ہمیں معلوم نہیں کہ ہمارے دوست ہمایوں فرّخ کے والدین نے اِن کا نام ’’ہمایوں فرّخ‘‘ کیوں رکھا۔ شاید اِن کی ولادت پر اِن کے والدین کو معمول سے زیادہ مبارک باد موصول ہوئی ہو، چنانچہ بچّے کا نام ’’ہمایوں فرّخ‘‘ رکھ دیا گیا، یعنی مبارک مبارک! واضح رہے کہ ہمایوں اور فرّخ دونوں ہم معنی ہیں ، یعنی مبارک، مسعود، البتہّ ’’فرّخ‘‘ میں ایک مفہوم خوب صورتی کا بھی ہے۔
ہمارا خیال ہے کہ کسی اور کا خیال ہو یا نہ ہو، خود ہمایوں صاحب کا یہ خیال ضرور ہو گا کہ اُن کی شخصیت میں ’’فرّخ‘‘ کا یہ آخر الذ کّر مفہوم بہت نمایاں ہے۔ اب یہ نہیں معلوم کہ ہمایوں صاحب کی بیگم نے اِن کے اِس خیال سے ’پر زور اختلاف کیا یا کسی اور نے، بہر حال پُر اسرار وجوہ کی بنا پر ہمایوں فرّخ صاحب نے اپنا نام ’’ابو الفرح ہمایوں ‘‘ رکھ لیا۔
سب ہی جانتے ہیں کہ ’’فرح‘‘ سے مراد، خوشی اور شادمانی ہے، چنانچہ ابو الفرح کا مطلب ہوا ’’پدرِ شادمانی‘‘۔ سلیس اردو میں اِسے ’’خوشی کا باپ‘‘ کہا جا سکتا ہے۔ ہمایوں صاحب چوں ’’فرح‘‘ کے نام سے ایک بیٹی ’’تصنیف کر چکے ہیں ‘‘ اِس لیے اِنھیں خود کو ’’ابو الفرح ہمایوں ‘‘ کہلوانے کا پورا حق حاصل ہو گیا ہے۔
ہمایوں صاحب اپنے حلیے اور گفتگو سے کسی بھی طرح مزاح نگار محسوس نہیں ہوتے لیکن کمال یہ ہے کہ اُن کے لہجے میں جو دائمی غنودگی سننے والے کو ملتی ہے، اِسے اُن کی تحریروں میں ڈھونڈنے بیٹھیں تو ناکامی ہو گی۔ اُن کی تحریریں چوکس اور بیدار ہوتی ہیں اور قاری کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتی ہیں۔
ہم جیسے لوگوں کے لیے، جن کا نقطۂ ضعیف(WEAK POINT) مزاح ہے، یہ خبر مفرّحِ قلب ثابت ہوئی کہ ابو الفرح ہمایوں صاحب ’’جوئے لطافت‘‘ لا رہے ہیں۔ ہم بے اختیار کہہ اٹھے:
ہے گرم خبر! بہنے لگی جوئے لطافت
شاید کہ ہماری بھی مٹے جوعِ ظرافت
ہمایوں صاحب نے ہمیں بھی از راہِ عنایت جوئے لطافت میں ’’غوطہ زنی‘‘ کی دعوت دی۔ ہم نے دعوت قبول کر لی۔ اندازہ ہوا کہ ’’جوئے لطافت ہے۔ ہمایوں صاحب نے اِسے ابتذال، پھکڑ پن اور بے مقصد باتوں کی کثافت سے محفوظ رکھا ہے:
خوبی یہ ہمایوں کی صد لائقِ تحسین
تحریر میں ڈھونڈے سے ملے گی نہ رکاکت
ہمیں یقین ہو گیا ہے کہ ہمایوں صاحب میں وہ صلاحیتیں موجود ہیں جو فرہاد میں نہیں تھیں۔ وہ ’’جوئے لطافت‘‘ لے کے آئے ہیں جو یقیناً جوئے شیر لانے سے زیادہ مشکل کام ہے۔
ہمایوں صاحب کا مزاح ستھرا مزاح ہے اور گواہی دیتا ہے کہ اِسے کسی معقول آدمی نے لکھا ہے۔ وہ ایسا مزاح تخلیق نہیں کرتے جس کے ساتھ لکھنا پڑے: ’’یہ مزاحیہ تحریر ہے‘‘ بلکہ قاری اِن کی تحریر کا مطالعہ شروع کرتے ہی اپنی طبیعت میں فرحت و انبساط محسوس کرتا ہے۔
