر میں آیا ہے اس طرح کا کردار بُوجھ بجھکڑ کی صورت میں بھی موجود ہے کہ وہ حد درجہ ذہین ہے اور بیوقوف ہے ہماری داستانوں میں بھی اس طرح کے کردار آ گئے ہیں۔ ’’ فسانہ آزاد‘‘ میں فوجی کا کردار اسی طرح کا کردار ہے’’ شیخ چلی‘‘ جس کا مثالی نمونہ ہے۔

( 17 ) شیخی بگھارنا، شیخی کِرکری ہونا، شیخی مارنا، شیخی میں آنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

’’شیخ ‘‘عرب میں سردار قبیلہ کو کہتے تھے یا پھر بہت معزز آدمی کو ہندوستان میں شیخ کا تصور شعبہ کے سربراہ سے متعلق ہے جیسے شیخ الادب، شیخ الامنطق، شیخ الحدیث، شیخ الجامع، کسی کالج یا یونیورسٹی کے صدرِ اعلیٰ کو بھی کہتے ہیں علاوہ بریں شیخ الہند، شیخ السلام، اور شیخ العرب، بھی کہا جاتا ہے یہ بھی خطابات ہیں۔

ہندوستان میں شیخ سید مغل اور پٹھان چار اونچی ذات ہیں جو سماجی زندگی میں بھی اپنے اثرات رکھتی ہیں اور ان سے کچھ سماجی رو یہ وابستہ ہو گئے ہیں مثلاً شیخ کے ساتھ لوگوں نے شیخی بگھارنا شیخی کا اظہار کرنا شیخی مارنا، شیخی میں آنا جیسے محاورے بھی اپنے معاشرتی تجربوں اور خیالوں کی روشنی میں پیدا کر دیئے ہیں اور ہمارے سماجی رو یہ اس کے دائرہ میں آتے ہیں مثلاً وہ اپنے خاندان کے بارے میں بہت شیخی مارتا ہے بڑھ چڑھ کر باتیں کرتا ہے یا اپنے معاملہ میں بہت شیخی بگھارتا ہے بات وہی ہے کہ شیخی جتانا‘ ہمارا ایک سماجی رو یہ ہے اِس طرح کے فقرہ اُس کے خلاف ایک ردِ عمل ہے۔

( 18 ) شیر بکری ایک گھاٹ پانی پیتے ہیں۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

شیر پھاڑ کھانے والا جانور ہے جو بہادر بھی ہے اور  بے انتہا سفّاک بھی بکری بھیڑ ہرن جیسے جانور اُس کی خوراک ہیں وہ جب بھی اُن کو دیکھتا ہے اُن پر حملہ کر کے اُن کو اٹھا لے جاتا ہے اور ان کا خون پی لیتا ہے جتنا گوشت خود کھانا چاہتا ہے کھا لیتا ہے باقی دوسرے جانوروں کے لئے چھوڑ جاتا ہے ظاہر ہے کہ یہ صورت بھی ممکن نہیں کہ شیر اور بکری ایک ساتھ رہیں اور ایک گھاٹ پانی پئیں یہی خیال کیا جاتا ہے کہ بادشاہ کا رعب و داب اور اُس کے انتظام کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ کوئی ظالم کسی کمزور اور مظلوم کونہ ستا سکے۔ یہ آئیڈیل ہے جو صدیوں سے ہمارے ذہنوں میں رچا بسا چلا آ رہا ہے اور اسی سے یہ محاورہ بنا ہے کہ شیر اور بکری ایک گھاٹ پانی پیتے ہیں۔

( 19 ) شیش محل کا کتا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

شیش محل اُمراء کے محلات میں ہوتا بھی تھا کہ کسی خاص حصے میں چھوٹے بڑے شیشے لگا کر آراستگی کی جاتی تھی اور یہ بہت پسند کی جانے والی چیز تھی۔  شیش محل میں ایک ہی شے یا شخص ہزار شکلوں میں نظر آتا تھا یہ بھی لوگوں کو بہت اچھا لگتا تھا۔ مگر ’’کُتَّے‘‘ کی مصیبت یہ ہے کہ وہ محلّے میں کسی غیر کتے کو نہیں دیکھ سکتے بے طرح اس کے پیچھے بھاگتے ہیں اور اپنی حدوں سے باہر نکال کر دم لیتے ہیں اب شیش محل میں ایک کتے کو اپنے چاروں طرف کُتے ہی کُتے نظر آتے ہیں

وہ اُن کو بھگانا چاہتا ہے تو وہ سارے اُسے بھگاتے ہیں ایک طلِسم بندی میں بند جا تا ہے یہیں سے ایک دلچسپ محاورہ بن گیا شیش محل کا کتا ہونا وہ ایک شاعرانہ محاورہ ہے اور داستانوں کی فضاء کو پیش کرتا ہے۔

