11:26    , اتوار   ,   19    مئی   ,   2024

تحقیق و تنقید شاعری

1489 0 0 00

تسلیم الہٰی زلفیؔ (کینیڈا)

انتساب

عبداللہ جاوید  اپنے پڑھنے والے کو  اپنی شاعری کی دنیا میں داخل کر لیتے ہیں  اور اس کی سوچ اور حسیّت کو اپنی سوچ اور حسیّت سے ہم آمیز کر دیتے ہیں۔   انہوں نے میرے ساتھ بھی ایسا ہی کیا۔  اس تجربے سے گزرنے کے دوران میرا یہ جی چاہا کہ اپنے پڑھنے والوں کو اپنا شریک کر لوں،  جس کا نتیجہ  میری یہ کتاب ہے۔۔

سو

میں اِس کتاب کو  اپنے پڑھنے والوں کے

نام کرتا ہوں۔۔۔

                               تسلیم الٰہی زلفیؔ

عبداللّہ جاوید کی شاعری کا تجزیاتی مطالعہ

جب ہم برِّصغیر کی اہم اور سینئر ادبی شخصیات کی زندگیوں کا جائزہ لیں تو ان میں سے بیشتر کو نہایت کم آمیز، منکسر المزاج اور سادہ دل پائیں گے۔   دوسری جانب جب ہم تخلیقی حوالوں سے ان پر بات کریں تو یہ حضرات نہایت فعال اور سرگرم نظر آتے ہیں۔   گوشہ نشینی، عزلت گزینی اور کم آمیزی کے تناظر میں جب ہم کینیڈا میں مقیم،  برِّصغیر کی سینئر ادبی شخصیت عبداللہ جاوید صاحب کو دیکھیں تو حیرت زدہ رہ جاتے ہیں۔   موصوف گزشتہ پندرہ، سولہ سال سے کینیڈا میں مقیم ہیں۔   پاکستان آتے جاتے رہتے ہیں۔   پاکستان کے معتبر ترین ادبی مجلوں ’’فنون ‘‘ اور ’’سیپ ‘‘ میں  ان کی شعری تخلیقات اور تنقیدی نگارشات تسلسل کے ساتھ شائع ہوتی رہتی ہیں۔   روزنامہ ’’جنگ‘‘ کے ادارتی صفحے پر گاہے بہ گاہے،  روز نامہ ’’جسارت ‘‘ کے ادبی صفحے پر اکثر ان کے کالم شائع ہوتے رہتے ہیں اور تو اور کینیڈا کے ایک ہفتہ وار اخبار ’’ٹورانٹو ٹائمز ‘‘ میں کوئی ایک سال تک ’’ذکرِ خیر ‘‘ کے عنوان سے ان کا سیاسی کالم آتا رہا۔  اسی دوران ان کے شعری مجموعے بھی آئے۔۔  لیکن کینیڈا اور شمالی امریکہ کے ادبی حلقوں میں کسی کو کانوں کان ان کی موجودگی کی خبر نہیں ملی۔ 

 ابھی دو ہفتے قبل جب عبداللہ جاوید صاحب نے نہایت خلوص کے ساتھ اپنے تینوں شعری مجموعے ہمیں بذریعہ ڈاک بھجوائے تو ایک گونہ خوشی کے ساتھ ہم پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔۔  لہذا ہم نے اُسی دم کتابوں کے ساتھ آئے ان کے محبت نامے پر درج فون نمبر پر ان سے رابطہ قائم کیا اور کتابیں بھیجنے پر اپنے اظہارِ ممنونیت کے ساتھ ساتھ،  ان سے  درخواست کی کہ  آپ  اپنی پہلی فرصت میں ہمارے ٹی وی اسٹیشن تشریف لا کر ہمارے ادبی پروگراموں کو رونق بخشیں۔۔ ہمیں خوشی ہے کہ عبداللہ جاوید صاحب نے ہماری اس دعوت کو قبول فرمایا اور چند روز بعد ہمارے ایک ادبی پروگرام ’’ادبی مجلہ ‘‘ میں تشریف لے آئے۔۔  اُس موقع پر ان کی موجودگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم نے ان سے پوچھا۔۔  ’’آج ہم دیکھتے ہیں کہ مغربی دنیا میں شعر و ادب پر اور بالخصوص اردو، ہندی زبانوں کے شعر و ادب پر بڑا کڑا وقت آیا ہُوا ہے اس صورتِ حال کو آپ کس نگاہ سے دیکھتے ہیں ؟‘‘۔ عبداللہ جاوید کہنے لگے۔۔ ’’شعر و ادب کو  Non-Productive Labour   غیر پیدا واری مشقّت قرار دینے اور اس سے دُور رہنے کا جو رویّہ اور کلچر ہمارے آس پاس ہے،  اس سے خدشہ ہے کہ ہمارے بعد آنے والی نسلیں شعر و ادب سے کنارہ کشی اختیار کر لیں۔   میں سمجھتا ہوں کہ شعر و ادب کی تخلیق کو غیر پیدا واری  Non-Productive   مصروفیات میں رکھنا بہت بڑی زیادتی ہے،  کیونکہ شاعری، افسانہ نگاری، مصوری، آرٹ، پینٹنگ، ا سکلپچر، موسیقی، رقص، ڈرامہ اور اس قسم کے تمام کام،  انسانی ثقافت کے لئے بہت ضروری ہیں۔   ان کا تعلق انسان کی چند بنیادی جبلّتوں   Basic human cravings  سے ہے۔   ان کے بغیر انسان یا تو جانور بن جاتا ہے یا مشین ہو جاتا ہے۔   ان ملکوں میں زیادہ خطرہ یہ ہے کہ انسان مشین ہو کر رہ جائے  ‘‘۔ 

جاوید صاحب نے ادب کے تقریباً ہر شعبے میں دلچسپی لی اور کام کرنے کی کوشش کی۔  چھٹپن میں، گیت کہے،  چکّی پیسنے کے دوران گائے جانے والے گیت،  برکھا رُت کے گیت،  جھولے کے گیت اور پھر بڑے ہونے کے ساتھ آز ادی کے گیت ،  انقلاب کے گیت۔۔ گیتوں سے ہوتے ہوئے۔۔  پابند نظموں،  قطعات،  رباعیات،  سانیٹس اور  غزلوں تک پہنچے۔   ساتھ ہی ساتھ کہانیاں بھی ہونے لگیں۔   پہلی کہانی پریم چند کے رنگ میں تھی جو ساتویں درجے میں پڑھنے کے دوران لکھی۔  حیدر آباد دکن کے ایک مشہور قلمی رسالے ’’کرن ‘‘ میں شائع بھی ہوئی۔  پریم چند کے رنگ میں پھر کچھ نہ لکھا۔  کہانیاں جلد جلد طبع ہوئیں۔   ماہنامہ ’’رباب ‘‘ حیدر آباد دکن،  نظام ویکلی، بمبئی،  ہمایوں (لاہور) ادبِ لطیف، لاہور ، ادبی دنیا، لاہور میں شائع ہوئیں۔   زیادہ کہانیاں روزنامہ ’’میزان ‘‘ حیدر آباد دکن میں چھپیں۔   انگریزی زبان میں بھی کہانیاں لکھیں، شائع بھی ہوئیں۔   شاعری بھی کی۔   دو چار ایکانکی ڈرامے شائع ہوئے،  یہ سب   1941 سے ہوا ، البتہ تنقید اور کالم نگاری کی جانب ساٹھ کی دھائی میں رخ کیا۔  اس ضمن میں ایک بات بڑی اہم ہے اور وہ یہ کہ جاوید صاحب نے جو کچھ کیا کسی کیفیت کی گرفت میں آ کر ہی کیا۔  خاص طور پر شاعری ،  بعض اوقات جو کہا وہ جیسے ہوا کے حوالے کر دیا۔  کاغذ پر نہ لا سکے۔ ۔اور بقول ان کے،  اب بھی ایسا ہوتا ہے۔   جانے کیوں۔   جیسے کچھ بھی ان کے اپنے اختیار میں نہیں ہے۔   نہ احساس،  نہ خیال،  نہ زبان،  نہ انگلیاں،  نہ قلم،  نہ کاغذ اور نہ ہی الفاظ!!

جاویدؔ صاحب کی ادبی زندگی کا آغاز اُس زمانے میں ہوا جب ہماری دنیا پر جنگِ عظیم دوم مسلط ہو رہی تھی۔ جرمن انشاء پرداز فلسفی نطشے کی فکر مجسّم ہو کر ہٹلر کا روپ دھار چکی تھی اور اپنی اور اپنی دنیا کی بربادی کے رقصِ آخر میں مصروف تھی اور جاپان کے شہر ہیروشیما اور ناگا ساکی پرل ہاربر کے خمیازے میں اٹامک بلاسٹ کے اولیّن تجربو ں کی زد میں آ رہے تھے۔  16 دسمبر 1931 جب عبداللہ جاوید نے جنم لیا ترقی پسند ادب کی عظیم اور عوام پسند تحریک جنم لے چکی تھی بلکہ پالنے سے اتر کر کہیں رینگنے، کہیں چلنے، تو کہیں دوڑنے بھی لگی تھی۔

ترقی پسند تحریک کے حامی اور مخالف دونوں ہی اس حقیقت کا اعتراف کرتے آئے ہیں کہ یہ ہمارے ادب کی سب سے بڑی اور موثر تحریک تھی۔  جس طرح برّ صغیر کی دوسری زبانوں خاص طور پر بنگالی میں اس تحریک کی نشو و نما اور ا سکے اثرات ہمہ گیر رہے ہیں اسی طرح اردو میں بھی اس کی جڑیں گہری،  ا سکی فکری جولانیاں  وسیع اور تخلیقی افق عریض اور  روشن رہا ہے۔   بے شک ہر بڑی تحریک کی طرح کچھ کوتاہیاں اور ادعائی کم اندیشیاں بھی اس کی ہم سفر رہی ہیں جن کا اعتراف اس سے وابستہ اکثر شاعروں اور ادیبوں نے کیا ہے۔  اس ضمن میں جب ہم نے عبداللہ جاوید صاحب کے خیالات جاننا چاہے تو انہوں نے فرمایا۔۔ ’’ ترقی پسند ادب کی تحریک تو جیسے پہاڑی ندی تھی،  نو جوان ادیبوں اور شاعروں کی تو بات ہی کیا،  پختہ عمر والے قلم کاروں کو بھی اپنی موجوں میں لپیٹ لیا۔  مختصراً ایک واقعہ بیان کروں گا۔  ایک مختصر سی ادبی نشست ( بمبئی یا شاید حیدر آباد دکن) مولانا حسرتؔ موہانی کے اعزاز میں رکھّی گئی تھی۔  ماہر القادری نے اس کے آغاز میں ایک چھوٹی سی لیکن ترقی پسندوں کے خلاف بے حد تیکھی تقریر کی۔  وہ اُس زمانے میں ترقی پسند ادب کے خلاف بے حد سرگرم تھے۔   جب ماہر القادری نے  مخدوم محی الدین کو دعوتِ کلام دی تو کلام پیش کرنے سے قبل مخدومؔ نے صرف اتنا کہا کہ حضرات وہ ایک ترقی پسند شاعر ہیں اور ان کی شاعری میں وہ سارے عیب موجود ہیں جن کا ذکر ماہرؔ صاحب نے فرمایا ہے۔   اس کے بعد مخدومؔ نے اپنے اشعار اور  درد بھری آواز کے سحر میں حاضرینِ محفل کو لپیٹ لیا۔  آخر میں حسرتؔ موہانی نے جس انداز میں ماہر القادری کو ڈانٹا ہے اس کا تاثر میرے ( اُس وقت میں ایک لڑکا تھا) ذہن سے کبھی نہ مٹ سکا۔  آج بھی اس بات پر حیرانی ہوتی ہے کہ حسرتؔ موہانی جیسا عظیم شاعر ترقی پسند ادب کی تحریک کو مثبت انداز سے دیکھتا تھا ،  جب کہ اس کا اپنا رنگِ سخن قدیمی انداز کا اور پختہ تھا۔  میں تو عمر میں بہت چھوٹا تھا،  لیکن اس کے باوجود مجھے قاضی عبدالغفار، مخدوم محی الدین، کیفی اعظمی، کرشن چندر، اسرار الحق مجازؔ، عصمت چغتائی جیسے بڑے لوگوں کے ساتھ ملنے جلنے کے مواقع ملتے رہے۔   دنیا بھر میں اتنی اہم نہ ہوئی ہو لیکن برّ صغیر ہند و پاک میں ترقی پسند ادب کی تحریک نے بڑی اہمیت اختیار کی۔  اردو، ہندی میں شاید ہی کوئی تحریک اس تحریک کی مماثل تخلیقی توانائیوں کی حامل ہو سکے ‘‘۔

انجمن ترقی پسند مصنفین پر روزِ اوّل سے کمیونزم کی چھاپ لگی ہوئی تھی۔  اور جیسا کہ جاوید صاحب نے مولانا ماہر القادری کا واقعہ سنایا بعض حلقے اس کا نام سُن کر ناک بھوں چڑھاتے تھے۔   اسی دوران ایک ناگوار تغیّر پیدا ہوا۔   عام معاشی و معاشرتی حالات کی نا مساعدت کے زیرِ اثر بعض شدّت پسند نوجوانوں نے جوشیلے پن میں انجمن ترقی پسند مصنفین کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرنے کا تہیّہ کر لیا اور ان کے زیرِ اثر انجمن نے کچھ ایسے فیصلے کئے جو ادب کے دائرے سے متجاوز تھے اور جن میں ہمہ گیری اور وسعت اثر کے بجائے انقطاع اور عصبیت کے عناصر کار فرما تھے۔   یوں تو پاکستان میں حکومتی اقدامات جن میں تحریک پر قانونی بندش ، دفاتر پر قبضے، اکابرینِ تحریک کی گرفتاریاں شامل ہیں، تحریک کی شکست و ریخت کا باعث بنے لیکن تمام دنیا میں خود اس کے ماننے والوں کی انتہا پسندی اور تنگ نظری نے اس کو غیر معقول اور ناقابلِ قبول بنا دیا۔  کمیونسٹ روس کا ٹوٹنا تو اس اونٹ کی پیٹھ پر آخری تِنکا ثابت ہوا یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ یہ تحریک اور تحریکوں کی مانند اپنے منطقی انجام کو پہنچی۔

جہاں تک عبداللہ جاوید صاحب کا تعلق ہے،  ان کے خیال میں ترقی پسند ادب کی تحریک کسی نہ کسی روپ میں موجود ہے کیونکہ ادب میں مکمل خلاء کبھی نہیں ہوتا۔  اس کے علاوہ کوئی ایک تحریک جڑ پکڑتی دکھائی نہیں دے رہی ہے۔   تحریکوں کا ایک میلہ سا لگا ہے۔   ایک جانب دنیا چھوٹی ہوتی جاتی ہے،  ممالک ایک دوسرے کے قریب ہوتے جاتے ہیں،  تو دوسری جانب ادب میں تجارت در آئی ہے۔   مارکیٹنگ سی ہوتی دکھائی دیتی ہے۔  امریکہ خاص طور پر ادب کے آڑھتیوں کا ملک بن گیا ہے۔   یہ آڑھتی ، ادبی تحاریک کو ہاتھوں ہاتھ لیتے اور ادب کی تجارت کے فروغ میں استعمال کرتے ہیں۔   ہر تیسرے روز کہیں نہ کہیں کوئی نئی ادبی تحریک جنم لیتی ہے یا اس کے جنم کا شوشہ چھوڑا جاتا ہے۔   ایک تحریک کے ساتھ ہی اس کی رد میں اس سے مختلف تحریک میدان میں آ جاتی ہے۔   جاوید صاحب نے کراچی کے ماہنامے ’’الشجاع ‘‘ میں سب سے پہلے ساٹھ کی دھائی کے اوائل میں یہ آواز اٹھائی تھی کہ باہر سے در آمد شدہ ادبی اصطلاحات کو اندھا دھند استعمال کرنے کا سلسلہ ختم ہونا چاہیئے۔   اور آج بھی وہ ہند و پاک کے ادیبوں اور شاعروں سے یہی اپیل کرتے  نظر آتے ہیں کہ باہر سے جو کچھ بھی آئے  اس کو اپنے دیس کی مٹّی میں  اُگنے کا موقع دیا جائے خاص طور پر ادبی نظریات اور تحاریک کو کچھ وقت ضرور دیا جائے کہ وہ ہمارے شعری و ادبی مزاج سے آشنا ہو جائیں۔   کچھ ان کا مزاج بدلے اور کچھ ہمارا مزاج بدلے۔

عبداللہ جاوید صاحب کی تینوں کتابیں  نہایت عمدہ کاغذ پر  بے حد خوبصورتی  اور سلیقے کے ساتھ اکادمی  بازیافت،  والوں نے کراچی سے شائع کی ہیں۔   ’موجِ صد رنگ‘ پہلی مرتبہ  1969 میں لاہور سے شائع ہوئی۔  اس کا یہ دوسرا ایڈیشن ہے۔   جو کراچی سے  2006  میں شائع ہوا ہے۔   ’حصارِ امکاں‘  2003   میں چھپی  اور تیسرا مجموعہ  ’خواب سماں‘  2006  میں شائع ہوا۔  ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ان کا پہلا شعری مجموعہ   1969  میں شائع ہوتا ہے  اور دوسرا شعری مجموعہ  2003  میں منظرِ عام پر آتا ہے۔   درمیان کا وقفہ قریب قریب چونتیس برس پر محیط ہے۔   اور اِس وقفے کا ذمہ دار جاوید صاحب خود کو ٹھہراتے ہیں کہ وہ اپنی کتابوں کی اشاعت میں خود ہی سب سے بڑی رکاوٹ بنے رہے !۔  اِس وقت بھی جاوید صاحب کے تنقیدی مضامین کی دو کتابیں تیار ہیں۔   البتہ افسانوں کو یکجا کرنے میں خرابیِ صحت کے سبب کچھ مشکل پیش آ رہی ہے۔

عبداللہ جاوید صاحب کس سادگی سے یہ اعتراف کرتے ہیں کہ وہ خود ہی اپنی کتابوں کی اشاعت پر قدغن لگاتے ہیں۔  ! جہاں تک تخلیقی ادب کا تعلق ہے یہ از حد فعال رہے ہیں۔   ان کی ادبی زندگی کے آغاز  1941  سے آج تک مختلف مقتدر ادبی رسائل، جرائد اور اخبارات میں (ہندوستان اور پاکستان دونوں ممالک میں ) ان کے افسانے، شعری تخلیقات،مضامین، خاکے، تنقیدی جائزے، تبصرے اور کالم شائع ہوتے رہے ہیں۔   مشاعروں، مذاکروں اور ادبی جلسوں میں یہ تقریر کرتے یا مقالے پیش کرتے رہے ہیں، شعر سناتے رہے ہیں۔   اب جبکہ ان کی رفیقۂ حیات اور صاحب زادے سہیل جاوید نے (جو ماشاء اللہ ایک بہت اچھے نثر نگار ہیں اور شہری، سماجی، فنّی، طبّی، اصلاحی اور نیم سیاسی موضوعات پر ان کے مضامین اور کالم تسلسل کے ساتھ مقامی اخبارات میں نظر سے گزرتے رہتے ہیں )  ان کی کتابوں کی اشاعت کا سلسلہ شروع کر دیا ہے،  تو ہمیں یقین ہے کہ  ان کی  اور کتابیں بھی  بہت  جلد  ہمارے ہاتھوں میں  ہوں گی۔  اسی ضمن میں اس  وقت ہمیں جاوید صاحب کی شریکِ حیات  معروف افسانہ نگار محترمہ شہناز خانم عابدی صاحبہ کے چند فقروں کا حوالہ مناسب لگ رہا ہے جو انہوں نے ’حصارِ امکاں‘ کے پیش لفظ میں عبداللہ جاوید صاحب کے بارے میں لکھے ہیں۔ ۔’’کون  شاعر ایسا ہے جس کو  اپنے اشعار کی اشاعت بھلی نہ لگے۔   شہرت کسے پیاری نہیں ہوتی، جاویدؔ بھی تمام تر بے نیازی کے باوجود اپنے کلام کی اشاعت چاہتے ہیں،  مگر یہ کام ان کے بس کا نہیں۔۔  اگر اس معاملے کو میں اپنے ہاتھوں میں نہ لیتی تو شاید  اس کتاب کی اشاعت کبھی عمل میں نہیں آتی ‘‘۔  جاوید صاحب کی شخصیت اور مزاج کے حوالے سے بیگم جاوید لکھتی ہیں۔ ۔  ’’ جاویدؔ ایک اچھے آدمی اور بہت اچھے انسان ہیں،  ہر ایک کے دکھ درد کو اپنا بنا لیتے ہیں،  دروغ گوئی ان کی طبیعت میں بالکل نہیں ہے،  صاف اور سچی بات کرتے ہیں،  حسد اور کینہ پروری ان کی فطرت کو چھو کر نہیں گئی،  اپنے دشمنوں کو معاف کر دیتے ہیں کبھی کسی سے بدلہ لینے کا سوچ بھی نہیں سکتے،   اگر کوئی دشمن اپنے کسی کام سے آئے تو پوری کوشش کرتے ہیں کہ اس کا مسئلہ حل کر دیں،  لیکن اس سے تعلقات نہیں رکھتے‘‘۔ مسز جاوید کی باتیں پڑھ کر اِس وقت ہمیں بیگم فیض احمد فیضؔ  کی کہی وہ باتیں یاد آ رہی ہیں جو انہوں نے فیضؔ صاحب کے حوالے سے،  ہمارے قیامِ بیروت کے دوران بارہا ہم سے کیں۔ ۔ یقین کیجئے کہ ایلسؔ صاحبہ نے بھی اپنے شوہر کے مزاج اور شخصیت کے حوالے سے لفظ بہ لفظ یہی کہا،  جو بیگم جاوید نے لکھا ہے  !!