ہمایوں صاحب کا مزاح پولیسٹر کپڑے کی طرح ہے جسے دکان دار ’’سکسٹی فائیو، تھرٹی فائیو‘‘ کہہ کر فروخت کرتے ہیں۔ ہمایوں صاحب کی تحریر میں مزاح سکسٹی فائیو پرسنٹ اور طنز تھرٹی فائیو پرسنٹ ہوتا ہے۔ اُن کے مزاح کی بُنائی گتھی ہوئی اور مضبوط ہوتی ہے اور سانٹ کوئی نظر نہیں آتی۔ ہمایوں صاحب کا مزاح بار بار دھلنے (یعنی بار بار پڑھنے) سے خراب نہیں ہوتا۔ رنگ پھیکے نہیں پڑتے اور رُواں نہیں نکلتا۔
گو کہ ہمایوں صاحب بھی دیگر مزاح نگاروں کی طرح اپنی تحریروں میں ایسے مسکین، صابر اور مظلوم شوہر نظر آتے ہیں جو اپنی زن کے نقوشِ پر گامزن رہتا ہے، لیکن یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہمایوں صاحب نے بجا اپنا ہی مذاق اُڑا کر خود کو کامیاب مزاح نگار ثابت کیا ہے:
دیکھیں تو ذرا ہمّتِ عالی ہے مثالی
اپنی ہی بنا لیتے ہیں د ل کھول کے درگت
وہ محض شوہروں کی جانب سے نالہ و فریاد تک محدود نہیں رہے بلکہ اُنھوں نے ایک اچھّے شوہر کی طرح اپنی بیگم کو بالو واسطہ طور پر کچھ مشورے بھی دیے ہیں کہ کھانوں میں ’’تنوّع‘‘ کیسے لایا جا سکتا ہے۔ یہ مشورے آپ اِس کتاب میں ’’آج کیا پکائیں ‘‘ کے زیرِ عنوان ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔
ہمایوں صاحب پُر لطف تحریروں کو پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ اُنھوں نے بڑے انہماک سے ’’عروسِ ظرافت‘‘ کو سنوار نے کی کوشش کی ہے۔ چناں چہ اُن کے بارے میں کہا جا سکتا ہے:
مشاطگیِ زلفِ ظرافت کا ہے چسکا
گویا کہ بناتے ہیں فلم سے یہ حجامت
ہمایوں صاحب نہ ’’شوہریات‘‘ سے ہٹ کر بھی چند موضوعات پر قلم اٹھایا ہے، مثلاً ’’سیلز ڈاگ‘‘، ’’ایک ایڈیٹر کا خط‘‘، ’’تندرست بننے کے طریقے‘‘ وغیرہ۔ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ محض کھانوں ہی میں نہیں ، مزاح میں بھی تنوّع کے قائل ہیں۔
ہمایوں صاحب نے اپنی کتاب کا نام ’’جوئے لطافت‘‘ رکھا ہے۔ اِس سے ایک طرف تو اُن کی منکسر المزاجی ظاہر ہوتی ہے کہ وہ اپنی کتاب کو ’’جو‘‘ سے زیادہ وسع و عمیق نہیں سمجھتے، دوسری طرف یہ نام اِن کے عزائم کی طرف اشارہ بھی کر رہا ہے کہ اِن کی اگلی کتابیں علی الّترتیب ’’دریائے لطافت‘‘، بحیرۂ لطافت‘‘ اور’’ بحرِ لطافت‘‘، کے ناموں سے منظرِ عام پر آسکتی ہیں۔ ہمارا مشورہ ہے کہ سب سے آخر میں ہمایوں صاحب اپنی ایک کلّیات مرتّب کریں جس کا نام ’’سیلابِ لطافت‘‘ رکھا جا سکتا ہے! واضح رہے کہ موجودہ دور کے شعرا اور مصنّفین اپنی کلّیات خود ہی مرتّب کرنے کے قائل ہو گئے ہیں۔ مبادا بعد میں کسی کو اِس کا خیال نہ آئے، اِس لیے دانائی یہی ہے کہ اپنی کلّیات شائع شدہ حالت میں اپنی آنکھوں سے دیکھ لی جائے۔
اگرچہ ہمایوں صاحب کسی تحریر کے آخر میں ’’برائے ایصالِ ثوابِ مصنّف‘‘ درج نہیں ہوتا، لیکن ہمیں یقین ہے کہ ان کی ہر شگفتہ تحریر اِن کے ثواب میں مسلسل اضافہ کروا رہی ہو گی۔ و اﷲ اعلم بالصّواب! آخر میں ہمایوں صاحب کے لیے ایصالِ ثواب کی دعا کے ساتھ ساتھ یہ کہنے کو جی چاہتا ہے کہ
ہے اپنی دعا، بہتی رہے جوئے لطافت
اور لائے ہمایوں کے لیے رفعت و عزّت
٭٭٭