( 20 ) شیشے میں اُتارنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

شیشہ آئینہ کو بھی کہتے ہیں اور شراب کے اُس برتن کو بھی جس سے شرابِ جام میں اُنڈیلی جاتی ہے اس کے علاوہ شیشے کا ایک طِلِسمی  تصور بھی ہے کہ پریوں کو شیشے میں قید کیا جاتا ہے اسی سے محاورہ پیدا ہوا ہے اگر کسی آدمی سے معاملہ کرنا مشکل ہوتا ہے اور کسی نہ کسی طرح اس مشکل پر قابو پا لیا جاتا ہے تو اسے شیشے میں اتارنا کہتے ہیں داستانوں میں پریوں کے کردار آتے ہیں پریاں کسی کے قابو میں نہیں آتیں مگر کسی نہ کسی ترکیب اور طریقہ سے انہیں بھی قابو میں کیا جاتا ہے تو اسے کہتے ہیں شیشے میں ’’پری کو اُتار لیا ‘‘یعنی اُسے قابو میں کر لیا  جو قابو میں نہیں آتا۔ اس سے ہم یہ نتیجہ بھی اخذ کر سکتے ہیں کہ طلِسماتی کہانیوں کا ہمارے ذہن زبان اور ادب میں جو اثر ہے اسے ہم اپنے محاورات میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔

زبان کے آگے بڑھنے میں سماج کے ذہنی ارتقاء کا دخل ہوتا ہے ذہن پہلے کچھ باتیں سوچتا ہے اُن پر عمل درآمد ہوتا ہے اور وہیں سے پھر اُس سوچ یا اس عمل کے لئے الفاظ تراشے جاتے ہیں اور وہ محاورات کے سانچے میں کچھ ڈھلتے ہیں اور ایک طرح سے Preserveہو جاتے ہیں۔

( 21 ) شیطان اُٹھانا، شیطانی لشکر، شیطان سر پر اُٹھانا، شیطان کا کان میں پھُونک دینا، شیطان کی آنت شیطان کی خالہ، شیطان کی ڈور، شیطان کے کان بہرے، شیطان ہونا، شیطان ہو جانا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

’’شیطان ‘‘بُرائی کا ایک علامتی نشان ہے جو قوموں کی نفسیات میں شریک رہا ہے خیر اور شر بھلائی اور بُرائی معاشرہ میں مختلف اعتبارات سے موجود رہی ہے اسی کا ایک نتیجہ شیطان کا تصور بھی ہے کہ وہ بُرائیوں کا مجسمہ ہے اور  بد اعمالی کا دیوتا خیر کا خداوند یزدانِ پاک ہے اور بُرائی کا سرچشمہ شیطان کی ذات ہے۔

اب آدمی جو بھی بُرائی کرے گا اُس کی ذمہ داری شیطان پر ڈال دی جائے گی اور کسی نہ کسی رشتے کو شیطان ہی کو سامنے رکھا جائے گا اگر کوئی بے طرح غصہ کرتا ہے تو یہ کہیں گے کہ شیطان اُس کے سرپر سوار ہے اُس کے سر چڑھا ہے اگر کوئی آدمی بُرا ہو گا تو کہیں گے کہ وہ تو شیطان ہیں اگر کسی سے کوئی برائی وجود میں آتی ہے تو کہتے ہیں کہ شیطان موجود ہے اس نے کروائی ہے یہ برائی کروا دی اگر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اُس برائی کا ذمہ دار آدمی ہے تو کہتے ہیں کہ آدمی کا شیطان آدمی ہے یعنی برائی کی ہر نسبت شیطان کی طرف جاتی ہے کہ انسان کی یہ ایک فطرت اور مزاج ہے کہ وہ ذمہ دار خود ہوتا ہے لیکن اُسے تسلیم نہیں کرنا چاہتا ہے بلکہ کسی دوسرے کے سر ڈالتا ہے یہ ہمارا سماجی رو یہ آئے دن ہمارے سامنے آتا رہتا ہے اتنی فلسفیانہ طور پر شیطان کے وجود پر جنم دیا اور شیطان سے نسبت کے ساتھ بہت سی بُرائیوں کو پیش کیا جس کی نسبت اُسے اپنے سے کرنی چاہیے تھی وہ دوسروں سے کر دی مذہبوں نے بھی اپنے طور پر اس تصور کو ایسی سوچ اور  Approachمیں داخل کر لیا۔

( 22 ) شین قاف۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

اُردُو زبان اپنے لب و لہجہ اور مختلف لفظوں کے تلفظ کے اعتبار سے ایک ایسی زبان ہے جس کو مختلف لوگ بولتے اور الگ الگ بولیوں والے اپنی سماجی ضرورت کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ اس میں ایسے حروف موجود ہیں جس کا تلفظ ہمارے عام لوگ کر ہی نہیں سکتے ہیں۔ جیسے ث،  ذ، ص،  ض، ظ، ع، غ اور  ف۔

اس لئے کہ یہ حُروف ہماری دیسی زبانوں میں موجود ہی نہیں اس پر بھی’’ شین‘‘ کو چھوٹے ’’س‘‘ سے بدل دینا اور ’’قاف‘‘ کو چھوٹے ’’کاف ‘‘سے اور مُنشی ‘کو ’’منسی‘‘ کہنا اور قلم کو ’’کلم‘‘ کہنا بہت بُرا لگتا ہے اسی لئے جب کوئی شخص بولتے وقت شین قاف کی دُرستگی کا خیال رکھتا ہے تو اس کی تعریف کی جاتی ہے۔ اور کہا جاتا ہے کہ اس کا ’’شین قاف‘‘ درست ہے یہ زبان لفظیات اور تلفظ سے متعلق ہمارا ایک تہذیبی معیار ہے مگر اُردُو سوسائٹی کا ہر زبان والے کا نہیں کہ وہ ’’شین قاف ‘‘کی درستگی پر زور دیتے ہیں اور اسی لئے شین قاف دُرست ہونا ایک محاورہ ہے۔

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