عبداللہ جاوید کی شاعری ہمارے سامنے ہے۔   ہم ان کی شاعری کی ایک خصوصیت کا ذکر کئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ موصوف ایک سینئر شاعر ہیں،  لیکن ان کی شاعری آج کی شاعری ہے،  گویا ان کی شاعری۔ ۔ شاعری کی لفظیات، استعارات  اور ابلاغِ شعر کے جملہ فنّی اور جمالی لوازمات وقت کے ساتھ سفر کر رہے ہیں۔   ان کی فکر، حسیّت اور ان کے مضامین پر عصرِ رواں کی چھاپ موجود  ہے۔   ہم بجا طور پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ شاعری عصری ہونے کے ساتھ ساتھ آفاقی ہے۔

جاوید صاحب کی انکساری اور کم آمیزی ہر رنگ میں ظاہر ہوتی رہتی ہے۔   عبداللہ جاوید کا تعلق ایک علمی، ادبی  اور مذہبی گھرانے سے ہے۔   ددھیال سے یوسف زئی افغان اور ننھیال سے ایرانی نژاد ہیں اور خود پاکستانی کینیڈین ہیں۔  16  دسمبر 1931 کو آپ نے غازی آباد میں جنم لیا۔  انگریزی ادبیات میں جامعہ کراچی سے ایم۔ اے کیا۔ سندھ مسلم لاء کالج سے LLBکر کے وکالت شروع کی لیکن جب  پانچ  سال  چھوٹی عدالتوں میں  پریکٹس کرنے کی شرط عاید ہوئی  تو وکالت سے تائب ہو کر درس و تدریس کا پیشہ اختیار کیا۔  اس دوران جامعہ سندھ سے اردو ادب میں ایم اے کی سند حاصل کی انگریزی ادب کے لیکچرار اور بعد میں انگریزی اور اردو ادب کے پروفیسر متعین ہوئے اور اپنے طالبعلموں میں زندہ جاوید ہو گئے۔

یوں تو عبداللہ جاوید شعری تخلیقات کے معاملے میں ہنوز فعال ہیں،  کوئی عجب نہیں کہ ان کا چوتھا شعری مجموعہ جلد منظرِ عام پر آ جائے،  لیکن اِس وقت ہمارا مطالعہ ان کی تین شعری کتابوں تک محدود رہے گا۔  ان کی پہلی کتاب ’’موجِ صد رنگ ‘‘ اور دوسری کتاب ’’حصارِ امکاں ‘‘ کے درمیان تقریباً چونتیس برس کا وقفہ حائل ہے۔   جبکہ ’’موجِ صد رنگ ‘‘ کا پہلا اڈیشن اشاعت کے چھ ماہ کے اندر ختم ہو گیا تھا۔  اس درمیانی وقفے کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ جاوید صاحب کی عزلت گزینی، شہرت گریزی اور درویشانہ بے نیازی حائل ہو گی۔

’’موجِ صد رنگ‘‘ پر ناقدین اور مبصّرین کی آراء کا سرسری جائزہ لے کر ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ بیسویں صدی کی ساٹھویں دہائی کے آخر میں شائع ہونے والی یہ شعری کتاب ،  تاریخ کے اس موڑ پر کھڑی ہے جہاں جنگِ عظیم دوم کے بعد پیدا ہونے والی دنیا اپنی آخری سانسیں لے رہی ہے۔   روس بطور ایک عالمی طاقت ،  اشتراکیت بطور ایک اقتصادی نظام اور ترقی پسند ادب کی تحریک سلامِ رخصت پیش کر رہے ہیں۔   ہر لحاظ سے یہ کتاب اپنے دور کی ہی نہیں بلکہ آج کے کے دور کی ایک اہم شعری کتاب ہے۔   اس میں شائع شدہ نظمیں اور غزلیں ہمارے اور آپ کے ذہن و دل سے کچھ اس طرح ہم آہنگ ہیں کہ ہماری اپنی کہی ہوئی لگتی ہیں۔   اس شاعری کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس میں فکر اور جذبہ باہم آمیز ہو کر ایک کیمیائی مرکبّ کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔   غیر مرئی  احساسات ٹھوس  حقائق کے  قالب میں ڈھلتے نظر آتے ہیں۔   شاعری کہیں کہیں ماورائیت کی سرحدوں کو چھونے لگتی ہے۔

’’موجِ صد رنگ ‘‘ کے موضوعات پر نظر ڈالتے ہیں تو پتا چلتا ہے جیسے کائنات اپنی تمام تر رنگارنگی کے ساتھ ان صفحات پر اُتر آئی ہو۔  آج کے دور کی عظیم فکشن نگار قرۃ العین حیدر اور فلسفی تاریخ نگار ٹوئن بیؔ کی مانند جاوید صاحب کی فکریات کا اہم موضوع ’وقت‘ ہے۔   وقت جس کو ماضی حال اور مستقبل میں تقسیم کیا گیا ہے،  لیکن وہ اس تقسیم سے ماوراء رہا ہے،  کیونکہ ماضی حال میں موجود رہتا ہے اور مستقبل بھی حال میں نمو پاتا ہے۔۔ ؂

آج اور کل ہے پھیر لفظوں کا

وقتِ موجود  کی بِنا ،  دونوں      

وقت جو کبھی نہ ٹھہرنے کے باوجود ٹھہرتا بھی ہے۔  رواں ہونے کے با وصف جامد بھی ہے۔   نا وقت بھی ہے۔  اس سے متعلق ہو کر حقیقت جو زمانی اور مکانی ہے لا زمانی و لامکانی بھی ہو جاتی ہے۔   وقت کا موضوع جاوید صاحب کے ہاں فلسفیانہ فکری موشگافی کے طور پر نہیں آتا بلکہ شعری اور وجدانی،  بیشتر صورتوں میں حسّی ابلاغ و اظہار کے طور پر آتا ہے۔  ان کا فن فکر اور احساس کی ایسی تجسیم ہے جو زندہ اور زندگی کے درد سے معمور ہے۔  تجسیم اور تجرید کو باہم متبدّل کر کے وہ اپنے ابلاغ کا جادو جگاتے ہیں۔  مثال کے طور پر ’وقت‘ عبداللہ جاوید کی شاعری میں ایک زندہ، متحرک، فعال وجود کے طور پر موجود ہے۔  وہ کبھی کوئی طائرِ آزاد، مصروفِ پرواز ہے، تو کبھی پنجرے کا پنچھی ،  کبھی یاد کے پردے پر مصورّ کیا ہوا ایک نقشِ دوام، تو کبھی ایک تاریخ جو لمحاتِ ساکت میں قید ہو کر  ’وقتِ لافانی ‘ اور ’لا وقت‘ کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔   ازل سے ابد تک بہتے ہوئے دھارے کی صورت میں وقت اپنے سفر میں زندگیاں ابھارتا ہے اور ڈبوتا بھی ہے،  ایک تسلسل میں وقوع پذیر ہونے والے عمل کے طور پر۔ وقت ہی ہے جو زمین اور زمین کے باسیوں کے دلوں میں طرح طرح کے گھاؤ لگاتا ہے،  تو آسمان کو سورج، چاند اور تاروں کے جلتے ہوئے روشن زخموں کے ناسور عطاء کرتا ہے۔  ہر نئے  دن کا نور،  ہر رات کے چاند کو  نگل جاتا ہے،  اور ہر نئی شام  اس  دن کا سورج اپنے پیچھے ماتم چھوڑ کر ڈوب جاتا ہے۔   وقت کا سیلِ رواں کبھی خوابوں کے جزیرے ابھارتا ہے اور ان خوابوں کے جزیروں میں نئے نئے شہر آباد ہوتے ہیں اور ہر نیا شہر قلوپطرہ کے شہر کا تازہ بہروپ بھر لیتا ہے۔   کبھی وقت کا لمحہ لمحہ ،  رُک رُک کر یہ سوال کرتا جاتا ہے کہ ’’کون ہو ؟ کس لیے آئے ہو ؟ ‘‘  کبھی شاعر بھاگتے لمحوں کے پیروں سے لپٹ کر،  ان کو خدائے تعالیٰ کا واسطہ دے کر رکنے کی،  قدم روک لینے کی گدایانہ التجا کرتا ہے،  تاکہ ان کو سمجھنے کی مہلت ملے لیکن بھاگتے لمحوں نے اس کی التجا کو ٹھکرا دیا،  آگے بڑھ گئے،  اس کی جانب پلٹ کر بھی نہیں دیکھا۔  یہی نہیں بھاگتے لمحے اپنے ساتھ روشنی بھی لے گئے اور زندگی کی دھنک کے رنگ اُڑ گئے، رات کا حُسن لُٹ گیا ، صبح کا طلسم ٹوٹ گیا،  بہار کی خوبصورتی ماند پڑ گئی ، خزاں کا رومان رخصت ہوا ، ریشمی پردے سرک گئے اور یوں وقت نے ہر شے کا لباس کھینچ کر اتار پھینکا اور زندگی کو عریاں کر کے چھوڑ دیا۔  وقت کو جب ہم حُسن و عشق کے معاملات کے پس منظر میں دیکھتے ہیں تو ہمیں لمحوں کی زد میں حُسنِ محبوب بدلتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔   شاعر کو یہ کہ کر اپنے آپ کو دلاسا دینا پڑتا ہے کہ اگر ایسا نہ ہوتا تو لوگ محبوب کو کاغذ کا پھول خیال کرنے لگتے جو تبدیلیوں سے ماورا ہوتا ہے۔   آدمی باتیں خواہ لمحوں کی کرے،  لیکن اس کے شانوں پر صدیوں کا بوجھ ہوتا ہے۔   ’’موجِ صد رنگ ‘‘ میں ایک ایسی غزل بھی ملتی ہے جس میں ’وقت‘ بطور ردیف ہے۔   اس غزل میں استعاروں کے پیکروں کے وسیلے سے وقت کی رمزیت کے متنوع اسرار وا کئے گئے ہیں۔   اس غزل میں وقت بہ یک وقت گونگا بھی ہے اور گویا بھی، کسی کا بھی ہم دم ہے نہ رفیق ہے اور نہ ہی ہم نوا،  لیکن وہ سب کا راز داں ضرور ہے۔   اگر اس کو ٹالو تو اس کی قدر اڑتے ہوئے دھوئیں سے زیادہ نہیں،  لیکن ضروری نہیں کہ تنکے جتنا ذہن رکھنے والے اس کا وجدان کر پائیں۔   یہ بھی نہیں کھلتا کہ وقت رواں ہے کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم رواں ہوں۔   افراد کو چھوڑ کر قوموں کے بارے میں غور کریں تو لگتا ہے کہ جسے ہم تاریخ کہتے ہیں وہ وقت کے قدموں کی گرد کے سوا کچھ نہیں۔   وقت ہست و بود کا وہ کارواں ہے جس کے ساتھ سفر کرنا  لاکھ  ناگزیر سہی  پھر بھی زمانہ سازی  اور  ا بن الوقتی  ناقابلِ جواز ہی رہتی ہے،  چنانچہ شاعر وقت کے ساتھ بدلنے والے لوگوں سے یہ پوچھ بیٹھتا ہے کہ وقت ان کا بھی یار کب ہو گا  ؟۔  حقیقت تو یہ ہے کہ وقت کی سفاکی سے مفر نہیں ہے جو شمشیر بدست ہے،  کیونکہ کوئی لمحہ ایسا نہیں جاتا کہ موت زندگی سے مصروف بہ پیکار نہ ہو۔  اس صورتِ حال کو پیشِ نظر رکھنے کے باوجود شاعر کا ایمان ہے کہ وقت کے ساتھ وہی قومیں فنا ہوتی ہیں جو کہنہ روایات کے ساتھ صلح کر لیتی ہیں۔   عبداللہ جاوید وقت کی جدلیات سے چشم پوشی نہ کرتے ہوئے بھی وقت کے اس حسیّ وجدان سے دست بردار نہیں ہوتے جو ان کے درجِ ذیل شعر میں منکشف ہو رہا ہے۔۔۔  ؂

برسوں کے حالات بھی کل کی بات لگیں

دل کے اندر  صدیاں بھی  لمحات لگیں

وقت کے اس ادراک کو ہم شعری ادراک کا نام نہ دیں تو اور کیا کہہ سکتے ہیں۔   اسی طرح گزرے ہوئے وقت کے نہ لوٹنے کے نظریئے کی یہ پیش کش مندرجہ ذیل شعر میں کس قدر شاعرانہ ہو گئی ہے۔۔   ؂

ہر ایک  لمحۂ گزراں کا  احترام کرو

  بچھڑنے والا کبھی لوٹ کر نہیں آیا

شاید وقت کا شعری وجدان ہی عبداللہ جاوید کے اس شعر کا روپ دھارتا دکھائی دیتا ہے ورنہ نور کی رفتار اور زمانے کی رفتار کا تقابل یوں نہ دیکھنے کو ملتا۔۔  ؂

وفا کے نام پہ رُکنے سے پہلے یاد رکھو

زمانہ  نور کی مانند ہے  سبک رفتار

عبداللہ جاوید اور ’’ہونے یا نہ ہونے ‘‘ کا مسئلہ

عبداللہ جاوید صاحب کے ’ تصوّرِ وقت‘  کے بعد ان کے پڑھنے والوں کا واسطہ ’’ہونے اور نہ ہونے‘‘ کے تصوّر سے  پڑتا ہے۔   اس کے  ڈانڈے قدیم ترین مشرقی فکر سے ملتے ہیں۔   چین، ایران اور ہندوستان اس تصوّر کے خاص ملک ہیں۔   مغرب میں فرانس اور جرمنی میں اس کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔   یہاں ہم صاف طور پر یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ اس تصوّر سے ناآشنائی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔  ساتھ ہی ساتھ ہم یہ کہنے سے بھی باز نہیں رہ سکتے کہ جاوید صاحب نے اِس تصوّر کو نہ صرف غیر معمولی اہمیّت کا مقام عطاء کیا ہے بلکہ تخلیقی تازہ کاری سے ندرتِ فکر کے مرتبے تک پہنچا دیا ہے۔   اس موضوع پر ان کی انفرادیت دیکھنے اور حیران ہونے کے لائق ہے۔   اصل معاملہ یہ ہے کہ وہ نہ تو ’’ہونے‘‘ کے اثبات کی جانب اپنی ترجیح کا اظہار کرتے ہیں،  نہ ہی ’’نہ ہونے ‘‘ کی جانب  اور  اس طرح اپنے قاری کو بھی کسی ایک طرف جھکنے سے روکے رکھتے ہیں۔   یوں بھی یہ تصوّر ہی کچھ کم پیچیدہ نہیں ہے،  اس کو جاوید صاحب مزید پیچیدہ بنا دیتے ہیں۔   ان کے اس درج ذیل شعر ہی کو لیجئے،  فرماتے ہیں۔۔  ؂

نہ ہونے پر بھی ہوں،  میں ابتداء سے انتہا تک ہوں

مرا ہونا کوئی دیکھے،  میں بندے سے  خدا تک ہوں

اس شعر کے بارے میں آپ کیا کہیں گے  ؟  یہ ہونے کا کا شعر ہے،  یا نہ ہونے کا۔  اس شعر کے آغاز ہی میں نہ ہونے کا اقرار کر دیا گیا ہے،  لیکن اس کا کیا کریں کہ نہ ہونے کے اقرار کو  ہونے   پر اصرار سے جوڑ دیا گیا ہے۔   ہونے پر اصرار،   پر مزید زور دینے کے لیے یہ بھی اعلان کیا جا رہا ہے کہ یہ ہونا ابتداء سے لے کر انتہا تک ہے۔  معاملہ یہاں ختم نہیں ہوتا ،  کیونکہ دوسرے مصرعے میں اس ہونے کو بندے سے خدا تک پہنچا دیا گیا ہے گویا ہونے کو نہ ہونے کے مماثل کر دیا ہے۔   ہونے کی حد کا  ’خدا‘  تک پہنچنا دوسرے لفظوں میں ’نہ ہونے‘  کی حد کو پہنچنا ہے۔

اس تجزیئے کے بعد،  روح،  مادّے  اور  نور  کی اُس دُوئی کے لیے کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی جو جدید فلسفے میں کافی نمایاں نظر آتی ہے اور چونکہ یہ دوئی موجود نہیں ہے تو پھر یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ یہ کائنات ہمارے بنیادی فکری قوانین کا کیوں اتباع کرتی ہے۔   بعض جدید فلسفیوں نے کہا ہے کہ عقلی اور  مادی قوانین متوازی چلتے ہیں،  لہذا دونوں یکساں نظر آتے ہیں اس لیے کہ صورتحال یہ ہے کہ روح ہو یا مادہ،  نور  ہو یا توانائی۔  سب کچھ شعورِ محض اور عقلِ محض ہے۔   عقلِ محض ہی  خدا  ہے۔   شعورِ محض ہی انتہا اور قدیم ہے۔   وہی سب کچھ ہے اور وہی مختلف جلوے اختیار کر کے تمام موجودات میں جاری و ساری ہے۔   لہذا دوئی موجود نہیں ہے اور ثانوی انداز سے تشریحِ موجودات کی کوئی ضرورت ہے نہ جواز۔

 ہونے   اور  نہ ہونے  کا خالص عقلی اور ذہنی معاملہ بھی جاوید صاحب کی شاعری میں مجرّد فکر کے طور پر نہیں آیا بلکہ وجدانی فکر ( جس کو ہم شعری فکری کا نام دیں گے ) کے طور پر آیا ہے۔   کہیں کہیں تو قاری کو احساس بھی نہیں ہونے پاتا کہ وہ کسی اہم فکری مسئلے سے دوچار ہے۔   ’موجِ صد رنگ‘ کی پہلی غزل کا پہلا شعر ملاحظہ فرمایئے۔۔  ؂

قریب آیا، مگر  دُور کی  صدا  ہی  رہا

وہ پھول تھا ، جو ہمارے لیے ہوا ہی رہا

اِس شعر میں محبوب ہے تو کیا ہے  ؟  کون ہے  ؟  کیسا ہے  ؟  پھول ہے،  ہوا ہے،  قربت حقیقی ہے  ؟  اگر قربت ہے اور وہ بھی حقیقی تو اس کی حقیقت محض دور کی آواز جیسی کیوں ہے  ؟  ان سوالات کے جواب میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ شاعر کے ہاں تجسیم و تجرید باہم متبادل ہیں۔  جاوید صاحب کے ہاں ہونے اور نہ ہونے کا معاملہ صرف اُن تک محدود نہیں ہے بلکہ ان کا محبوب بھی اس کی لپیٹ میں آ چکا ہے اِس شعر کے بارے میں آپ کیا کہیں گے۔ ۔   ؂

یوں دیکھئے تو اُس کا نشاں بھی کہیں نہیں

محسوس کیجئے تو  وہ  ہر سُو  دکھائی دے

اور یہ شعر۔۔  ؂

یار  ملنا   نہ  تھا،  ملنا   نہ  تھا،  تیرا   ملنا

جیسے پرچھائیں کا ، پرچھائیں پہ چھا جانا تھا

ہونے اور نہ ہونے پر ’حصارِ امکاں‘ کی ایک غزل کا یہ شعر دیکھئے۔۔ ؂

نہ تھا وہ جس کو دنیا دیکھتی تھی

  جو تھا وہ سامنے آتا نہیں تھا

ہونے اور نہ ہونے کی یہ صورت ملاحظہ فرمائیے۔۔ ؂

مرے ہونے سے ہے  اوروں کا ہونا

اگر  میں  نئیں  تو  کوئی  دوسرا نئیں

اسی ضمن میں ’حصارِ امکاں‘ کی ایک غزل کا مطلع اور مقطع دیکھیئے۔۔ ؂

ہر شے افسوں، ہر شے سایا ، میں بھی ہوں

ہونا  اور  نہ  ہونا کیسا ؟  میں بھی  ہوں

جانتا ہوں اک وہ ہی وہ ہے یاں جاویدؔ

دیتا ہوں پر جی کو دلاسا،  میں بھی ہوں

ان کی نظم ’سب میں ہوں مگر، میں سب نہیں ہوں‘ کے دو مصرعے ملاحظہ کریں۔۔  ؂

موجود  ازل سے ہوں،  ابد تک

اے وقت بتا میں کب نہیں ہوں

ایک ننھی منّی سی نظم ’امکاں‘  میں ہونے اور نہ ہونے کے معاملے کو میٹا مور فوسس (ماہیتِ قلبی) کی صورت میں دکھایا گیا ہے۔

غزل کے یہ شعر بھی دیکھئے۔۔   ؂

ہستی اپنی ہے خواب  یا  تعبیر

جب بھی سوچا یہی لگا،  دونوں

اپنی  تخلیق  کی  اکائی  میں

ایک ہیں خلق اور خدا،  دونوں

حصارِ امکاں کے صفحۂ آخر (220) کے دو شعر کیا کہہ رہے ہیں۔۔  ؂

لگائی  تہمتِ ہستی  مگر  کہیں  رکھّا

بنانے والے نے رکھّا بھی یا نہیں رکھّا

گماں کی بھول بھُلیّاں  بنا کے  دنیا کو

یہ کس نے  پیچ و خمِ راہ میں  یقیں رکھّا

’حٍصارِ امکاں‘ میں  ’ہونا نہیں‘  کی ردیف میں چھ اشعار کی ایک غزل ملتی ہے،  اس میں ’ہونے اور نہ ہونے‘ کا معاملہ مختلف اور متنوع زاویوں سے پیش کیا گیا ہے۔   یہ امر باعثِ حیرانی ہے کہ خالص فکر اور فلسفے کے موضوع کو ایک شاعر اس شاعرانہ انداز سے کس طرح سپردِ ابلاغ کر رہا ہے کہ قاری کو گمان بھی نہیں گزر رہا ہے کہ جو کچھ وہ پڑھ رہا ہے وہ شاعری کے علاوہ بھی کچھ ہے۔   ارسطوؔ کی ’بوطیقا‘ کی جمالیات  (Aesthetics )  کے دو اہم مناصب جمالیاتی تفریح مہّیا کرنا ( To entertain)  اور تعلیم دینا  (To instruct)  کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے،  جب ہم عبداللہ جاوید کی شاعری کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں ان کی انفرادیت کا ادراک ہونے لگتا ہے۔   ’حصارِ امکاں‘ میں ایک نظم کا موضوع ’’ہونے اور نہ ہونے کے درمیاں ‘‘ ہے۔   اس کو پڑھنے سے ہمارا کینوس وسیع ہو کر قرآنِ کرم کے حیطۂ فکر میں داخل ہو جاتا ہے۔   ان کی شعری کتاب ’خواب سماں‘ کی نظم’ لفظ‘  ہمیں ’نہ ہونے‘ کے مرحلے سے ’ہونے کے مرحلے‘ تک لے جاتی ہے۔

بظاہر تو ہم نے عبداللہ جاویدؔ کی شاعری کے دو اہم فکری موضوعات پر بات کی ہے،  لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ ہم نے ان کے تصوّرِ وقت اور انفرادیت کو اجاگر کرنے کی کوشش ان کے دیگر پڑھنے والوں پر چھوڑ دی ،  کیونکہ دونوں موضوعات نہ صرف تفصیل طلب ہیں بلکہ عالمی فکر سے تقابل کے طالب بھی ہیں۔

ان کی شاعری میں ’حُسنِ قاتل‘ کا نظریہ اُس ’حُسنِ قاتل‘ سے ہم رشتہ نہیں جو اردو غزل میں ملتا ہے۔   خیال غالب یہی ہے کہ مغربی ادب سے آیا ہے،  لیکن آورد کا رمق برابر بھی احساس نہیں ہوتا۔  ذاتی واردات ، تجربے اور مشاہدے کے معاملات معلوم ہوتے ہیں۔   مغربی  شاعری میں اس موضوع پر اس طرح کے مصرعے شاذ ہی ملیں۔۔   ؂

دوستو  !

زندگی جینے کے لیے ہے لیکن

ہم سے اتنا ہی غنیمت ہے،  گزر کرتے ہیں

کاش تم جانتے

ہے روزِ ازل سے جاری

حُسنِ قاتل کا فسوں

جس کے ہزاروں بہروپ۔۔

اک قلوپطرہ نے کیا کیا نہیں قالب بدلے

ہر زمانے میں نیا روپ ،  نیا نام رہا

ہم پہ بھی گزری جو اوروں پہ کبھی گزری تھی

حال پوچھو نہیں

سوچو نہیں

کیا تھے،  کیا ہیں۔۔  ؟

اس شاعری کو کسی مغربی نظریۂ فکر پر مبنی شاعری کا لیبل نہیں لگایا جا سکتا۔  یہ تو کسی سچّی واردات کی ترجمان شاعری ہے۔

’’رقص ‘‘  عبداللہ جاوید کی شاعری کا ایک اہم عنصر ہے۔   رقص کو جسمانی اعضاء کی شاعری بھی کہا گیا ہے۔   عبداللہ جاوید کے رقص کا تعلق اعضاء کی ظاہری حرکات سے نہیں ہے اور ہے بھی تو صرف اس صورت میں ہے جب یہ حرکات جسم کے اندرونی وجود کی حرکات کا خارجی مظہر ہوں۔   

ان کے بقول۔۔    ؂

کوئی جب دل کے اندر ناچتا ہے

تو انساں ہو  کہ پتھّر  ناچتا ہے

عام طور پر عالمِ حیرانی یا عالمِ استغراق میں رہنے والی یہ ہستی جب حالتِ جذب میں آ جاتی ہے تو محوِ رقص ہو جاتی ہے۔   سمند کا کنارا ہے،  رات کا پچھلا پہر ہے،  چاند ہے،  تارے ہیں،  ہوا ہے،  کوئی اس کے اندر محوِ رقص ہے۔۔  اور وہ خود باہر وارفتگی اور نیم دیوانگی میں مصروفِ رقص ہے۔   یہ رقص اپنی مثال آپ ہے۔   مغربی ادب کے مشہور رقص  The dance of the seven veils  ’’ سات پردوں (نقابوں ) کے رقص ‘‘ سے اس کا کوئی ناطہ نہیں ہے۔   نہ ہی گوپیوں کے رقص سے اس کا کوئی رشتہ ہے جو وہ کشن کنھیّا کی مُرلی کی تانوں پر کرتی تھیں۔   نہ ہی اس رقص کے ڈانڈے وشنو کے ناچ سے مِلتے ہیں،  نہ ہی سرسوتی کے تاتھئی تھیّا سے۔   یہ سارے رقص باہر کے ہیں،  جبکہ وہ رقص جو جاویدؔ صاحب کی شاعری میں مِلتا ہے اندر کا رقص ہے۔   یہ کیسا رقص ہے جس کے بارے میں وہ یہ کہتے ہیں۔۔   ؂

ہر  اک  ہونے کی  حد کو  پار کر کے

نہ ہونے کے کنارے،  رقص میں ہوں

اس رقص کے بارے میں یہ بھی تو کہا جا رہا ہے۔۔   ؂

قدم  روکوں  تو رُک  جائے  یہ  دنیا

یہی اچھا ہے پیارے،  رقص میں ہوں

کیا یہ واقعی رقص کہلائے گا۔۔   ؂

تصوّر  یا  حقیقت ہے کہ اکثر

مرا سر مجھ سے کٹ کر ناچتا ہے

اور جو ہم اس رقص اور اس رقص کے عقب میں کار فرما حقیقت کا پتا چلانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو جاویدؔ یہ کہتے سنائی دیتے ہیں۔۔    ؂

 

میں لکھتا ہوں مدینہ دل کے اوپر

تو دل کا  سارا اندر،   ناچتا  ہے

شاعری اور خاص طور پر اردو شاعری میں ’عشق، ایک پامال موضوع ہے۔   ہم نے عبداللہ جاوید کے تصوّرِ عشق میں جو کچھ دیکھا اس میں تھوڑی بہت انفرادیت بھی پائی۔  ’خواب سماں، میں عنوان ’’سرگزشت ‘‘ کے تحت پہلے بند میں وہ کہتے ہیں۔۔    ؂

                عشق مذہب کیا

                 اور مذہب

                 جسم سے جان تک

                  اُتار دیا

عبداللہ جاوید کے فکری مشمولات پر بات کرتے ہوئے ہمیں اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیئے کہ خود انہوں نے یہ اعتراف کیا ہے ’’جو کچھ مجھ میں ہے وہ میری شاعری میں آ گیا ہے۔   میں یہ نہیں کہتا کیونکہ اس کا عشرِ عشیر بھی نہیں آ سکا اور نہ ہی آ سکتا تھا۔  سقراط، عیسیٰ علیہ السلام اور حُسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،  تین بڑے شہید جو میرے ساتھ بڑے ہوئے ہیں،  میری شاعری میں اس طرح

نہیں آئے جو ان کا حق تھا اور ہے۔   اسی طرح راج کمار سدھارتھ اور کرشن جانے کہاں ہیں ؟ میرے اندر ہونے کے باوجود میری شاعری سے باہر کیوں ہیں ؟ ‘‘ (حصارِ امکاں۔  صفحہ  19 )۔

جس طرح کا اعتراف عبداللہ جاوید نے کیا ہے، اسی طرح کا اعتراف ہم پہلے ہی کئے دیتے ہیں کہ ہماری تحریر کے احاطے میں وہ سب کچھ نہ آ سکے گا جو عبداللہ جاوید کی شعری کتابوں میں موجود ہے۔

نہ چاہتے ہوئے بھی عبداللہ جاوید کی اظہارِ عقیدت کی شاعری کا ذکر کیے بغیر نہیں رہا جا رہا ہے۔   اس کا سبب صرف یہ ہے کہ راقم الحروف نے اس میں ایک انفرادی انداز دیکھا ہے۔   ایک خصوصیت تو ہے ہی کہ رواجی اسلوبِ ابلاغ سے ممکنہ گریز کیا ہے،  لیکن اس کے باوجود عقیدت کی شدّت اور اخلاص میں کسی قسم کی کمی نہیں آنے دی ہے۔

’حصارِ امکاں‘  صفحہ  35  پر قرآن کریم کی سورۃ الانعام میں مذکورہ اللہ تبارک تعالیٰ کی صفتِ ادراکی کی امتیازی شان اور وسعت کے بیان سے آنکھوں اور ان کی بینائی کا استعارہ مستعار لے کر یہ کہا گیا ہے کہ شاعر (بندے ) کی آنکھیں بھی بندے کی نہیں ہیں بلکہ رب کی دین ہے،  اور ساتھ میں ان کی بینائی بھی۔۔ آنکھوں کے استعارے کی رمزیت دیکھنے کی چیز ہے۔   صفحہ  36  پر ایک نعتیہ نظم ہے۔   اس کا انداز بھی منفرد ہے،  لیکن جذبے اور عقیدت سے مملو ہے،  اس میں اہلِ دنیا کی فراست اور اہلِ دل کی سادگی کا حوالہ نظم کو ہماری اور آپ کی دنیا سے بہت قریب کر دیتا ہے۔   صفحہ  37  پر تین شعر ’’آپ کے قدموں تلے‘‘  کی ردیف میں ہیں۔   ان کا والہانہ پن بے ساختہ ہے۔   صفحہ  38۔  39  پر ردیف  ’’آپ ‘‘  کے ساتھ حمدیہ غزل ہے۔   عجیب سی تحریر جو کبھی حمد لگنے لگے اور کبھی غزل۔  صفحہ  117 - 118   میں تین پھول نظمیں بھی ملتی ہیں جو اپنے انداز میں عجب طرح کی انفرادیت کی حامل ہیں۔   134 – 133 پر جو نعتیہ نظم ہے وہ اپنے فکری مشمولات کے اعتبار سے منفرد ہے۔   صفحہ  134  پر مندرجہ ذیل شعر بھی ہے۔   حمدیہ انداز کی انفرادیت دیکھنے کے لائق ہے۔۔   ؂

 پرندے بولتے ہیں اب زیادہ

مہرباں ہو رہا ہے  رب زیادہ

اسی طرح صفحہ  135 پر درج  نعتیہ نظم منفرد سوچ کی حامل ہے۔   عنوان ہے  ’’کاش ‘‘  نعتیہ نظم ’’چھوٹے آدمی کی بڑی آرزو ‘‘  صفحہ  137 - 136 کا ہر لفظ دل کی طرح دھڑکتا اور تڑپتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔   نعتیہ نظم ’’کیسے جاؤں مدینہ ‘‘ کو پڑھ کر ’فنون‘ کے ایک محترم قاری کو حضرت جنید بغدادیؒ یاد آ گئے تھے۔   ’’خواب سماں ‘‘  کا آغاز درج ذیل شعر سے ہوتا ہے۔۔   ؂

اے زمانے کو بنانے والے

میرے لفظوں کو زمانے دینا

’’خواب سماں ‘‘  صفحہ  92  پر حمدیہ نظم  ’’لفظ ‘‘ ،  ’’حمدِ باری تعالیٰ‘‘  صفحہ  93-95 ،  ’’ہوُ‘‘  صفحہ  96  ’’واحد واحد ‘‘  منفرد انداز کی نظمیں ہیں۔   صفحہ  98  پر ایک بے حد مختصر نظم درج ہے۔   نعتیہ نظم  ’’پیشی ‘‘ صفحات  102 - 100 خاصی منفرد ہے۔   ایک مختصر حمدیہ نظم ’’داتا ،  صفحہ  106  ارتکازِ ابلاغ اور سادگی میں منفرد ہے۔

عصریت، مقامی عصریت، بین الاقوامی عصریت، سیاست اور عبداللہ جاوید

اس موضوع پر بات چیت کا آغاز میں معروف شاعر جے ڈی مک کلاچی کے اس فقرے سے کرنا چاہتا ہوں ’’میں فلسطینی کاز کی حمایت کرتا ہوں،  لیکن نظمیں پلیٹ فارم نہیں ہوتیں ‘‘ شاعری میں عصری زندگی کے بے شمار مسائل در آتے ہیں کیونکہ شاعر جیتی جاگتی دنیا کا جیتا جاگتا فرد ہوتا ہے،  لیکن نہ تو وہ خطیب ہوتا ہے،  نہ مصلح اور نہ لیڈر ،  درحقیقت شاعری اور خاص طور پر بڑی شاعری کسی مقام اور کسی وقت سے جڑی ہونے کے باوجود اس مقام اور وقت کے اندر مقیّد ہو کر نہیں رہ جاتی بلکہ اس مقام اور وقت کے باہر بھی ہوتی ہے۔   ہیرولڈ بلوم  Harold Bloom  کے الفاظ میں ’’ کولرجؔ کی ’قبلائی خاں‘‘  کیٹسؔ کے  اوڈز ،  ہارٹ کرین کے  لیرکس  ہم کو باندھتے ہیں وقت کے اندر بھی اور باہر بھی۔  اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ شاعری کو  پیریڈ پیس   Period Piece  ہونے سے بچانا لازمی ہے۔

 دورِ جدید کے نقّادوں کا یہ موقف ہے کہ نظم ایک ایسی منفرد اور بے مثال اکائی ہے جسے کسی باہر کے حوالے سے سمجھنے کے بجائے خود اس کے وجود کے حوالے سے سمجھنا چاہیئے۔   ادھر والٹر۔ جے۔ اونگ کا کہنا ہے کہ نظم ایک ایسی آواز ہے جو شاعر کے اعماق سے اُبھر کر سُننے والوں کے اعماق میں اُتر جاتی ہے اور یوں ایک طرح کے ڈائیلاگ کو جنم دیتی ہے۔   اسی طرح وِم ساٹ نے نظم کو  لفظی پیکر  یا  Verbal Icon  کہا تھا۔   جبکہ  ایلیٹ نے  نظم کو  Monument  کا نام دیا تھا۔   وہ جو غالبؔ نے کہا تھا کہ   ؂ 

آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں  خیال میں

غالبؔ صریرِ  خامہ،  نوائے سروش  ہے

یہاں ’نوائے سروش‘  کی ترکیب،  شاعر کے اندر کی اُس غنائی آواز ہی کی طرف ایک واضح اشارہ ہے جسے بیسویں صدی میں اونگ نے اس قدر اہمیت دی ہے۔   پھر اونگ نے ایک بات اور بھی کہی ہے۔   وہ کہتا ہے کہ اندر کی یہ آواز جو تخلیق پر منتج ہوتی ہے،  اصلاً ایک چیخ بلکہ زخمی چیخ ہے۔   جس طرح ایک عام سی آواز تو لوگوں کی زیادہ توّجہ نہیں کھینچ پاتی،  لیکن چیخ اُن کے اندر اُتر کر انہیں لرزہ بر اندام کرنے پر قادر ہوتی ہے۔۔  بالکل اسی طرح ایک اچھی نظم بھی سُننے والوں کو احساس کی سطح پر گویا چھید ڈالتی ہے۔   

نظم کے حوالے سے مندرجہ بالا تمام نکات کی روشنی میں۔۔  اب آئیے عبداللہ جاوید صاحب کی کچھ نظموں کا  جائزہ  لیتے ہیں،  جن کا  انتخاب ہم نے  ان کے شعری مجموعات  ’موجِ صد رنگ‘ ’حصارِ امکاں‘  اور  ’خواب سماں‘  سے کیا ہے  : 

 

موئن جو ڈارو

 

میرا ماضی مری ہستی کا موئن جو ڈارو

تُو اسے دیکھ کے ممکن ہے فسردہ بھی نہ ہو

لوگ آتے ہیں یہاں ذوقِ نظارہ لے کر

ذوقِ نظارہ سے ممکن نہیں

انساں کو نجات  !

یہ بھی اک تلخ حقیقت ہے مرے دوست کہ آج

یہ کھنڈر

کل جو تھا اک قصرِ نگارین جہاں

آج مرحوم تمنّاؤں کا گورستاں ہے

لوگ آتے ہیں یہاں ذوقِ تجسّس لے کر

اور کچھ دیر نظارہ کر کے

اپنی را ہوں پہ چلے جاتے ہیں

کس کو احساس ہے اِس خاک کے ہر ذرّے میں

دلِ حسّاس کے زخموں کا لہو شامل ہے

ہر طرف پھیلی ہوئی گہری سی تاریکی میں

آرزوؤں کی حنا، جذبوں کی ضو شامل ہے

لوگ کہتے ہیں کہ جو وقت کٹا بیت چکا

بات جو بیت چکی،  بیت چکی ختم ہوئی  !

دل یہ کہتا ہے مرا زخم ابھی بھر نہ سکا

بات جو بیت چکی،  دل میں کھٹکتی ہے ابھی

اور احساس میں کانٹوں کی طرح چبھتے ہیں

کسی مہتاب سے چہرے کے دل آویز نقوش  !!

یہ گزرتا ہوا لمحہ ہے اک آزاد پرند

برق رفتاری سے اُڑتا ہی چلا جاتا ہے

ایک موہوم حقیقت ہے،  حقیقت ہی سہی

اک بدلتی ہوئی شے

جس کا نہ ادراک ہوا  !

اور گزرا ہوا لمحہ ہے گرفتار قفس

یاد کے پردے پہ ابھرا ہوا اک نقشِ دوام

اک اٹل ٹھوس حقیقت جو نہ بدلے گی کبھی

ایک تاریخ جو ہر لمحۂ ساکت میں ہے قید

 

’’وقتِ لافانی  ! ‘‘

’’عدم وقت ‘‘  کی حالت کا شعور  !

ایسے ہی وقت سے ماضی مرا تشکیل ہوا

اس کو تخریب بھی کہہ سکتے ہیں کہنے والے

گر تو آیا ہے یہاں

ذوقِ نظارہ لے کر

میں بھی تاریخ کے بوسیدہ ورق الٹوں گا

تاکہ کھنڈر سے تجھے شہر کا ادراک ملے

اور مٹّی کے ہر اک ذرّے سے

 دلِ حسّاس کے زخموں کا لہو پھوٹ بہے۔

 

موئن جو ڈارو کے آثار کی دریافت سے قبل یہ خیال عام تھا کہ ہندوستان کی کوئی تاریخ نہیں۔   اور ہیگل،  رینکے  اور  مارکس  اس نظریے کے حامل تھے۔   کیونکہ اُن کی معلومات کے مطابق ہندوستان میں بنی نوع انسان کی پیدائش کے کوئی آثار نہیں تھے اور یہاں کی تمام نسلوں  کے آباء و اجداد باہر سے ہی آ کر یہاں آباد ہوئے تھے۔   لیکن  1905 میں ارتھ شاستر  اور  1920 میں موئن جو ڈارو کی دریافتوں نے ہندوستان کی تاریخ کے بارے میں یہ نظریہ باطل قرار دے دیا۔

موئن جو ڈارو کی دریافت ارتھ شاستر سے بھی زیادہ اہم تھی۔   سیاح چارلس میسن  1833 میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج میں سپاہی بھرتی ہوا۔  1836  میں اُس نے  موئن جو ڈارو اور ہڑپہ کے کھنڈرات دیکھنے کے بعد دنیا کے لئے اپنے جو تاثرات قلم بند کئے ان کا لبِ لباب کچھ یوں ہے کہ۔۔  ایک لمبے سفر کے بعد چارلس میسن، گھنے جنگل واقع ہری پا ( ہڑپہ)  پہنچا۔  گاؤں کے مشرق میں گھاس زیادہ تھی،  اور دوسروں کی طرح اُس نے بھی اپنا گھوڑا وہیں چرنے کے لئے چھوڑ دیا۔  واپس لوٹنے پر اُس نے اپنے گھوڑے کو اینٹوں سے بنے ہوئے قلعے کے احاطے میں پایا۔   قلعے کی پشت کی طرف ایک گول سا ٹیلا تھا اور مغرب کی جانب ایک غیر ہموار سی چڑھائی جس پر تباہ شدہ مکانات تھے اور دیواروں کے کچھ حصّے تھے،  جن میں مشرقی قسم کے طاقچے بنے ہوئے تھے۔   چڑھائی تو ایک قدرتی بلندی تھی،  جبکہ ٹیلا مصنوعی طریقے سے مٹی سے بنا ہوا تھا۔۔  اُس نے ٹیلے کی بلندی کا جائزہ لیا۔   کچھ سوراخ دار گول رنگدار پتّھر اُس کے ہاتھ لگے۔۔  جن کے بارے میں اسے بتایا گیا کہ یہ کسی فقیر کے ہاتھ کی چوڑیاں اور بازو بند ہیں۔   اُس نے دیکھا کہ قلعے کی دیواریں اور برج،  غیر معمولی طور پر بلند ہیں۔   عرصے تک غیر آباد رہنے کی وجہ سے ان میں وقت کے ہاتھوں ویرانی اور زوال کے نشانات نظر آتے ہیں۔   قلعے کے مشرقی کی جانب ایک گہری کھائی ہے۔   اس میں گھاس اور جھاڑیاں اگی ہوئی ہیں۔   روایت ہے کہ یہاں ایک شہر آباد تھا جو اتنا بڑا تھا کہ تیس کوس تک پھیلا ہوا تھا۔۔  اس شہر کو آسمانی آفات نے تباہ کر دیا جو اس کے حکمران کی بد چلنی اور عیاشی کی وجہ سے اس شہر پر نازل ہوئیں  !

کہا جاتا ہے کہ وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا۔۔  وقت کسی کا پابند نہیں ہے۔۔  بلکہ اس کائنات میں پائی جانے والی ہر شہ وقت کی پابند ہے۔   حتیٰ کہ کرۂ ارض کے قدیم ترین اوتار گوتم سدھارتھ نے بھی وقت کو دوام دینے سے انکار کر دیا تھا۔۔  لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ جاوید صاحب نے موئن جوڈارو کے ماضی اور اس پر محیط وقت کو۔۔  وہاں کے کھنڈرات میں سانس لیتا ہوا پایا۔۔  اور اسے اپنی اس نظم میں سپردِ ابلاغ کر دیا۔

 

نقشِ دوام

 

دوست،  تم نے کبھی محسوس کیا تو ہو گا

اجنبی لوگ

نئی چیزیں،  نئے شہر بھی کیوں

دیکھے بھالے سے شناسا سے نظر آتے ہیں  ؟

جیسے حیرت کدۂ دہر میں

ہم اہلِ دوام

مختلف شکلوں میں ڈھلتے ہی رہے ہیں اب تک

اور ڈھلتے ہی چلے جائیں گے  !!

 

 وقت کے دھارے سے ہر چیز ابھرتی ہے یہاں

اور دھارے ہی میں کھو جاتی ہے

پھر کسی وقت کہیں اور ابھرنے کے لئے

ڈوبنے اور ابھرنے کا عمل جاری ہے

ابتدا جس کی ازل

انتہا جس کی ابد

موج در موج رواں ہے آگے  !!

 

دوست تم نے کبھی محسوس کیا تو ہو گا

آج سے پہلے بھی

مٹّی سے اُگے ہوں گے شجر

آج سے پہلے کسی سوکھے ہوئے پھول کی خاک

اک نئے پھول کے

سانچے میں ڈھلی بھی ہو گی

پھول اور دھول کا یہ ربط نئی بات نہیں

بیج بھی خاک کے ذّروں میں بدل جاتے ہیں

آج سے پہلے بھی دنیا میں کہیں تم ہو گی

آج سے پہلے بھی میں نے تمہیں چاہا ہو گا۔

 

اِس کرۂ ارض پر جنم لینے والے ہر ذی روح مادّہ کی یہ خاصیت ہے کہ وہ ہمیشہ تغیّر و تبدّل کے ایک مرحلے یا سفر سے گزرتا رہتا ہے۔   اور جب سفر کیا جاتا ہے تو اُس سفر کی کوئی نہ کوئی منزل بھی ہوتی ہے۔   اور وہی منزل بالآخر اُس مسافر کا گھر بن جاتی ہے۔   اور جب مسافر اپنے سفر کی پہلی منزل پر پہنچتا ہے۔ ۔  تو اُسی لمحے سے اُس کی واپسی کا سفر شروع ہو جاتا ہے۔۔  جو اُس کی طبعی عمر کو پہنچنے پر ختم ہوتا ہے۔ ۔۔  اور اس کا وجود جس نے اِسی مٹّی سے جنم لیا تھا۔۔  بالآخر اپنے گھر لوٹ آتا ہے۔۔  جس کے فوراً بعد۔۔  اُس کا ایک نیا وجود۔۔ کسی اور روپ میں۔۔  مثلاً کسی شجر کے روپ میں۔ ۔  یا اس کی شاخ پر پھول بنکر نمودار ہو جاتا ہے۔۔ 

عبداللہ جاوید صاحب نے اپنی نظم  ’نقشِ دوا م‘  میں ذی روح مادّے کی اسی  Re-cycling کو بنیاد بنا کر۔ ۔   محبّت، قربت اور عشق کے عمل کو دوام بخشا ہے۔۔  اور انسانی زندگی کے سب سے خوبصورت اور فطری جذبے کے امر ہونے کی دلیل پیش کی ہے۔   

 

واپس آ جاؤ  !

 

نصف شب بیت چکی،  سرد ہوا چلتی ہے

گھر کے سب لوگ ہیں،  خوابیدہ نہ جانے کب سے

پاس کے کمروں سے خرّاٹوں کی گونج آتی ہے

اور احساس پہ چھائی ہوئی کہر ے کی گھٹا

گہرے ہوتے ہوئے سنّاٹے میں کھو جاتی ہے

گھر کے باہر بھی

سکوتِ شبِ غم طاری ہے

اوس کے اشک برستے ہیں،  فضا روتی ہے

دسترِ چرخ پہ اک کاسۂ واژوں کی طرح

چاند کا نصف کرہ الٹا ہے  !

صرف گنتی کے ستارے ہیں فلک پر رخشاں

روشنی جن کی

سیاہی کو بڑھا دیتی ہے

ایک دو قمقمے بجلی کے

جو ہیں چشمِ براہ

دُور میداں کے اندھیرے میں کھڑے گھورتے ہیں

آنے والا ہے کوئی  !

میرے کمرے میں بھی چھائی ہوئی تاریکی ہے

نیند کی آس پہ رکھے ہیں نہ جانے کب سے

در ان آنکھوں کے کھُلے

نیند آتی ہی نہیں

نیند نہیں آتی ہے  !

پلکیں جلتی ہیں مگر نیند نہیں آتی ہے

کُند ہے ذہن کہ اعصاب ہوئے ہیں مفلوج

کتنا واماندہ ہے احساس

کہ دل بوجھل ہے

درد اُٹھتا ہے تو دریا کے تموّج کی طرح

سیل در سیل اُبھرتا ہی چلا جاتا ہے

دُور تک حدِ نظر تک کہیں ساحل ہی نہیں  !

کروٹیں کتنی ہی لو،  تڑپو،  پکارو،  چیخو  !

سیکڑوں اشک بہانے سے بھی کیا ہوتا ہے

نیند آتی ہی نہیں  !

 

نیم وا،  آنکھیں

خلاؤں میں کسے ڈھونڈتی ہیں

ایک اسرار سے

ماحول ہوا ہے لبریز

کتنا پُر ہول

شبِ تار کا سنّاٹا ہے

جیسے سرگوشیاں کرتا ہو فضا میں کوئی

وقت نے روک لیے

اپنے سبک بار قدم

حال اور ماضی کی تفریق بھی باقی نہ رہی

موت نے زیست کے شانوں کو جھنجھوڑا بڑھ کر

روح قالب میں سما جانے کو بیتاب ہوئی

 

نیم وا آنکھوں نے

پتھرائی ہوئی نظروں سے

کتنی روحوں کو خلاؤں سے اُبھرتے دیکھا

ایک مانوس صدا

کانوں میں پھر سے گونجی

ایک سایہ سا

اندھیرے سے نکل کر اُبھرا

اک نئی آس بندھی ،  اک نئی حسرت اُبھری

دلِ دیوانہ کی اک چیخ فضا میں گونجی

’’واپس آ جاؤ،  خدا کے لیے واپس آ جاؤ‘‘  !!

 

’واپس آ جاؤ‘  عبداللہ جاوید صاحب کی ایک ایسی تاثر انگیز،  سچّے عاشق کے معصوم جذبوں بھری، اور مصوّرانہ استعاروں سے آراستہ،  خوبصورت نظم ہے جو۔ ۔ ’’واپس آ جاؤ‘‘  ’’خدا کے لیے واپس آ جاؤ ‘‘  کی اختتامی لائن تک پہنچنے پر قاری کو۔۔  نظم کے واحد متکلّم کے وجود کا حصّہ بنا دیتی ہے۔۔  قاری نظم کے واحد متکلّم کے معصوم جذبوں اور  سچّے عشق کو اپنے وجود میں  سرایت کرتا ہوا محسوس کرنے لگتا ہے۔۔  اور قاری کے اس احساس کی بیداری کا سارا کریڈٹ،  شاعر کو جاتا ہے،  جس نے اس مشاہداتی معصوم جذبے کو نہایت بارک بینی اور کہنہ مشقی کے ساتھ اپنی اس نظم کی لائینوں میں اپنی منفرد استعاراتی لفظیات کے ساتھ پیش کیا ہے۔

 

قلوپطرہ

(۱)

لوگ کہتے ہیں کہ دنیا کے طریقے سیکھو

اپنا یہ حال کہ جینے کا بھی احساس نہیں

حادثے دل پہ وہ گزرے ہیں کہ دل سنگ ہوا

وقت کے سیلِ رواں کی زد میں

کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ لبِ ساحلِ شوق

چند لمحوں کے لیے ٹھہرنا درکار ہوا

ہم نے چاہا کہ گزرتے ہوئے لمحے تھم جائیں

ریت پر شہر

بسائے گئے ارمانوں کے

سنگِ اسود کی جگہ دل کو سجا کر ہم نے

نئے کعبے کی،  نئے دیر کی بنیاد رکھی

ثبت پھر دل پہ ہوئے پھول سے ہونٹوں کے نقوش

یو ں کسی دستِ حنائی نے

چھوا بھی دل کو

سنگِ اسود ہی نہیں

دل ہوا سنگِ وعدہ  !

 

وقت کے سیل سے

خوابوں کے جزیرے ابھرے

ہر جزیرے میں نئے شہر کی بنیاد پڑی

ہر نیا شہر بنا

مصر کا تازہ بہروپ

اپنی قسمت کہ ہمیں کوئی زلیخا نہ ملی

ورنہ بازار میں بکنے سے بھی کچھ عار نہ تھا

 

(۲)

لوگ کہتے ہیں کہ پتھّر سے تراشو اصنام

ہم نے جو بت بھی تراشا

قلوپطرہ میں ڈھلا  !

ہم نے جب دل کو ٹٹولا

خلشِ دل کا سبب

پھول کی پتّی کی صورت کوئی کانٹا نکلا

حُسن کو ہم نے سدا شعلہ بداماں دیکھا

ایک اک جلوے کو مشتاقِ شہیداں پایا

 

کون پہچانے کہ ہے زلفِ سیاہ

مارِ سیاہ

کون جانے کہ ہیں ابرو کے اشاروں میں نہاں

جان سے،  جی سے،  گزر جانے کے

کتنے پیغام  !

کہتی ہیں آنکھ کی جھیلیں کہ ڈبو دو سب کچھ

ہار اور جیت کا احساس

حقیقت کا شعور

پلکیں رقصاں ہیں

کہ جذبات بھی رقصاں ہی رہیں

لب یہ کہتے ہیں کہ خاموش رہو۔ ۔  کچھ نہ کہو  !

 

(۳)

لوگ کہتے ہیں

جیو

جینے کے احساس کے ساتھ

یاں تو اک ٹیس ابھرتی ہے  ہر اک سانس کے ساتھ

صبح سے شام ہوئی

شام سے ہو جائے گی رات  !

وقت کے سیلِ رواں کی زد میں

ہر نئے دن،  نئے مہتاب کو

کھا جائے گا نور

اور ہر شام نئے

مہر کا ماتم ہو گا  !

دوستو  !

زندگی جینے کے لیے ہے  لیکن

ہم سے اتنا ہی غنیمت ہے،  گزر کر تے رہیں

کا ش تم جانتے

ہے روزِ ازل سے جاری

حُسنِ قاتل کا فسوں

جس کے ہزاروں بہروپ

اک قلوپطرہ نے کیا کیا نہیں قالب بدلے

ہر زمانے میں نیا روپ ،  نیا نام رہا

ہم پہ بھی گزری جو اوروں پہ کبھی گزری تھی

حال پوچھو نہیں

’’کیا تھے،  کیا ہیں ‘‘  !

دوستو  !

تم نے قلوپطرہ کو دیکھا ہے کبھی

مارک انطونی کے لب

آج بھی ہیں نوحہ کناں

اس کی آواز سے اب تک ہیں فضائیں معمور

آج بھی سوچتا ہے جیسے وہ خود اپنا مآل

’’دیکھنے دو،  مجھے،  کیا حال ہے باطن کا مرے

اب بھی کچھ باقی ہیں کیا میری انا کے آثار ‘‘

 

آئیے پہلے نظم ’’قلوپطرہ ‘‘ کے تلمیحی استعاروں پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔لوگ شاعر کو دنیا کے طریقے سیکھنے کی تلقین کرتے ہیں۔ جبکہ حوادثِ زمانہ نے شاعر کو بے جان پتھّر جیسا بنا دیا ہے۔   شاعر کی زندگی وقت کے سیلِ رواں کی زد میں رہی۔  سنگ کا استعارہ ’’سنگِ اسود‘‘ اور ’’سنگِ وعدہ ‘‘تک پہنچا۔  بابل کی تہذیب میں لوگ ایک سیاہ پتھّر پر ہاتھ رکھ کر وعدہ کیا کرتے تھے۔ وقت کے سیلِ سے خوابوں کے جزیرے ابھرنے کا استعارہ۔ پھر شہر۔ شہروں میں شہر۔ شہرِ مصر۔ بازار۔ بازارِ مصر۔یوسفِ کنعاں۔  اور ان کی رعایت سے زلیخاؔ۔ ( لیکن بازار میں بکنے سے فائدہ جب کہ زلیخاؔ کا دُور دوُر تک پتا نہیں  !!  پتّھر کے استعارے کا رشتہ اصنام سے۔ صنم ملا تو  قلوپطرہؔ  جیسا۔   انطونیؔ ۔ اپنے وقت کا بانکا جوان۔ زبردست  اتھلٹ ،  مراتھن ریس کا فاتح۔  سیزرؔ کی لاش پر تاریخ کی ایک عظیم یاد گار تقریر کرنے والا آتش نوا مقرّر۔ اپنے وقت کا زبردست فوجی جرنیل۔  قلوپطرہ کے عشق میں اپنی تمام تر صلاحیتوں سے بے بہرہ ہو کر ناکامی  اور درد ناک انجام سے  دوچار ہونے والا ہیرو۔۔  شاعر کا مماثل۔۔

مشرق میں جس طرح وارث شاہ نے ہیر، رانجھا کو اپنی ابیات میں ڈھال کر زندہ جاوید کر دیا ہے۔  شیکسپئر نے مغرب میں قلو پطرہ اور مارک انطونی کو مصری اور رومن تاریخی صفحات سے اٹھا کر اپنی معرکۃ الآراء تمثیلی تخلیق میں امر کر دیا ہے۔   قلو پطرہ  17 سال کی عمر میں مصر کی ملکہ بنی۔  اپنی خداداد صلاحیتوں، ذہانت اور حُسن کے ذریعے وہ فتوحات کے جھنڈے گاڑتی سلطنتِ روما تک جا پہنچی۔۔  اور جولیس سیزر کے دل پر حکمرانی کے ساتھ ساتھ روم کی حکمرانی میں بھی جولیس کی ساجھے دار بن گئی۔۔  جولیس کے قتل ہو جانے کے بعد،  قلوپطرہ اسکندریہ واپس آ گئی۔  لیکن جب اُس نے دیکھا کہ اب حالات بدل چکے ہیں اور اسے مصر کی حکمرانی میں شراکت نہیں مل سکتی تو اُس نے مارک انطونی کے ساتھ اجتماعی خود کشی کا فیصلہ کر لیا۔  اور جیسا کہ اُس زمانے میں مصر کے حکمرانوں میں رواج تھا کہ ہر شخص اپنی زندگی ہی میں اپنا مقبرہ تعمیر کرواتا تھا۔۔  لہذا قلوپطرہ نے بھی خود کشی سے پہلے اپنے اور انطونی کے لیے مقبرہ تعمیر کروایا۔۔  یہ وہ وقت تھا جب انطونی کسی حکمتِ عملی کے تحت ا سکندریہ سے باہر تھا۔  لہذا جب اس نے یہ افواہ سنی کہ قلوپطرہ نے مقبرہ بنوا کر خود کشی کر لی ہے تو۔۔  اُس نے ایک سچّے عاشق کی طرح اس افواہ کی تصدیق کیے بغیر خود کشی کر لی۔۔  اِدھر جب قلوپطرہ کو انطونی کی خود کشی کی اطلاع ملی تو اُس نے بھی  29  اگست  30  BC  کو  اپنی جان دیدی۔   وہ دن ہے اور آج کا دن۔۔  کیا مغرب اور کیا مشرق۔۔  دنیا بھر کے شاعروں اور ادیبوں نے قلو پطرہ کو تلمیح اور استعارہ بنا بنا کر نظموں، کہانیوں اور ڈراموں کے ڈھیر لگا دئے۔۔  عبداللہ جاوید صاحب کی کی نظم ’قلوپطرہ‘ کے آخری دو مصرعے  ڈرائیڈن  کی نظم سے ماخوذ ہیں۔   جاوید صاحب نے قلوپطرہ کے حُسن کو استعارہ بنا کر ’حُسنِ قاتل‘  کی بات کی ہے۔

شاعر نے نظم کی ابتدا  اپنے کسی خیر خواہ کی نصیحت سے کی ہے کہ  اپنی زندگی کو  دنیا کے  مرّوجہ طور طریقوں سے گزارنا سیکھو۔۔  لیکن شاعر کا المیہ یہ رہا ہے کہ جب جب  اُس نے  اپنی زندگی کو بھرپور انداز سے گزارنے کی کوشش کی ’حُسنِ قاتل‘ نے اُسے اپنے سِحر سے باہر نکلنے نہیں دیا اور اس کی ساری مساعی رائیگاں گئیں۔

 

لب بستگی

 

کس کی زلفوں کی مہک، کس کے  بدن کی خوش بو

کس کی آنکھوں کا نشہ،  کس کی  نگاہوں کی پھوار

کس کے ابروؤں کے  احکام سے دیتے ہوئے خم

کس کے رخساروں میں رچتی ہوئی اک روحِ بہار

 

لمس  کن ہونٹوں کا  اک  شیر  و  شہد کی  تخمیر

کس کے پیکر سے  چھلکتی ہوئی  صہبائے  جمال

کوئی  تصویر کوئی  عکس،  کوئی  خواب  کا  نقش

کوئی  پرچھائیں  کوئی  وہم،  کوئی  دام  خیال

کوئی  عورت کوئی  دیوی  کوئی داسی  کوئی  حور

رنگ  کی   نور  کی   خوشبو  کی   نرالی  تجسیم

حُسنِ تخلیق میں  جب  آپ ہی  ہو  اپنی  مثال

کون  کر سکتا  ہے   ا لفاظ  میں  اس کی  تفہیم

 

ایک  اک  لب پہ  لگی ہیں یہاں سو سو  مہریں

اذنِ  جلوہ   ہے  مگر   مہلتِ  گفتار  نہیں

بندشیں   لاکھ    بظاہر   نہیں   زنجیر   کوئی

ایک  زنداں  ہے  کہ جس  کی کوئی دیوار نہیں

اک  خنک  آگ میں جلتے ہوئے سب اہلِ نظر

اک  سزا  جس  کی  مقرر  نہیں  میعاد  کوئی

چند  انجانی    خطاؤں   کا   کھٹکتا    احساس

وجہ  تعزیر   حقیقت   میں   نہیں   یاد  کوئی

 

حُسنِ قاتل  کا  فسوں   نام  کا   پابند  نہیں

پھول کانٹے میں بدل جائے  تو کانٹا ہے نہ پھول

ہم  سے  مت پوچھو  ہمارے ستم  ایجاد  کا  نام

ہر  نئے  لمحے   نیا روپ  ہے جس  کا  معمول

کارمن،  زہرہ،  ہیلن  اور  ڈلائیلہ  کیا  ہیں

حُسنِ قاتل کے ہزاروں نہیں لاکھوں بہروپ

اک  قلو پطرہ  کو  سو نام  زمانے نے  دیے

نت نئے سانچوں میں ڈھلتا رہا اس کا بہروپ

کوئی کب تک یہاں  اپنے کو  بچائے  رکھے

ہر  نیا  لمحہ  نئے  جلوے  کا  بنتا ہے  نقیب

نفسا نفسی  کا  وہ  عالم ہے کہ کچھ  ہوش  نہیں

ساتھ میں  اپنی ہی پرچھائیں ہے  یا اپنا رقیب

 

شبِ تاریک  میں  بلبل کو  ڈسا  تھا کس نے

پھول کی ڈالی کہ  اک  مارِ  سیہ  کون کہے  ؟

کون  بتلائے کہ شبنم  میں ہے  شعلے کی  تپش

جلنے  والا تو یہاں جل کے بھی  خاموش رہے  !

 

’لب بستگی‘ عبداللہ جاوید صاحب کی مشہور نظم ’قلوپطرہ‘  کا تسلسل ہے۔  

جاوید صاحب نے ’قلوپطرہ‘ میں جس ’ حُسنِ قاتل‘  کے فسوں انگیز بہروپوں کا ذکر کیا ہے۔۔  اُسی حُسن کی دیوی کی تیر اندازیاں اپنے تسلسل کے ساتھ ’لب بستگی‘ میں در آئی ہیں  !!

’’لب بستگی ‘‘ کا موضوع حُسنِ قاتل ہے،  جس کی مثال اُس پھول سے دی جا سکتی ہے جو پلک جھپکتے میں کانٹا بن جاتا ہے۔  

اِس نظم میں فارسی کے مشہور و معروف شعر۔ ۔  ؂

بزیرِ شاخِ گل افعی گزیدہ بلبل را

نوا گردنِ نخوردہ گزندرا  چہ خبر

کے مفہوم میں ’’حُسنِ قاتل‘‘ کے تصوّر کے زیرِ اثر ترمیم کر کے یہ کہا گیا ہے کہ ضروری نہیں کہ بلبل کو افعی نے ڈسا ہو،  شاخِ گل بھی تو یہ واردات انجام دے سکتی ہے ’ حُسنِ قاتل‘ کے روپ میں جیسے شبنم شعلے کا روپ دھارے لیکن جو جلے وہ بتا بھی نہ سکے۔۔  بتانے کی اجازت کوئی حُسنِ قاتل دے گا بھی کیوں  ؟  ایک اک لب پہ جو سو سو مُہریں لگا دی ہیں۔

 

بھاگتے لمحے بدلتے روپ

 

( ابتدائیہ )

منتشر ہو گئے اجزائے طلسماتِ وجود

ایک اک کر کے

پریشاں ہوئے اوراقِ حیات  !

 

حجلۂ  شوق کا در

باز ہوا تو دیکھا

لیلیِٰ ہستی کی آنکھوں سے رواں تھے آنسو

ہونٹ ہلتے تھے کہ مصروفِ دعا ہوں جیسے

’’کوئی پتّھر سے نہ مارے مرے دیوانے کو ‘‘

کون سنتا ہے یہاں

کس کی دعا، کس کی صدا

’’کس سے بے مہریِ قسمت کی شکایت کیجے ‘‘

مہرِ تاباں کی ضیا پاش شعاعوں کے طفیل

ریت کے ذرّے

نگینوں میں ہوئے ہیں تبدیل

آب سے جن کی نظر خیرہ سی ہو جاتی ہے

ان سے اک پانی کے قطرے کی تمنّا بے سود  !!

آب مانگو گے تو

ہر ذرّہ ہنسے گا تم پر

موج در موج اُبھر آئے گا دریائے سراب

حیف تم اپنی امیدوں پہ پشیماں ہو گے  !!

( پہلا باب )

ہر نیا حادثہ

اک درس نیا دیتا رہا

ہر نئے موڑ پہ دنیا نئے سانچے میں ڈھلی

ہر نئے لمحے نے افسوں نیا پڑھ کر پھونکا

اک نئی آرزو ابھری نیا جادو جاگا

نت نئے روپ میں

رنگین،  سنہرے بادل

افقِ دل پہ نیا رنگ جماتے ہی رہے

سالہا سال

تمنّاؤں کے طفلِ ناداں

چند رنگین غباروں کے عقب میں دن رات

کو بہ کو،  کوچہ بہ کوچہ

رہے اُفتاں خیزاں  !!

( دوسرا  باب )

کسی میراؔ نے کہا

’’پریم دیوانی ہوں میں

درد میرا نہ کبھی جان سکے گا کوئی ‘‘

حیف انسان تھا میں

کشنؔ  کا  اوتار نہ تھا

ایک تھی بھاگؔ متی،  بھاگ نگر کی باسی

جس کی آنکھوں سے ٹپکتا تھا مے ناب کا رس

چال میں لوچ تھا ایسا کہ خرامِ آہو

بات کرتی تو

برستے تھے لبوں سے غنچے

مسکراتی تو چٹک جاتی تھیں کلیاں دل کی  !

میں نے بھی شعر کہے

مثلِ قطبؔ شاہِ دکن

میں نے طغیانیِ موسیٰ کی بھی پرواہ نہ کی

آہ لیکن نہ بسا کوئی مرا ’’بھاگ نگر ‘‘

 

مثلِ یوسفؔ کبھی بازار میں

بکنے بھی گئے

اس تمنّا پہ ’’زلیخا سا خریدار ملے ‘‘

پر زلیخا تو کوئی پیرِ دلالہ نکلی

اک قلوپطرہ کے

ابرو کا اشارہ پا کر

ہم نے سوچا کہ چلو ملکِ وفا فتح ہوا

حیف اس خواب کی تعبیر بھی جھوٹی نکلی

’’ہم نے چاہا تھا کہ مر جائیں سو وہ بھی نہ ہوا ‘‘

( تیسرا  باب )

موج در موج ابھرتی گئیں دل کی ٹیسیں

درد،  دریا کے تلاطم کی طرح بڑھتا گیا

پھول کی شاخ کے

سائے میں کسی بلبل کو

سانپ نے سونگھ لیا،  کس کو خبر کس کو پتا  ؟

چاند کے نور کی

ٹھنڈک سے بڑھی دل کی جلن

چاندنی رات کی

تنہائی ہمیں ڈسنے لگی

چاند کہنے لگا

فن میں ہے مداوا دل کا

حسن تخلیق کرو،  حسن کو حاصل ہے دوام

فکرِ دنیا تو

مرے دوست ہے اک جذبۂ خام

ورقِ قرطاس پہ کچھ

نقش نرالے کھینچو  !

کچھ نئے رنگ بھرو،  خونِ جگر سے اپنے

اس سے پہلے کہ تمہیں موت کا افعی ڈس لے  !

( چوتھا  باب )

ہر گزرتے ہوئے لمحے نے یہ رک کر پوچھا

کون ہو،  کس لیے آئے ہو،  ذرا سوچو تو  ؟

میں نے حسرت سے جو دیکھا

سوئے افلاک تو رات

اشک افشاں ہوئی یوں خام خیالی پہ مری

دیکھتے دیکھتے تر ہو گئے مینار و کلس

روح اور جسم

خدا اور آدم

پاک، ناپاک، گناہ اور ثواب

موت اور زیست جہاں اور عقبیٰ

جھوٹ، سچ، وہم، گماں اور ایقان

کعبہ اور کاشی، پگوڈا اور دیر

مسجد و منبر و گرجا و صلیب

آتشِ قدس کے

گھر ہوں کہ ہوں بیت الاصنام

صرف الفاظ ہیں

بے روح معانی و متن  !!

 

بھاگتے لمحوں کے پیروں سے لپٹ کر میں نے

اک گدایانہ صدا دی کہ ذرا ٹھہرو تو

روک لو اپنے قدم

ٹھہرو،  خدا را ٹھہرو  !

سوچنے دو مجھے اک لحظہ ذرا سوچنے دو  !

بھاگتے لمحوں نے

ٹھکرا کے مجھے چھوڑ دیا

بھاگتے لمحوں نے

مڑ کر بھی نہ دیکھا مجھ کو

(  پانچواں  باب )

وقت کے ساتھ گزرتے گئے روشن لمحے

زیست کی قوسِ قزح رنگ سے محروم ہوئی

رات کا روپ لٹا

سحر کا جادو ٹوٹا

فصلِ گل حسن سے بیگانہ ہوئی

اور خزاں

حیف خالی ہوئی اسرار سے رومانوں کے  !!

وقت کے ساتھ

زمانے کا فسوں بھی ٹوٹا

دیکھتے دیکھتے ہر ریشمی پردہ سرکا

کھینچ کر پھینک دیا

وقت نے ہر شے کا لباس  !

زیست بھی ہو گئی

عریاں

زنِ قحبہ کی طرح  !!

 

جاوید صاحب کی نظم  ’’بھاگتے لمحے، بدلتے روپ ‘‘  اپنے ابتدائیے اور پانچ ابواب پر مشتمل ہے   جو بہ یک وقت،  آپ بیتی بھی ہے اور جگ بیتی بھی،  ایک کہانی،  ایک ڈراما، ایک تمثیل ہے۔۔  جس میں طلسماتِ وجود کے منتشر ہونے اور اوراقِ حیات کے پریشان ہونے کی واردات رقم ہے۔   

جہاں تک اس کے کرداروں کا تعلق ہے تو وہ لیلیٰؔ (قیسؔ  و لیلیٰؔ)  میراؔ (ہندی کی مشہور شاعرہ اور کرشنؔ کی بھگت اور دیوانی) بھاگ متی ( شہزادہ قلی قطب شاہِ گولکنڈہ کی محبوبہ،  جس کے نام پر رودِ موسیٰ کے کنارے بھاگ نگر۔  (حیدر آباد) آباد ہوا زلیخاؔ (حضرت یوسفؔ علیہ السلام کے حوالے سے شہرت پانے والی) قلوپطرہؔ (ملکۂ مصر)۔ ۔  اور پھر وقت۔۔  اور غالبؔ کا شعر۔۔   ؂

کس سے بے مہریِ قسمت کی شکایت کیجے

ہم نے چاہا تھا کہ مر جائیں، سو وہ بھی نہ ہوا

اس ڈرامے کے انجام کی کیفیت بھی کچھ یوں ہے کہ۔۔   ؂

کھینچ کر پھینک دیا

وقت نے ہر شے کا لباس

زیست بھی ہو گئی

عریاں

زنِ قحبہ کی طرح  !!

 

جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ زندگی ایک مسلسل سفر سے عبارت ہے۔۔  گزرتے وقت کے یہ بھاگتے ہوئے لمحے۔۔  اپنی گرفت میں آنے والے۔ ۔  ہر منظر۔۔  ہر ذی روح۔۔  ہر فکر اور ہر جذبے کا روپ بدل دیتے ہیں۔۔  ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا۔۔  بلکہ اس مادّی کائنات کا ذرّہ ذرّہ اس کا تابع ہے۔۔  یہ وقت ہی ہے جو لمحہ بہ لمحہ ہر تغیّر و تبّدل کا ذمّہ دار ہے۔   یہی وقت کبھی اپنے تابع ،  سماج کے ہاتھوں قیسؔ کو لیلیٰ سے محبّت کرنے کے جرم میں سنگ باری سے لہو لہان کروا دیتا ہے۔۔  تو کبھی۔۔  میراؔ جیسی پریم دیوانی کے درد کو نہیں جان پاتا ہے۔۔  وہ بھاگؔ متی کی آنکھوں سے ٹپکتے مے ناب کے رس اور اُس کی چال کے لوچ۔۔ خرامِ آہو۔۔  اور لبوں سے چٹکتی کلیوں کو نظر انداز کر دیتا ہے۔۔  کبھی یوسفؔ کو مصر کے بازار میں زلیخاؔ کے ہاتھوں بکوا دیتا ہے۔۔  تو کبھی قلوپطرؔہ کے ایک اشارۂ ابرو سے  ملکِ  وفا فتح کر وا دیتا ہے۔۔  یہ وقت اور گزرتے لمحے۔۔  ہر پل۔۔  ہر لمحے۔۔  بدلتے رہتے ہیں۔۔  وقت کے آگے انسانی زندگی بے معنی ہے۔۔  جاوید صاحب نے اپنی نظم ’بھاگتے لمحے بدلتے روپ‘  میں انسانی زندگی کے مختلف روپ،  روایتی کہانیوں کے تناظر میں بیان کیے ہیں۔۔ 

ابتدایئے کے علاوہ،  پانچ ابواب پر محیط یہ نظم انسانی زندگی کے ست رنگی روپ تمثیلی انداز میں پیش کرتی ہے۔   شاعر نے نہایت باریک بینی اور تجرباتی کرب و کسک کے ساتھ انسانی زندگی کے ہر روپ کی نہایت ہی خوبصورتی کے ساتھ مصوّری کی ہے۔۔  جاوید صاحب کی نادر تراکیب اور آفاقی استعارے۔۔  اس نظم کا زیور ہیں۔۔  اس نظم کی طوالت سے قاری قطعی نہیں اکتاتا۔۔  اور نہ ہی اس کے ست رنگی ابواب میں گم ہوتا ہے۔۔  قاری تو اس نظم میں انسانی زندگی کے ہر روپ۔۔  ہر جذبے۔۔  ہر عذاب۔۔  میں خود کو ملوّث پاتا ہے۔۔  وقت اور گزرتے لمحوں کا شکار انسان۔۔  اس نظم کی لائینوں سے لپٹ کر۔۔  خود کو، روح و جسم، خدا و آدم ، پاک، ناپاک، گناہ و ثواب، موت و زیست، جہان  و عقبیٰ، جھوٹ و سچ، گمان و ایقان، کعبہ و کاشی پگوڈا ور دیر کے بے روح حصار سے نکالنا چاہتا ہے۔ ۔  !!

 

عرفانِ نفس

 

میں تھک گیا ہوں،  خدایا  !!

میں دوسروں کی نگاہوں سے خود کو دیکھتا ہوں

میں اپنے آپ کو بھی

دیکھ کیوں نہیں سکتا  ؟

مرا وجود ہے کیوں

میری آنکھ سے مستور

یہ کیسا کُہرا ہے،  کیسی گھٹا ہے،  کیسی دھند  ؟

یہ اک غبار سا کیوں

درمیان میں حائل ہے  ؟

مرا وجود ہے یکتا مگر ہزاروں روپ

ہر ایک لمحۂ گزراں کے ساتھ بنتے ہیں

ہر ایک آنکھ

نئے زاویے سے دیکھتی ہے

حباب

جیسے کسی تند و تیز دھارے پر

اُبھرتے جاتے ہیں ہر لمحہ مٹتے جاتے ہیں  !

مرا وجود

نہیں ہے حباب کی مانند

یہ مستعار نگاہوں کا ہے فریبِ نظر

یہ لاکھوں روپ

مری ذات سے ہیں کوسوں دور  !

صدف کے حجلۂ تاریک میں ہے پوشیدہ

نہ جانے کس دُرِ شہوار کا درخشاں نور  !

چھٹے یہ دھند

ہٹے یہ غبار تو دیکھیں

برس اٹھے یہ گھٹا،  کہرا آب ہو جائے

تمام پردے جو اٹھ جائیں تو یہ راز کھلے

وہ ذات کیا ہے جسے

’’میں ‘‘ کا نام دیتا ہوں

میں تھک گیا ہوں خدایا

میں دوسروں کی نگاہوں سے خود کو دیکھتا ہوں  !

 

’عرفانِ نفس ‘ کے ضمن میں ارشادِ خداوندی ہے کہ  :  من اعرف نفس ، فقد اعرف رب ،

جاوید صاحب نے ’معرفت‘ کے حوالے سے اسی بشری مسئلے پر اپنی تشویش کا اظہار اپنی نظم ’عرفانِ نفس‘  میں نہایت بے بسی کے عالم میں کیا ہے۔   انسان اپنے بارے میں خود کس طرح کسی قسم کی رائے قائم کر سکتا ہے۔۔  اگر وہ ایسا کرنے کی کوشش بھی کرے تو اسے۔۔  ’’خود سری، خود ستائی، خود رائی‘‘۔۔  کا طعنہ سننے کو ملتا ہے۔۔  لہذا لامحالہ اسے خود کو دوسروں کی نگاہ سے دیکھنا پڑتا ہے۔۔  نتیجتاً وہ دوسروں کی نگاہوں میں اور دوسروں کی آراء میں گھِر گیا ہے۔۔  اب اسے پہلے خود کو پہچاننا ہے۔۔  تاکہ وہ خدا کو بھی پہچان سکے  !!

عرفانِ نفس کے معاملے میں چند سخت مراحل آتے ہیں ان میں ایک مرحلے کو اس نظم کا موضوع بنایا گیا ہے۔   دوسروں کی رائے کا ایک حصار ہے جو آدمی کی ذات کے اطراف تشکیل پا جاتا ہے  اور آدمی کا وجودِ یکتا ہزاروں روپ اختیار کرتا دکھائی دیتا ہے۔

 

میرؔ بیتی

 

میں نے چاہا کہ راہیں بدل کر چلوں

میں نے چاہا کہ تیری گلی سے بچوں

میں نے چاہا کہ تیرے در و بام سے

دُور ہی دُور

جینے کا یارا کروں

میں نے چاہا کہ تو مِل بھی جائے اگر

                    راستے میں

تو نظریں بچا کے چلوں

         آہ ہر راہ

       تیری گلی تک گئی

بام  و  در پر ترے راستے رک گئے

تجھ کو دیکھا تو بس دیکھتا رہ گیا

 

یہ  1999 ء  کی بات ہے کہ ٹورانٹو میں  ’میر تقی میرؔ عالمی سیمنار‘  ہوا تھا۔  اُس موقع پر میں نے  ’نذرِ میرؔ‘  کے عنوان سے جو نظم کہی تھی۔۔  اِس وقت آپ کی نذر کرنا چاہتا ہوں۔۔ ؂

 

اے خدائے سخن،  تُو ہے سایہ فگن

میرے نُطق و بیاں کے در  و  بام  پر

جو بھی میں لکھ رہا ہوں،  ترا فیض ہے

میری فکر و نظر پہ ہے تیرا اثر

تُو نے جو بھی کہا،  مستند ہی کہا

تیرا سادہ سخن ہے بلاغت شکن

ریختے میں ترا کوئی ثانی نہیں

صرف غالبؔ کو بخشا ہے تو نے یہ فن

 

وہ جو تھا تیرا عرصۂ دیوانگی

اُس پہ قربان صدیوں کی فرزانگی

وہ جنوں تھا ترا اعتکافِ خرد

جس کی معراج ہے خود سے بیگانگی

 

تیرے  نشتر بہتّر جو دل گیر ہیں

شاعری کی ولایت کی جاگیر ہیں

شاعری کے سبھی دکھ ہیں پیغمبری

دکھ  جو  لکھتے ہیں  وہ  پیر  وِ  میرؔ  ہیں

 

جاوید صاحب کی یہ خوبصورت نظم  ’میرؔ بیتی‘  جو ابھی میں نے آپ کو پڑھوائی۔۔  اصل میں،   محمد حسین آزادؔ صاحب کی اُس بات کو غلط ثابت کرنے کے لئے لکھی گئی ہے جس کے مطابق۔۔  ’’ میرؔ صاحب کی تمام زندگی  گریز  و  فرار  میں گزر گئی۔۔  نہ ہی انہوں نے ملازمت کی۔۔  اور۔۔  نہ ہی کسی سے عشق و محبّت  !!  ‘‘ 

جاوید صاحب کی طرح میں بھی سمجھتا ہوں کہ۔۔  میرؔ نے بھر پور عملی زندگی گزاری ،  فرائضِ منصبی بھی بہ حُسنِ خوبی انجام دیئے۔۔  اور عشق بھی کیا۔۔  میرؔ زندگی بھر فکرِ معاش میں سرگرداں رہے۔   بری بھلی معاش کی صورتیں نکلیں بھی،  لیکن روزگار کے معاملے میں جس کو آسودگی اور یکسوئی کہتے ہیں،  وہ میرؔ کو کبھی بھی نصیب نہ ہوئی۔  جیسے یہ آسودگی ان کی قسمت ہی میں نہیں تھی۔ 

اس سلسلے میں تو انہیں زمانے کے گرم و سرد کو دیکھنا پڑا،  اور ایسے ایسے تلخ تجربات ہوئے جو دلوں کو ہلاتے ہیں،  اور جن کی تفصیل سن کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔   

اُدھر عشق و عاشقی کے حوالے سے ہم دیکھتے ہیں کہ میرؔ کے نزدیک عشق ایک غیر شعوری چیز تھی۔۔  جس کے فیصلے کوئی غیبی طاقت کرتی ہے۔۔  عشق کیا نہیں جاتا۔۔  خود بہ خود ہو جاتا ہے۔   اور یہی بات جاویدؔ صاحب نے بھی  ’میر بیتی‘  میں کہی ہے۔   پھر بھی وثوق کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا کہ اِس نظم کا موضوع میر تقی میرؔ کی ذات ہے یا ان کی وارداتِ قلبی ہے،  لیکن عشق کی ایک ناقابلِ فرار صورت کی پیش کش ضرور ہے۔

میرؔ حسینوں کے شیدائی تھے۔   ان کو دیکھ کر لطف اندوز ہوتے تھے۔   ’’ذکرِ میر ‘‘ میں اپنے محلّے اور گھر کی تباہی و بربادی کا ذکر کرتے ہوئے انہوں ضمناً اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے۔۔      وہ لکھتے ہیں :

’’ ناگاہ  در محلہ رسیدم کہ آنجا می  ماندم۔  صحبت می داشتم۔  شعر می خواندم۔  عاشقانہ می زیستم،  شب ہا می گریستم۔  عشق با خوش قداں می باختم۔  ایشاں را بلند می انداختم۔  با سلسلہ مویاں می بودم۔  پرستش نکویاں می نمودم۔  اگر دمے بے ایشاں می نشستم،  تمناّ بر می شکستم۔  بزم می آراستم ،  خوباں را می خواستم ،  مہمانی می کر دم ،  زندگانی می کر دم۔‘‘

اِس عبارت میں عاشقانہ زیست کرنے،  عشقِ خوش قداں سے  لطف  اندوز ہونے  اور خوباں کی خواہش کرنے کا ذکر واضح طور پر موجود ہے۔   جس سے معلوم ہوتا ہے کہ میرؔ کا مزاج لڑکپن ہی سے عاشقانہ تھا۔  یہ اور بات کہ زمانے نے انہیں اتنی فرصت نہیں دی کہ وہ اس کوچے میں نشاط آرائیاں کرتے۔   بات شاید یہ ہے کہ ان کی جوانی دیوانی نہیں تھی۔  اس لیے انہوں نے اس کوچے میں قدم تو رکھا لیکن نہایت سلیقے اور احتیاط کے ساتھ اس سے عہدہ برآ ہوئے۔   غالباً اسی سلیقے اور احتیاط ہی کا یہ نتیجہ تھا کہ انہیں ان معاملات میں ہمیشہ ناکامیوں کا منہ دیکھنا پڑا۔۔

مرے سلیقے سے میری نبھی محبت میں

تمام عمر میں  ناکامیوں سے کام رہا

میری درجِ بالا نظم جیسا کہ آپ نے دیکھا کہ میرؔ کی جناب میں ایک پُر خلوص ہدیۂ عقیدت تھا۔ جاویدؔ صاحب کی نظم ایک ایسی واردات ہے جو ہر محبّت کرنے والے پر گزرتی آئی ہے سو میرؔ پر بھی گزری۔ کیا پتا خود جاویدؔ صاحب پر بھی گزری ہو۔  میری وضاحت طلبی پر موصوف نے تبسّم فرمایا اور بولے ’’میرؔ کے چند اشعار نے میرے ذہن اور دل کا گھیراؤ کر کے مجھ سے یہ نظم کہلوائی۔  میں غریب اور کیا کرتا۔ اب اس شعر ہی کو لو۔  اس سے میں کہاں تک اور کب تک بچا رہتا    ؂

عمر بھر  کوچۂ دل دار سے  جایا نہ گیا

اس کی دیوار کا سر سے مرے سایا نہ گیا

پہلے میں نے  اپنی کسی غزل میں  مندرجہ ذیل شعر کہہ کر  اپنے ذہن اور دل کا بوجھ  اتارنے کی کوشش کی    ؂

ترے کوچے میں تھا ، یہ بات سچ ہے

میں  زیرِ  سایۂ  دیوار  کب  تھا

پھر جب اس ظالم(میرؔ) نے مجھ پر بھی کیا کیا گزروایا دیا تو نظم ’میرؔ بیتی ‘ وارد ہوئی۔‘‘

 

میں

 

( ۱)

مرے وجود میں

شامل ہے کائنات تمام

سیاہیِ شبِ تاریک ہو کہ نورِ سحر

گہر ہو  ، خاک کا ذرّہ ہو یا کہ قطرۂ آب

گُل و ثمر ہوں کہ ہوں

مہر  و  ماہ  و  سیّارے

چمن ہوں یا کہ بیاباں ہوں

شہر  و  صحرا ہوں

تمام اشیاء ،  جو ہیں بے شمار،  لاتعداد

بساطِ زیست ہے

جن کے وجود سے آباد

مرے وجود سے اک ربطِ خاص رکھتے ہیں۔

 

(۲)

کسی نے کہہ دیا  ’ہو جاؤ ‘  !

ہو گئے ہم سب

وہ لفظ کُن،  جو ہے تخلیقِ کائنات کا راز

 

اُس ایک لفظ سے

ہم سب کا ربط یکساں ہے

 

(۳)

میں کیا ہوں  ؟

کون ہوں  ؟

قطرہ ہوں  یا  کہ دریا ہوں

ازل سے تابہ ابد

گردشِ دوام کے ساتھ

مرے وجود نے کیا کیا نہ بھیس بدلے ہیں

 

میں ایک ققنسِ آتش نفس ہوں

تابہ ابد

خود اپنے آتشیں نغموں کی

               آگ میں

جل کر۔۔

ہر ایک بار ہوا

اپنی راکھ سے پیدا

 

(۴)

یہ کار گاہِ زمان و مکان و بود و نبود

یہاں حیات ہے

پابندِ گردشِ دائم

ہر ایک شے کسی محور پہ

گھومتی ہے سدا

ازل سے تا بہ ابد

زندگی کی را ہوں میں

                ہر ایک شے کو عطا ہوتے ہیں

کئی بہروپ

شہابِ ثاقب و انجم میں

فرق ہی کیا ہے

جو آج پھول ہے کل مشتِ خاک بھی ہو گا

 

عبداللہ جاوید کی نظم  ’’میں ‘‘  انسانی زندگی کے ایک دائرے میں کیے جانے والے سفر کا احاطہ کرتی ہے۔   اِس نظم میں تخلیق کے ناطے سے آدمی کو سارے عالمِ خلق، کُل کائنات سے ہم رشتہ بتایا گیا ہے۔  تخلیق کی اکائی کا تصوّر پیش کرتے ہوئے اس کی صد رنگی میں یک رنگی کا عرفان تلاش کیا ہے۔   آدمی کائنات اور خدا کے باہمی رشتوں کی جانب اشارے کئے گئے ہیں۔   نظم سے قبل پورے صفحے پر صرف ایک شعر دیا گیا ہے۔۔  ؂

نہ ہونے پر بھی ہوں،  میں ابتداء سے انتہا تک ہوں

مرا ہونا ہوئی دیکھے،  میں بندے سے خدا تک ہوں

انسانی زندگی کے حوالے سے ایک نظریہ  یہ بھی ہے  (جس کی بنیاد پر جاوید صاحب نے یہ نظم تخلیق فرمائی ہے )  کہ مرنے کے بعد انسانی جسدِ خاکی واپس اسی زمین کا  پیوند  بن جاتا ہے۔۔  اور  Re-cyclingکے اصول پر کار بند رہتے ہوئے۔۔  کسی بھی مادّی شکل میں ایک بار پھر نمودار ہوتا ہے۔۔  Re-cycling   کے اِس عمل میں انسان بالعموم۔۔  شجر  و  سبزہ  بن کر پیدا ہوتا ہے۔۔  جسے  دوسرا انسان  جب اپنی غذا بنا لیتا ہے تو۔۔ پہلا انسان دوسرے انسان کے لہو میں شامل ہو جاتا ہے۔۔  اور وہی لہو جب نطفے کی شکل میں رحمِ مادر میں منتقل ہوتا ہے تو۔۔  پہلا انسان۔۔  ایک بار پھر جسدِ خاکی حاصل کر لیتا ہے۔۔  اس مقام پر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ۔۔  پہلے انسان کی وہ روح جو اُس کے انتقال پر جسدِ خاکی سے پرواز کر گئی تھی۔۔ 

اس کے ایک بار پھر جسدِ خاکی اختیار کرنے پر۔۔  اپنے نئے تعمیر شدہ مکان میں واپس آ جاتی ہے۔۔  اب چونکہ اِس نئے جسدِ خاکی کا دماغ بھی نیا ہوتا ہے۔۔  لہذا نئے دماغ میں سابقہ دماغ کی کوئی بھی یاد داشت(  Memory  )نہیں پائی جاتی۔۔  اور یہی وجہ ہے کہ نیا دماغ اپنی روح کے سابقہ مسکن کے بارے میں اپنی  یاد داشت خالی پاتا ہے۔   

جاوید صاحب کی یہ نظم اوپر بیان کیے گئے اسی نظریے کو نہایت خوبصورت شعری پیرائے میں پیش کرتی ہے۔  میں اس نظم کو ان کی کامیاب ترین نظموں میں شمار کرتا ہوں۔   

آئیے اب عبداللہ جاوید کی ایک اور مختصر مگر بلیغ و جامع نظم  ’’اُڑا جو میں ‘‘  دیکھتے ہیں،  اس نظم کا انتخاب ہم نے ان کے دوسرے شعری مجموعہ  ’’حصارِ امکاں ‘‘  سے کیا ہے۔

 

اُڑا  جو  میں

 

میں جس زمیں پہ کھڑا

آسماں کو تکتا تھا

اُسی زمیں پہ مرا

شہرِ خواب بستا تھا

       نجوم  و  ماہ  و  مہر

دسترس سے دُور نہ تھے

       اُڑا  جو  میں  تو  کھُلا

       آسمان  رَستا  تھا  !!

 

 عبداللہ جاوید صاحب کی شاعرانہ عظمت یہی ہے کہ وہ بڑے سے بڑے موضوع کو نہایت سادگی کے ساتھ نظم کر دیتے ہیں۔   جس کی ایک مثال ان کی نظم ’’اُڑا جو میں ‘‘ ہے۔   ہم دیکھتے ہیں کہ انسان اپنی زمین چھوڑ کر خیالی دنیاؤں کی طرف چلا جاتا ہے۔۔  جبکہ اِس زمین پر سب کچھ ہے۔   انسان کا مقسوم زمین کی حدود میں ہے۔   لیکن قدرت نے ساری کائنات تسخیر کر کے انسان کی جھولی میں ڈال دی ہے۔   یہی وجہ ہے کہ اس کا ایک قدم زمین پر تو دوسرا آسمان پر نظر آتا ہے۔۔  سیاّرے اس کے خلائی اسٹیشن۔۔  اور آسمان اس کی گزر گاہ بن گیا ہے۔

اپنی اِس نظم میں جاوید صاحب نے انسان کی دسترس کی وسعت کی نشان دہی استعاراتی انداز میں کی ہے۔۔  سبحان الذی سخّرلنا ھذا۔

عبداللہ جاوید کی اگلی نظم جو ہم پڑھنے جا رہے ہیں وہ  ’’امکاں ‘‘ ہے۔۔ آیئے دیکھتے ہیں؂

 

۴ اںںول

نا تھا

کیل: اعجاز عبیدز عبیدامکاں

 

سُنڈی سے

تتلی کے قالب میں آنا

پھر سُنڈی بن جانا

مر جانا

یا

تتلی بن کر اُڑ جانا۔

 

’’امکاں ‘‘  میں جاوید صاحب نے ماہیتِ قلبی  (Metamorphosis)  کو موضوع بنایا ہے۔   کس طرح کیڑا۔۔  تتلی میں۔۔  اور تتلی،  کیڑے میں تبدیل ہوتی رہتی ہے۔   تا آنکہ موت درمیان میں حائل نہ ہو جائے۔   اس مثال کی روشنی میں شاعر نے اپنے موضوع (امکاں ) کی جانب حسی اور ذہنی پیش رفت کی ہے۔

’امکان ‘  انسانی زندگی میں ہر لمحہ کار فرما ہے۔   اگر ہماری زندگی سے ’امکان ‘ کی صورت گری کو نکال دیا جائے تو۔۔  ہم میں سے کسی کے لیے بھی اگلا سانس لینا غیر امکانی ہو جائے گا۔  ہم سب اپنی زندگی کی پہلی سانس سے لے کر آخری سانس تک امکان کے دائرے میں رہتے ہیں۔   

تتلی کی طرح ہماری زندگی میں بھی خوبصورت سے خوبصورت روپ اختیار کرنے کا امکان ہمیشہ رہتا ہے۔   اب یہ ہماری اپنی صواب دید پر ہے کہ اپنی صورت اور سیرت کو کس امکانی ڈگر پر ڈالیں۔ ۔  چاہیں تو محض سُنڈی کے روپ میں رہیں۔۔  یا تتلی بن کر اُڑتے پھریں۔

 

  انتہا

 

(۱)

چاند پر ثبت کر کے نشانِ قدم

پار کر کے حصارِ زمیں

               آدمی

ہے خلاؤں کی پہنائیوں میں رواں

اُس کی پرواز کی منزلوں میں

سبھی

جانے مانے ثوابت و سیّار ہیں

اور وہ بھی

جو اس کے خیالوں میں ہیں

اجنبی،  اجنبی

کہکشانوں میں ہیں

 

 اس کو معلوم ہے

وسعتِ بیکراں ہے

خلاء

جو عیاں ہے

جو نہاں ہے

وہ جانے کہاں سے کہاں

اور کن وسعتوں میں ہے

                      پھیلا ہوا 

 

اس کی پرواز کوتاہ ہے

اور سفر

حدِّ ادراک سے ماورا

       ماورا

ماورا کیا ہے اور ماورا کیا نہیں

عقل اور سائنس کی انتہا

                       کیا نہیں

 

(۲)

یہاں جب سوچ نے وقفہ کیا تو

نظر کے سامنے آیات ابھریں

’’اے نوعِ انساں،  نوعِ جنّات

کناروں سے اگر ارض و سما کی

نکل جانے کی قدرت ہو تو نکلو۔‘‘

 

سوائے  ’زور‘  کے ممکن نہیں یہ

( جو ایسا ہو )

تو چھوڑے جائیں گے

شعلے،  دھواں،  آگ

مقابل میں نہ تم کچھ کر  سکو گے

فلک یوں پھٹ پڑے گا

جیسے تلچھٹ تیل کی

گل گوں

گنہ گاروں سے پُرسش کی

ضرورت تک نہیں ہو گی

عیاں چہروں سے پکڑے جائیں گے

اُن کو گھسیٹا جائے گا پیروں سے

پیشانی کے بالوں سے

 

جہنّم ایک جانب

ایک جانب کھولتا پانی

وہ۔۔  ان کے درمیانی دائرے میں

دوڑتے ہوں گے۔۔  !

 

انسان کا تسخیرِ کائنات کا سفر،  قرآنی علم کے مطابق،  تائیدِ ایزدی ہی نہیں بلکہ منشائے ایزدی کے تحت انجام پا رہا ہے۔   پہلے اللہ تعالیٰ عناصر کو آدمی کے لیے تسخیر فرماتے ہیں اور بعد میں انسان۔ تسخیرِ کائنات کا یہ سفر اسی طرح جاری رہا ہے اور حدِ ادراک سے ماوراء ہے۔   عبداللہ جاوید صاحب نے اپنی نظم ’انتہا‘ کے ابتدائیے میں تسخیرِ کائنات کے حوالے سے یہی بات واضح کی ہے۔۔  جبکہ نظم کے دوسرے حصّے میں جو کچھ کہا گیا ہے وہ قرآن کریم سے استفادہ ہے۔   دونوں حصّوں کے درمیان شاعر نے قارئین کو پہلے حصّے کی منطقی انجام کی طرف جانے کے لیے آزاد چھوڑ دیا ہے۔   معاملہ عجزِ بیان کا نہیں ہے،  بلکہ غیر ضروری بیان سے اعراض اور احتراز کا ہے۔۔  ورنہ اظہار تفصیل طلب ہوتا اور تفصیل بھی اتنی کہ کوئی زورِ بیان اور لفظوں کا مردِ میدان شاعر ممکن ہے پوری ایک کتاب رقم کر کے دوسرے حصّے کے مرحلے تک پہنچتا۔  جاویدؔ صاحب نے یہ ساری تفصیل آخری تین مصرعوں میں بیان کر دی اور وہ کلّی صورتِ استفہام میں۔۔  کیونکہ مقصودِ نظر یہ تھا کہ قاری کا ذہن اپنے طور پر نظم کے دوسرے حصّے تک دونوں حصّوں کے درمیانی خلاء کو پُر کرتا چلے۔۔  ماوراء کیا ہے  اور  ماوراء کیا نہیں  ؟  عقل اور سائنس کی انتہا کیا نہیں  ؟ یہاں کسی کسی کے لیے یہ گنجائش نکل سکتی ہے کہ نظم میں ’ابہام‘ کی موجودگی ثابت کرے۔   جہاں  تک ہمارا تعلق ہے ہم اجمالاً یہی کہیں گے کہ آدمی تسخیرِ کائنات کے ضمن میں جب منشائے ایزدی اور تائیدِ ایزدی کو نظر انداز کر دے تو اس کی  ’انا‘  میں  ’ابلیسیت‘ کے عنصر کا نفوذ لازمی ہو جاتا ہے۔   دوسری جانب ایک اور مخلوق جس کو  ’جن‘  کا نام دیا گیا ہے  (ابلیس بھی اسی مخلوق کا فرد ہے ) قیاساً آدمی کی مانند ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے،  آدمی کے شانہ بہ شانہ  عروج کی حتمی انتہا کے مرحلے پر کھڑی ہو جاتی ہے۔   ’ابلیسیت‘  دونوں مخلوقات پر اثر انداز ہے۔   کیونکہ بحوالۂ قرآن کریم،  یہ ثابت ہے کہ ابلیسؔ نے تخلیقِ آدم کے مرحلے ہی پر اللہ تبارک تعالیٰ سے روزِ قیامت تک کے لیے یہ مہلت اور آزادی مانگ لی کہ وہ انسانوں اور جنوں کو راہ راست سے گمراہ کر کے اپنا پیرو بناتا رہے گا۔  چنانچہ اسی  ’ابلیسیت‘  کے زیرِ اثر انسان اور جن دونوں انواع اللہ تعالیٰ سے بغاوت کریں گے اور نعوذ باللہ اعلانِ جنگ کے مرحلے تک پہنچیں گے۔   نظم کے دوسرے حصّے میں اللہ رب العزّت دونوں انواع کی شکست اور انجام کی جانب اشارہ فرما رہے ہیں۔   اِس حصّے میں ان گستاخ باغیوں ( از انس و جن) پر شعلے،  دھواں اور آگ کے نزول کی جانب اور آسمان کے پھٹ پڑنے کی جانب،  گنہگاروں کے پکڑے جانے،   پیروں  اور  بالوں سے گھسیٹے جانے کی جانب واضح لیکن استعاراتی اشارے ہیں۔   جبکہ نظم کے آخری چار مصرعوں میں جاویدؔ صاحب نے اس انسانی اور جنّاتی المیئے کا انجام مصوّر کر دیا ہے۔۔ ؂

جہنّم ایک جانب

ایک جانب کھولتا پانی

وہ۔۔  ان کے درمیانی دائرے میں

دوڑتے ہوں گے  !!

عبداللہ جاوید کے اہم شعری مجموعہ ’حصارِ امکاں‘ سے ہم نے اب جس نظم کا انتخاب کیا ہے وہ ہے ’جنونِ مارچُ‘  یعنی  March Madness 

 

جنونِ مارچ

 

(۱)

دنوں مہینوں بعد

پرندے بولے تھے

آوازوں سے ’ سیگل ‘ جیسے

لگتے تھے

ایک نہیں وہ جوڑے جوڑے لگتے تھے

آج جنونِ مارچ کا روزِ اوّل تھا

دل کا ویسا حال نہ تھا

جیسا کل تھا

دنوں مہینوں بعد وہ پھر سے

                     بے کل تھا

نیچے برف ہے

                اوپر بادل

سورج غائب

سورج غائب لیکن پھر بھی سردی کم ہے

موسم کی بے دردی کم ہے

دنوں،  مہینوں بعد

 

(۲)

بچھی ہوئی ہے چہار جانب

دبیز قالین برف رُت کی

زمیں کے اوپر سے آسماں تک

فضاء میں ہلکی سی گونج

                بھی ہے

بہار رُت کے حسین قدموں کی

چاپ شاید سنائی دی ہے

دبیز قالین برف رُت کی

سمجھ گئی ہے کہ اس کے نیچے

بہار کا سبز مخمل

                نکھر رہا ہے

پرندے بھی  بولنے لگے ہیں

کسی کسی دل میں

وحشتوں کے غزال بھی

ڈولنے لگے ہیں

 

کینیڈا میں عرصۂ دراز گزارنے اور یہاں کے تمام موسموں سے لطف اندوز ہوتے رہنے کے سبب، اِس وقت جاویدؔ صاحب کی نظم  ’جنونِ مارچ‘  پڑھتے ہوئے ہمیں بہت مزا آیا۔۔  اور آج ابھی  25 دسمبر  2007  کی برفانی شام ہی ’آمدِ مارچ‘ کا مژدہ سنا گئی۔۔

 

بہار رُت کے حسین قدموں کی

چاپ شاید سنائی دی ہے

دبیز قالین برف رُت کی

سمجھ گئی ہے کہ اس کے نیچے

بہار کا سبز رنگ مخمل

نکھر رہا ہے

پرندے بھی بولنے لگے ہیں

کسی کسی دل میں

وحشتوں کے غزال بھی

ڈولنے لگے ہیں۔۔

 

 نظم کی اختتامی لائینوں تک پہنچتے پہنچتے۔۔  ہماری زبان پر بے ساختہ یہ شعر آ گیا۔۔ ؂

  موسم  بدلا  رُت  کجرائی،  اہلِ جنوں  بے یاک  ہوئے 

فصلِ بہاراں کے آتے آتے، کتنے گریباں چاک ہوئے

برفانی خطوّں میں موسمِ بہار کی آمد کی منظر کشی۔۔  میں سمجھتا ہوں کسی دوسرے شاعر نے اتنے اچھوتے انداز میں نہ کی ہو گی۔۔  جس طرح جاوید صاحب نے کی ہے۔۔

دبیز قالین برف رُت کی

سمجھ گئی ہے کہ اس کے نیچے

بہار کا سبز رنگ مخمل

نکھر رہا ہے

سبحان اللہ۔۔  عبد اللہ جاوید کا یہی اچھوتا تخلیقی انداز ہے جو انہیں ان کے ہم عصر تخلیق کاروں میں ایک منفرد مقام پر فائز کرتا ہے۔   جاوید صاحب کی شاعری میں کینیڈا اور شمالی امریکہ کے برفانی موسم کی مصورّی جا بہ جا نظر آتی ہے۔۔  مثلاً ان کی ایک غزل جس کی ردیف ہی ’’برف‘‘ ہے۔   اس مقطع پر ختم ہوتی ہے۔۔  ؂

آپ نے بھی سمیٹ لیں جاویدؔ

کینیڈا کی  ملامتیں  اور  برف

اس نوع کی نظموں میں  ’جنونِ مارچ‘  ’ہوا کے شہر شکاگو کی نذر‘  ’برف کے سمندر پر ‘  ’مارچ کی دستک ‘  ’دھوپ‘ ’برف، پانی اور آپ‘  بہت ہی خوب ہیں۔

تہمت ہے مختاری کی

دریا میں  رہنا بھی ہے

          بہنا بھی ہے

پَل پَل کچھ کرنا بھی ہے

          بھر نا بھی ہے

فصلِ غم  بونا  بھی  ہے

       ڈھونا بھی ہے

مرنے سے ڈرنا بھی ہے

           مرنا بھی ہے

 

ڈاکٹر الیاس عشقی مرحوم نے عبداللہ جاوید کی اس نظم کو اپنے تبصرے میں خصوصی طور پر موضوع بنایا ہے۔   ان کے خیال کے مطابق ،  ’’تہمت ہے مختاری کی ‘‘  چار سالم اور چار نصف مصرعوں میں مسئلہ جبر و قدر پر اجمالی احاطہ کرتی ہے۔   

میری نظر میں اِس کے پہلے دو مصرعوں میں آدمی کی زندگی کو ایک بھرپور اور متحرک تصویر (امیج) کی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔   آدمی وقت کے دریا میں زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔   وہ زندگی گزارتا بھی ہے اور زندگی اسے گزارتی بھی ہے۔   زندگی گزارنے کا یہ ڈھب کیسا ہے کہ قیام کا تصوّر بھی ممکن نہیں،  جس طرح دریا میں  رہنے کا مطلب ہی دریا میں بہنا ہے۔   چونکہ  زندگی وقت کا دریا ہے،  جو پل پل گزر رہا ہے۔   آدمی کو اس کی حدود کے اندر کچھ اعمال انجام دینے ہیں اور ہر عمل کے ردِّ عمل اور منطقی انجام سے  دوچار بھی ہونا ہے۔   اس مرحلے میں  اگر آدمی کے لیے انتخاب اور اختیار کی گنجائش ہے بھی تو بے حد محدود بھی ہے اور مشروط بھی۔  آگے کا مرحلہ حزن،  یاس  اور غم کا ہے،  جو ہستی کے ساتھ جڑا ہے۔   ہر آدمی اپنا حزن،  اپنی یاس اور اپنا غم اور دکھ خود ہی بوتا، کاٹتا اور ڈھوتا ہے اور آخری مرحلہ خوف کا ہے۔   خوف کی سب سے واضح اور شدید صورت  ’موت کے خوف ‘  کی ہے۔   ( شاید اسی سبب سے اللہ کے دوست اور اولیاء کو حزن اور خوف سے مبّرا قرار دیا گیا ہے  !۔

 

خدا،  آدمی،  لفظ اور  وقت

 

اس نے ہمارے لفظ لیے

اور اپنی بات کہی

ہم نے اس کی بات کو اپنا

دین کہا،  ایمان کہا

وقت ہنسا اور گزر گیا

 

 دوسرے لمحے

بات۔ ۔  وہ اگلی بات

                 نہ تھی 

لفظ تھے لیکن

معنوں کی وہ

اگلی سی تہہ۔۔

ساتھ نہ تھی

 

ہر لحظہ مفہوم نیا تھا

صدقِ نا معلوم نیا تھا

 

ہماری زندگی کی ابتداء جس چیز سے ہوئی،  وہ  ’لفظ‘  تھا۔۔  اللہ تعالیٰ نے فرمایا  ’’کن‘‘  اور ہماری یہ دنیا  ’’ فیکون ‘‘  ہو گئی۔  جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہر زندہ چیز جبلّیاتی طور پر متغیّر ہے۔   اسی طرح  وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہماری زبان کے لفظ بھی اپنے معنی اور مفہوم بدلتے رہتے ہیں۔   لہذا ہماری زبان کے وہ الفاظ جن میں اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم ایک مکمل ضابطۂ حیات کی شکل میں اُتارا تھا۔۔  تغیّر کی زد میں ہیں۔۔  لیکن اِس تغیّر کو ہم ’’تحریف‘‘ ہر گز نہیں کہہ سکتے۔   البتّہ ’’اِجتہاد ‘‘  ضرور کہا جاتا ہے۔   عبداللہ جاوید صاحب نے اپنی اِس نظم ’خدا، آدمی، لفظ اور وقت‘  میں اسی اہم مسئلے کی جانب اشارہ کیا ہے۔   

 

اندر لڑائی ہو

 

اندر لڑائی ہو

تو سمجھنا

۔۔  ضمیر ہے

ورنہ تو جانور سے بھی

            انسان

حقیر ہے  !

 

اقدار کا تعلق آدمی کے اندر کی سائیکی سے ہے۔   آدمی کا برون تو باہر کے سماجی اثرات کا تابع ہوتا ہے۔   ماحول کے مطابق ڈھلنا اور ماحول کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال ( Adapt) لینا عالمِ حیوانات تو کیا عالمِ نباتات میں بھی جبلّت کے طور پر موجود ہے۔   ضمیر کو انسانی اقدار کا مرکزی نقطۂ قیاس کیا جاتا ہے۔   عصرِ موجود میں  Ethics  ایتھکس پر اتنا اصرار دیکھنے میں آ رہا ہے، وہ انسان کی اجتماعی فکر میں کسی خوش آئند موڑ کی نشاندہی کر رہا ہے۔   دیکھئے آگے کیا ہوتا ہے۔   ورنہ یوٹی لیٹیرین سماج نے آدمی کو جس اندھیرے غار میں لا گرایا ہے،  وہ ہم سب کے پیشِ نظر ہی ہے۔   جاوید صاحب کی یہ مختصر نظم ’اندر لڑائی ہو‘  اسی بڑے اور اہم المیے کی نشاندہی کر رہی ہے۔

روپیہ

 

’’ روپیہ جب آئے گا

اس کے عقب میں آئے گی

جمہوریت

مغربی نظمِ معیشت

اور انسانی حقوق۔۔

یہ کہنا ہے مجھے  ‘‘۔۔

کینیڈا کے وزیر اعظم نے

چین میں اس طرح کی باتیں کیں

 

اپنے پیارے وطن میں بھی آیا

روپیہ

            سرحدوں کے باہر سے

        جس کے پیچھے لگے ہوئے آئے

         چیل ، کوّے، عقاب اور گدھ

          ساتھ ہی سرحدوں کے اندر بھی

          روپیے کی عفونتیں اُبھریں

          اور چشمِ زدن میں پھیل گئیں۔۔  !!

 

ایک مرتبہ کینیڈا کے وزیرِ اعظم نے اپنے دورۂ چین کے موقع پر وہاں کی پارلیمنٹ سے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ۔۔  یہ جو ہم آپ کو امدادی رقم دے رہے ہیں۔۔  تو ہم توقع رکھتے ہیں کہ آپ کے ملک میں جمہوریت آئے۔۔  مغربی کلچر پھلے پھولے۔۔  اور ہیومین رائٹس کی پاسداری ہو۔  جاوید صاحب کی اِس نظم  ’’روپیہ ‘‘  میں کینیڈین وزیرِ اعظم کے اسی مشروط بیان کو بنیاد بنا کر اپنی نظم کے دوسرے حصّے میں،   مغربی ممالک سے پاکستان کو ملنے والی امداد کے ساتھ،  خارجی اور داخلی استحصالی قوّتوں کی یلغار کی تصویر کشی کی ہے۔۔  جس کے سبب ملک میں کرپشن اور رشوت کا بازار گرم ہو گیا۔

 

مشینوں کے جنگل میں کھویا ہوا آدمی

مشینوں کے جنگل میں کھوئے ہوئے

آدمی کے لیے

راستے ہیں بہت۔۔

ذہن کے راستے

ذہن سے ذہن کی سمت جاتے ہوئے

 

دل کی جانب

           کوئی راہ جاتی نہیں

اور مشکل یہ ہے

آدمی کے لیے۔۔  زندگی کے لیے

ذہن کے ساتھ دل کی ضرورت بھی ہے

دل

مشیں کے علاوہ بھی اک چیز ہے

اور مشینوں کے جنگل میں

اس چیز کا

           شائبہ تک نہیں

           راستہ تک نہیں

 

ماورائے مشیں دل کی جانب

سفر کے لیے

 

            کوئی رستہ نہیں

             مشینوں کے جنگل سے باہر

            نکل بھاگنے کی ضرورت بھی ہو

            اور چاہت بھی ہو

             کوئی صورت نہیں۔۔  !

 

عصرِ حاضر کو ہم مادیّت کے عروج اور یوٹی لیٹیرین سماج کے شکنجوں کے دیر پا در و بست کے ساتھ انتہائے میکنائزیشن سے شناخت کر سکتے ہیں۔   آدمی مشینوں کا آقا نہیں رہا بلکہ مشینوں نے آدمی پر اپنی آقائی مسلّط کر دی۔  جاوید صاحب نے اپنی نظم ’مشینوں کے جنگل میں کھویا ہوا آدمی ‘  کی بنت انہی تلخ حقائق کی بنیاد پر کی ہے۔   وہ کہتے ہیں کہ مشینی سماج میں آدمی کے دماغ اور ذہن کی تو جگہ نکل سکتی ہے،  لیکن دل کے لیے کوئی جگہ نہیں۔   

جنازہ

گورکنوں نے رکھ دیے ہیں

بیلچے اور کدالیں

منتظر ہیں۔۔  کب جنازے کا

جلوس آئے کہ دفنائیں اُسے

 

ماتمی دستوں کے ساتھ

نوحے پڑھتے سوز خواں

                    بچّے

 دھُنیں غم کی

                 بجاتے سازندے

جنازے کے خصوصی مارچ کے انداز میں

چلتے ہوئے خاموش لوگ

اگلے وقتوں کی بڑی سی

توپ گاڑی کے عقب میں

ارضِ آدم کے سبھی ملکوں کے جھنڈوں سے

                                  سجا

توپ گاڑی پر جنازہ

مجلسِ اقوام کا  !

 

اقوامِ متحدّہ  (UNO) کے خلاف بہت کچھ لکھا گیا ہے۔   لیکن جاوید صاحب کی نظم ’’جنازہ‘‘ میں جو طنزیہ تصویر ملتی ہے وہ بھر پور اور طاقت ور ہے۔   مجلسِ اقوام کے جنازے کا جلوس رواں ہے۔   ماتمی دستے،  نوحہ خواں بچّے،  جنازے کی موسیقی۔۔  خاص ماتمی انداز میں قدم اٹھاتے ہوئے جلوس کے مہر بہ لب شرکاء اور بڑی سی توپ گاڑی پر دنیا کے سبھی ملکوں کے پرچموں میں لپٹا  جنازہ اور ادھر گور کن قبر کھودنے کے کام سے فراغت پا کر منتظر ہیں۔۔  تدفین کے لیے۔

 

ہمیں آہستہ چلنا تھا

 

ہمیں آہستہ چلنا تھا

بہت

آہستہ چلنا تھا

گلی میں یار کی

ہم کو

بہت آہستہ چلنا تھا

گلی کی ابتدا سے

اُن کے در تک

جاتے جاتے عمر مُک جاتی

ہماری سانس رُک جاتی

وہ

دروازے پہ آتے

اور ہم

آنکھیں بچھا کر

ان کے قدموں میں

بہت آہستہ

مر جاتے  !!

 

سبحان اللہ  !  حالتِ عشق میں کسی عاشق کے فنا فی العشق ہو جانے کی آرزو اور اُس کے بے نیاز عشقِ حقیقی کی سادہ سی حسرت کو نظم کے پیرائے میں شاید ہی کسی شاعر نے اتنی سادہ مگر پُر اثر زبان میں پیش کیا ہو۔۔  جس طرح جاویدؔ صاحب نے کیا ہے۔   ’ہمیں آہستہ چلنا تھا ‘  میں انہوں نے بتایا ہے کہ آج کا دور تیزی اور برق رفتاری کا دور ہے۔۔  لیکن کوچۂ یار تو کوچۂ یار ہے۔۔  جہاں آہستہ چلنے کی شرط ہے۔۔  اتنا آہستہ کہ کوچۂ یار کی ابتداء سے دروازے تک پہنچنے میں عمر پوری ہو جائے۔

الاماں۔۔ !  المدد۔۔ !

تہہ بہ تہہ تھی زمیں

زیرِ ترتیب سی

اک خلاء

غیر محسوس

دھیرج سے

نرمی سے

آہستگی سے

کتنی صدیوں سے

                            پُر ہو رہا تھا

 

ایک دم

یہ عمل تیز سے

                تیز تر ہو گیا

ایک جھٹکے سے

دہلی زمیں

تہہ بہ تہہ کانپ کر

گھڑگھڑاتی ہوئی

۔۔  پھٹ پڑی

 

الاماں۔۔ !  المدد۔۔ !

اے اماں دینے والے

رحیم و کریم

اے مدد گار

پروردگارِ عظیم

شہر

چھوٹے بڑے،

بستیاں،

گاؤں، دیہات ،

باغات ،

جنگلات ،

اونچی نیچی عمارات ،

کچّے پکّے مکاں،

پیچ در پیچ

گلیاں،

کوچے،

بازار ،

چھوٹے بڑے راستے

شاہراہیں،

پُل ،

پگڈنڈیاں،

کھیت ،

ٹیوب ول ،

آدمی ،

جانور ،

پل کے پل

زلزلے کی

         نذر ہو گئے

ہر طرف

بس کھنڈر ہی کھنڈر ہو گئے

الاماں۔۔!  المدد۔۔ !

 

مرنے والوں کی چیخیں

بھی حلقوم میں

رہ گئیں

ہر صدا رک گئی

ہر ندا رک گئی

سانس اکھڑی

کہ موجِ ہوا رک گئی

سانس لینے کے لائق فضاء

رک گئی

زندگانی کی آوازِ  پا

رک گئی

الاماں۔  !  المدد۔  !

 

ہر طرف ڈھیر

ملبے کے پھیلے ہوئے

اور ملبے کے نیچے

دبے

آدمی ،

جانور ،

سانس لیتے ہوئے

چیختے اور

آواز دیتے ہوئے

 

شدّتِ  درد  سے،

سوزشِ زخم سے،

خوں کے بہنے کے

           رِسنے کے

احساس سے،

کرب سے کچلے جانے کے،

موچ اور چوٹ سے

استخواں

اور اعضاء کی ،

بے نیاز

زندہ رہنے کی

’سروایو‘  کرنے کی

فطری

لگن کے تحت۔۔

 

بچ نکلنے کی زندہ

مگن کے تحت

دست و پا مارتے

جان دار

وہ جو زندہ رہے

وہ جو اپنی سعی میں

               ہوئے کامیاب

انجامِ کار

 

وہ

جو باہر کی امداد سے،

اپنی آہ و بکا  اور  فریاد سے،

ڈھیر ملبے سے

باہر نکالے گئے۔

 

بچّے،  بڑے

مرد  و  زن

جانور

سب کی ہی خیر ہو

اُس کی بھی خیر ہو

اِس کی بھی خیر ہو

سر سے پاؤں تلک

زخم ہیں جو بدن

وہ جو زخمی بھی ہیں

اور معذور بھی

خیر ان کی بھی ہو۔

الاماں۔  !   المدد۔   !

 

وہ جو مارے گئے

مرد  و  زن

جانور

بوڑھے،  بچّے

جواں،  نو جواں

اپنے پیاروں کو

گریہ کناں چھوڑ کر ،

اپنے پیچھے

غمِ بے کراں چھوڑ کر

یہ زمیں چھوڑ کر

آسماں چھوڑ کر

سب سے رخصت ہوئے جو

جہاں چھوڑ کر۔۔

رشتے ،  ناتے

فسوں  اور فساں ہو گئے

ربط  اور  رابطے

رائگاں  ہو گئے

 

مامتا  بال  کھولے 

بلکتی  رہی

باپ کی بے بسی

خشک  پلکوں کے پیچھے

           سسکتی رہی

 

بچّے

جو

جستجو میں ہیں

ویران آنکھوں کے ساتھ

پوچھتے  پھرتے ہیں

اپنے  ماں  باپ  کو

اپنے شانوں پہ

بارِ  یتیمی

یسیری  لیے۔

یوں اچانک

 جدائی کی رُت آ گئی

پل  کے  پل

پیار والے جدا ہو گئے

برگ  و  گل  اک  طرف

ڈالیاں  اک  طرف

درمیاں

تُند  اور  تیز

موجِ  ہوا

 

سرخ آندھی

بگولے اٹھاتی ہوئی

مادرِ  ارض

چھاتیاں

اور  سر  پیٹی  !!

 

پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں سر اٹھانے والے زلزلے کی تباہ کاریوں کے تصوّر سے ہی جھر جھری سی آ جاتی ہے۔   اُس علاقے کے لوگوں اور جانوروں کے زندہ در گور ہو جانے اور املاک کی تباہی و بربادی کے مناظر اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی دل و دماغ پر تازہ ہیں۔   اُس سانحے میں معذور ہو کر زندہ بچ جانے والے۔۔  بے بسی کے عالم میں آسمان کو گھورتے رہتے ہیں۔۔  مرنے والوں کے پس ماندگان اور لواحقین اپنے پیاروں کو یاد کر کر کے آنسو بہاتے رہتے ہیں۔   اس سانحے کے نتیجے میں اپنے حواس کھو دینے والی بعض مائیں، باپ اور بیویاں۔۔  آج بھی اپنے پیاروں کے کام اور ا سکول سے واپسی کی منتظر ہیں۔   بیوائیں اپنے سہاگ اور یتیم اپنے سر کے سائے سے محروم ہو کر ہمیشہ کے لیے بے سہارا ہو گئے ہیں۔   تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ہر طرح کی بھرپور امدادی کاروائیاں اور نو تعمیر سائبانوں کا تحفّظ بھی ان متاثرین کو ان کے جگر گوشے، سہاگ اور سر کا سایہ واپس نہیں دلا سکتا۔۔  اور نہ ہی  معذوروں کے  بدن سے  الگ  ہو جانے والے اعضاء کو واپس بدن سے جوڑ سکتا ہے۔   پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں  18  اکتوبر کو آنے والے زلزلے کے حوالے سے اکثر و بیشتر شعراء کرام نے اپنے جذبات کو نظم کیا ہے۔۔ لیکن اس سانحے کو جتنے بھرپور،  سادہ اور پُر اثر انداز میں عبداللہ جاوید صاحب نے  ’الاماں، المدد‘ میں نظم کیا ہے۔۔  میری نظر میں اس کی کوئی اور مثال نہیں۔

گراؤنڈ زیرو

 

گراؤنڈ زیرو،  پہ اِس برس بھی

شمع جلا کر

اداس دل

ملول چہرہ

خموش گِریہ بھری نگاہیں

لیے کھڑا  رہ گیا ہوں

                تنہا

میں  دو  منٹ تک

 

گراؤنڈ زیرو،  پہ

مرنے والوں سے معذرت کی

تمام نوعِ بشر کی جانب سے

تعزیت کی

’’اے میرے پیارو

اے میرے معصوم مرنے والو

گراؤنڈ زیرو کرانے والے

کہا یہ جاتا ہے

خود۔۔  بشر تھے

یہی سبب ہے کہ ساری نوعِ بشر

کی آنکھیں

جھکی ہوئی ہیں ندامتوں سے

ضمیر چپ ہیں

ملامتوں سے

 

گراؤنڈ زیرو کرانے والے

اے کاش

ہم سے بشر نہ ہوتے

یا

ہم کوئی اور جنس ہوتے

بشر نہ ہوتے  !! ‘‘

 

نائن الیون کا جو بھی واقعہ، حادثہ، سانحہ یا ڈرامہ ہوا۔۔  وہ ہماری ’’مہذب‘‘ دنیا کی تاریخ کا ایک سیاہ دن تھا۔  دنیا بھر میں اس سانحے کی شدید مذمّت کی گئی۔   سیکڑوں معصوم جانوں کا آنِ واحد میں ٹوئن ٹاورز کے ملبے کا حصہّ بن جانے پر سب ہی نے غم و غصّے کا اظہار کیا۔  ہمارے جاوید صاحب نے بھی ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی دونوں عمارتوں کے  ’گراؤنڈ زیرو ‘   بن جانے پر نظم کی شکل میں اپنا احتجاج درج کروایا۔۔  کہ نائن الیون عصرِ حاضر ہی نہیں،  تاریخِ عالم کے سیاہ ترین بابوں میں درج ہو چکا ہے۔   اس پر انسانیت کو ندامت سے سر جھکانا پڑتا ہے۔   اسی نظم کا آخری بند ایک بار پھر دہرایئے۔۔   ؂

گراؤنڈ زیرو کرانے والے

اے کاش

ہم سے بشر نہ ہوتے

یا

ہم کوئی اور جنس ہوتے

بشر نہ ہوتے  !!

خونی ریکھا

گراؤنڈ زیرو سے

کس نے

کھینچی ہے خونی ریکھا

جو،  آگے چلتی ہی جا رہی ہے

 

جو،  اپنے خونی سفر پہ آگے

رواں،  دواں ہے

زمین اپنی طنابیں کھینچے

ہوئے کھڑی ہے

فلک کا خیمہ

جگہ جگہ سے جلا ہوا ہے

 

گراؤنڈ زیرو سے خونی ریکھا

جہاں گئی

بے اماں گئی ہے

وہاں وہاں آہنی پرندے

گدھیں،  عقاب،  چیل

اور کوّے

 

بلند و بالا فضاء سے نیچے

بسی ہوئی

جیتی جاگتی زمیں پر

بموں کے گولے

گرا چکے

یا گرا رہے ہیں

 

جہاں،  جہاں بم برس رہے ہیں

وہاں،  وہاں

آگ

خون

اور تباہی

کے بھوت،  شیطان

دیو،  عفریت

بہم  دگر

لپٹ  لپٹ  کر

’فضیلتِ آدمی‘  کے

بے کار

بچکانہ

دعوے پہ ہنس رحی ہیں

 

جہاں جہاں بم برس رہے ہیں

یا،  نیچے

فوجیں

قدم بڑھا ،  یا،  جما رہی ہیں

وہاں،  وہاں

مرنے والے لوگوں میں

صرف فوجی ہی نہیں ہیں

فوجیوں سے

کہیں زیادہ

                 بہت زیادہ

ہیں غیر فوجی

گراؤنڈ زیرو کے باسیوں

کی طرح کے معصوم

اور مظلوم

مرد،  زن،  اطفال

بوڑھے،  بیمار  اور لاچار

گراؤنڈ  زیرو

کی خونی ریکھا کی زد میں آ کر

نہ جانے کتنے ہی مر گئے ہیں

گراؤنڈ  زیرو

کے مرنے والوں سے بھی

زیادہ

 

گراؤنڈ  زیرو

لہو کا پیاسا ہوا ہے اتنا

یہ خونی ریکھا ہے

انتقامی

یا۔۔  فکرِ انسان کی ہے خامی

اگر یہ ہے انتقام

تو یہ انتقام کس سے  ؟

اگر یہ ہے انتقام

تو

اس کی آخری حد

ضرور ہو گی

 

گراؤنڈ زیرو کی خونی ریکھا

ہے اک بہانہ

’’تمام عالم کو

اپنا زیرِ نگیں بنانا

اہم وسائل

تمام عالم سے

چھین لانا ‘‘

نئے سکندرؔ کا

’ٹارگٹ‘  ہے  !!

 

جاویدؔ صاحب کے شعری مجموعہ ’خواب سماں‘  میں ساتھ ساتھ دی ہوئی ایک ہی موضوع پر کہی گئی دو نظموں ’گراؤنڈ زیرو‘  کے بعد ابھی آپ نے  ’خونی ریکھا ‘  پڑھی۔۔  پہلی نظم کے تسلسل میں کہی گئی زیرِ نظر نظم میں انہوں نے اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ نائن الیون سے دنیا میں ایک خونی سفر کا آغاز ہوا۔  گراؤنڈ زیرو میں واقع ہونے والی بربادی سے صدہا گنا زیادہ بربادی ملکوں ملکوں ہو چکی ہے اور ہو رہی ہے۔   گراؤنڈ زیرو میں مرنے والے غیر فوجی اور معصوم لوگوں سے صدہا گنا زیادہ معصوم جانوں کا زیاں ہو چکا ہے اور ہو رہا ہے۔   کوئی نہیں جو گراؤنڈ زیرو سے نکلنے والی اس خونی ریکھا کو مزید آگے بڑھنے سے روکے۔

 

عصرِ نو

(۱)   ایک نرس کی خود کلامی۔  مقام عراقی ریڈ کراس کا کوئی کیمپ  2005 ء

 

خوب صورت مرد کا جسم جواں

منھ کے بل لیٹا ہوا

چیتھڑے کپڑوں کے

گہرے بھورے،  کالے اور سپید

ادھ جلے کچھ

اور کچھ جھلسے ہوئے۔۔

کچھ اِدھر  اور  کچھ  اُدھر۔۔

کچھ جسم سے لپٹے ہوئے

 

پیٹھ پر

 جلنے جھلس جانے کے داغ

پیٹھ سے پیروں تلک

جاتے ہوئے

جِلد

گہری بھوری،  کالی اور سپید

جسم سے اکھڑی ہوئی

اُدھڑی ہوئی۔۔

اور کچھ چمٹی ہوئی

 

کام سے فارغ ہوئی جب

چند گھنٹوں کے لیے

مگ سے کافی پیتے،  پیتے

سامنے دیوار پر

آگ اور خوں کی بنی

        پرچھائیاں تکنے لگی

 

بچّے،  بوڑھے  اور  جواں

چند فوجی

باقی ڈھیروں  ڈھیر  وہ

جنگ جن پر

جن کی مرضی کے بِنا۔۔  تھوپی گئی

عکسِ تازہ

سامنے دیوار پر

خوب صورت مرد کا جسمِ جواں

منھ کے بل لیٹا ہوا

پیٹھ سے پیروں تلک

جلنے کے داغ

چیتھڑے کپڑوں کے

اکھڑی  جلد

 

جیسے اک تصویر

جس پر نقش ہو

عصرِ نو کی

دن  بہ  دن

بڑھتی ہوئی بد صورتی۔۔  !!

 

عصرِ نو کی دن  بہ  دن بڑھتی ہوئی بدصورتی۔۔  کس طرح انسان کی خوب صورتی کو داغ  دار  بنا  رہی ہے۔۔  اس  کی لفظی تصویر کشی  جاویدؔ صاحب نے  اپنی نظم ’عصر نو۔ 1 ‘  میں ایک ’عراقی وار ریڈ کراس کیمپ‘ میں کام کرنے والی نرس کی خود کلامی کی شکل میں  کروائی ہے۔   جبکہ اسی قبیلے کی دوسری نظم ’عصرِ نو۔ 2‘  بھی پہلی نظم کا تسلسل ہے۔   لہذا آئیے پہلی نظم پر اظہار خیال سے قبل دوسری نظم بھی دیکھتے ہیں۔۔   ؂

 

عصرِ نو  (۲)

 

ہر طرف پھیلی ہوئی

بد صورتی کے درمیاں

آج کے انساں کو جینا

اور

مر جانا بھی ہے

جیتے جی یاں

اپنے پیاروں کے لیے

 

جو بنے

جیسا بنے

کرنا بھی ہے

بھرنا بھی ہے

اپنی محنت کے

پسینے سے،  لہو سے

اپنے پیاروں کے لیے

 

ہر طرف پھیلی ہوئی

بد صورتی کے درمیاں

خوب صورت خواب لانا

اور دکھلانا بھی ہے

آج سے پہلے کبھی

زندگی

اتنی بے معنیٰ نہ تھی

 

جبر کے پھیلے ہوئے جبڑوں میں

یہ جکڑی زمیں

یہ زماں

 

آدمی

کیڑے مکوڑے

رینگتی مجبوریاں۔۔

دیو ہیکل،  دیو قامت 

مالکوں کے ہاتھ میں

 

اپنی اپنی گردنوں کی

ڈوریاں

دے کر مگن اور شادماں

 

اک رواجی اور مشینی زندگی

جینا

عبث۔۔

کارِ زیاں

رائگاں

سب رائگاں،

سب رائگاں۔۔  !!

 

آج سائنس کی بے پناہ ترقی نے انسان کا اقتدار بڑھا یا ہے۔   صنعتوں نے اس کے دست و بازو کی طاقت میں اضافہ کر دیا ہے۔   انسان مریخ پر اترنے کی تیاریاں کر رہا ہے۔   پھر بھی حقیر ہے، مصیبت زدہ ہے۔   درد مند ہے،  وہ رنگوں میں بٹا ہوا ہے۔   قوموں میں تقسیم ہے۔   اس کے درمیان مذہب کی دیواریں کھڑی ہوئی ہیں۔   فرقہ وارانہ نفرتیں ہیں،  طبقاتی کشمکش کی تلواریں کھنچی ہوئی ہیں۔   بادشاہوں اور حکمرانوں کی جگہ بیوروکریسی لے رہی ہے۔   دلوں کے اندر اندھیرے ہیں۔   چھوٹی چھوٹی رعونتیں اور خود غرضیاں ہیں جو انسان کو انسان کا دشمن بنا رہی ہیں۔   وہ جب حکومت،  شہنشاہیت اور اقتدار سے آزاد ہوتا ہے تو خود اپنی بدی کا شکار ہو جاتا ہے۔   جاویدؔ صاحب نے اسی المیے کو اپنی نظموں میں نہایت سوز، گداز اور کسک کے ساتھ نہایت دردمندی کے ساتھ پیش کیا ہے۔   

 

تم کب تک خون بہاؤ گے

 

تم کب تک خون بہاؤ گے

انسانوں کا

آزادی کے دیوانوں کا

بوڑھوں کا اور جوانوں کا

بچوّں کا۔۔۔  ان کی ماؤں کا

البیلی دوشیزاؤں کا

عشووں کا اور اداؤں کا

تم کب تک خون بہاؤ گے

              انسانوں کا

 

یہ گرم لہو،  یہ سرخ لہو

انسانوں کا

دیوانوں کا سیلاب سا ہے

زرخیز سا ہے،  شاداب سا ہے

سیلاب سے پھوٹیں گے دریا

دریا سے سمندر ابھریں گے

ہم دیکھیں گے

ہم دیکھیں گے

             صیادوں کو

             جلادوں کو

              عیاروں کو

تہذیب کے دعوے داروں کو

      ہم دیکھیں گے  !!

 

ہم دیکھتے ہیں کہ دوسرے بڑے شعراء کی طرح عبداللہ جاوید صاحب کے پیغام میں بھی اپنے عہد کے معروضی جبر سے مزاحمت ہے،  اور ’عشق ‘ ان کے  فن کی دنیا میں نا آسودہ تمنّاؤں کے اظہار کے لیے ایک داخلی سہارا ہے۔   

 

سروائیول

 

بدلتے موسموں کے ساتھ

ہی

حلیے بدلتے ہیں

           شجر

 خزاں پہلے تو ہولی کھیلتی ہے

پتّے، پتّے سے

              شجر

صد رنگ پوشاکیں پہن کر

رقص کرتے ہیں

ہوا

مستی لٹاتی

ناچتی ہے اور نچاتی ہے

شجر

انجام سے کچھ بے خبر ،

        کچھ با خبر

ہوا کے دوست بن کر

رقص کرتے ہیں

ہوا جب

جھومتی شاخوں کے سر سے

کھینچ لیتی ہے

ردائیں۔۔

قبائے برگ و گل

اک اک شجر کی ،

پتّا،  پتّا

پتّی،  پتّی

جب اُترتی ہے،

شجر

بے پیرہن

اور بے حیا ،

زمیں بستہ

بڑے لاچار لگتے ہیں

برہنہ

سر سے پا تک۔۔  سرد

یخ بستہ

ہواؤں کے تھپیڑے

سہنے والے

ہر شجر کو

خواب دیتا ہے

وہی

جو زندہ رہنے کے

کئی اسباب دیتا ہے

شجر کو ،  آپ کو ،  ہم کو،

ہوا  والوں

زمیں  و  آب والوں،

آسماں والوں کو۔۔

وہ جن کو زندہ رکھنا چاہتا ہے

جہاں بھی ہوں

وہی تو خواب دیتا ہے

آنے والے اچھے موسم کے

شجر کو

     کبھی تو برف رُت

چاندی کے گہنوں سے

سجاتی ہے

برہنہ ڈالیوں کو،  چاؤ سے

دلہن بناتی ہے

 

 خزاں کی چیرہ دستی

موسمِ سرما کی یخ سردی

بھی اک دن

بھولی بسری بات ہو جاتی ہے

زمیں

انگڑائی لے کر

سبز مخمل اوڑھ لیتی ہے

نئے کپڑے پہن کر

پیڑ ،  پودے

         رقص کرتے ہیں

ہوا

پھولوں کو چٹکاتی ہے

اور پتّوں کو چمکا کر

شجر

اک اک شجر کو

شان سے

جینا سکھاتی ہے۔۔  !!

 

’سروائیول‘  ظاہر میں جاویدؔ صاحب کی ایک مکمل اور بھر پور نظم بدلتی رُتوں کے موضوع پر ہے۔   لیکن باطن میں اس کی وسعت زمان و مکاں سے لے کر ماورائی پہنائیوں کو چھوتی محسوس ہوتی ہے۔   موسموں کے قہر اور مہر کے زیرِ اثر شجر کو بطور شجر اور بطور علامت کچھ اس معنویت اور رمزیت کے ساتھ پیش کیا گیا ہے کہ علامتوں کی رمزیت کا اسرار کھُل کر سامنے آتا دکھائی دیتا ہے۔   خزاں کی صد رنگی کے تحت شجر صد رنگ پوشاکیں پہن کر رقص کرتے ہیں۔ ۔   پھر جب ہوا جھومتی شاخوں کے سروں سے ردائیں کھینچ لیتی ہے،  قبائے برگ و گل اتار دیتی ہے،  تو شجر زمیں بستہ،  بے پیرہن،  بے حیا،  لاچار کھڑے رہتے ہیں۔۔  پھر شجر کی علامت کے اندر ساری خلقت سمٹ آتی ہے۔   اور ربِّ کریم کی رحمت کا سہارا۔۔  مشکل سے مشکل مرحلے سے گزار دیتا ہے۔۔  بر  رُت۔ ۔  برہنہ ڈالیوں کو چاندی کے گہنوں سے سجا کر دلہن بنا دیتی ہے۔۔  اور وہ مرحلہ بھی آ جاتا ہے جب زمیں انگڑائی لے کر سبز مخمل اوڑھ لیتی ہے۔۔  نئے کپڑے پہن کر پیڑ پودے رقص کرتے ہیں اور ہوا اک اک شجر کو شان سے جینا سکھاتی ہے۔

پھول نظمیں

’پھول نظمیں‘  عبداللہ جاوید کی ایک نہایت حسین اختراع ہے۔   یوں تو محض تین مصرعوں پر مشتمل یہ نظمیں ہیں۔  لیکن التزام یہ رکھا گیا ہے کہ ہر نظم کا پہلا مصرع  (Opening line)  لفظ پھول سے شروع ہو۔  اِس التزام نے ان نظموں کو ایک نوع کی صنفی انفرادیت عطا کی ہے،  ساتھ ہی ساتھ پھول کو کہیں، پھول، کہیں علامت اور کہیں استعارے کے طور پر استعمال کی گنجائش مہّیا کی ہے۔   ’حصارِ امکاں‘ میں تقریباً  31  ’پھول نظمیں‘ ہیں اور  ’خواب سماں،  میں تین۔  اس سے یہ پتا چلتا ہے کہ پھول نظمیں گاہے گاہے ہوتی ہیں۔   ان نظموں میں بھی موضوعات کے علاوہ ٹریٹ منٹ  Treatment  متنوّع یا شاعر کی زبان میں صد رنگی ملتی ہے۔   ان میں سے بیشتر نظمیں قاری کے ذہن و دل میں تا دیر چٹکیاں لیتی محسوس ہوتی ہیں۔   حمدیہ انداز دیکھیئے۔۔  ؂

پھول حوالہ ہے

                  تخلیق کی صورت میں

    خالق کا اجالا ہے

نعت رنگ ملاحظہ کیجئے۔۔  ؂

پھول محمّد کا

                  اللہ کا ہر فرماں

   معمول محمدّ کا

اِن نظموں میں پھول کے درشن کو جانے سے لے کر،  اندر پھول کھِلنے،  پھول کو اپنانے،  پھول کے پتّی پتّی ہونے،  پھول کے ہنسنے،  پھول کے پانی میں ڈوبنے،  پھول کے دریچے میں آنے،  پھول کے اِترانے،  پھول کے تازہ تازہ کھِلنے،  کھِلانے،  توڑے جانے،  مٹّی میں مِلنے،  بالوں میں سجائے جانے  اور بے شمار دوسرے معاملات انتہائی بے ساختہ اور دل میں چبھ جانے والے انداز میں تصویر کئے گئے ہیں۔   کہیں کہیں ایسے معاملات بھی اٹھائے گئے ہیں جن کا تعلق زندگی کے جبر اور ناقابلِ حل مسائل سے ہے۔   رات کی رانی سے سانپ کے لپٹنے کا معاملہ ہے۔   پھول پر موتی کی مانند چمکنے والے قطرۂ شبنم کی حیاتِ مختصر۔  پھول کے رنگ کا یا پھول کی خوشبو کا اُڑ جانا۔ دنیا والوں کے نرغے میں نازک دل کا پامال ہونا۔  کہیں کہیں یہ صورتِ حال کہ پھول کا تحفہ دینے والے کو کنگلے ہونے کا طعنہ دیا جائے۔   پوجا کی تھالی میں پوجا کے لئے پھول لے جانے والی پجارن کو یہ تلقین کہ پھول کو پوجا میں نہ لے جائے بلکہ پھول کی پوجا کرے۔   یہ پھول نظمیں کبھی کبھی کہانیوں کا روپ بھی دھار لیتی ہیں اور کبھی کبھی زبر دست المیے میں بھی بدل جاتی ہیں۔   

آئیے اب ’حصارِ امکاں‘  سے ان کی کچھ نمائندہ ’پھول نظمیں‘  پڑھتے ہیں۔۔  ؂

پھول اشارا ہے

                       رنگ و بو کا صورت گر بھی

کتنا پیارا ہے 

٭

پھول کے درشن کو

                    جانا ہو تو اُجلا رکھنا

اپنے تن، من کو 

٭

پھول کھِلے جب اندر

                         اس کی خوش بو اتنی پھیلے

پہنچے سات سمندر  

٭

پھول کھِلا دیکھا

                     خواب میں کوئی دل

دل سے مِلا دیکھا

٭

پھول  کھِلا اے دل

                             جس سے مِلنا ناممکن ہے

اس سے مِلا اے دل

٭

پھول  کو  اپنانا

                      آساں تو ہے لیکن پہلے

جاں سے گزر جانا

٭

پھول پہ شبنم ہے

                   آنسو ہو یا موتی

عمر بہت کم ہے

٭

پھول سے مت کھیلو

                     پتّی پتّی ہونے کا

دکھ پہلے جھیلو

٭

پھول ہے رنگ و بو

                             دونوں ہیں اُڑ جانے والے

کیا میں اور کیا تُو

٭

پھول سی جس کی صورت

                                دل کے سُونے آنگن کو ہے

اس کی سخت ضرورت

٭

پھول ہنسا کیوں ہے

                            جھوٹی سچّی باتوں میں

یار پھنسا کیوں ہے

٭

پھول کے افسانے

                               کانا پھوسی کرنے والے

راز  نہیں جانے

٭

پھول ہے پانی میں

                           شاید لڑکا ڈوب گیا

پریم کہانی میں

٭

 

پھول کتابوں میں

                             رکھ کر لڑکی ، کھو مت جانا

اپنے خوابوں میں

٭

پھول دریچے میں

                           آج اگر غفلت کر لی تو

دھُول دریچے میں

٭

پھول کے چوکیدار

                             رنگ و بو پر پہرے وہرے

سب کے سب بیکار

٭

پھول کا اِترانا

                              ڈالی سے جب ٹوٹ گیا تو

مٹّی  ہو  جانا

٭

پھول کھِلا ہے تازہ

                               اُس نے کب دنیا دیکھی ہے

اُس کو کیا اندازہ

٭

پھول نہ کمھلاتا

                     یا اس سے پہلے

میں خود مر جاتا

٭

پھول کو توڑو گے

                    پھر اس ڈالی پر

کس کو جوڑو گے

٭

پھول نہیں کھِلتا

                         پھر بھی اک معصوم فرشتہ

مٹّی  میں  مِلتا

٭

پھول ہے بالوں میں

                   مسجد کے اندر بھی آیا

یار  خیالوں  میں

٭

پھول کھِلا  جی  میں

                             اپنے پیارے کے بارے میں

رکھ  نہ گِلا  جی میں

٭

پھول کا دیکھا حال

                           دنیا داروں کے نرغے میں

نازک دل پامال

پھول اندھیرے کا

                        کتنے لمحے اور رُکے گا

چاند،  سویرے  کا

٭

پھول کی دی سوغات

                         اس نے سوچا کنگلے کی

اتنی تھی  اوقات

٭

پھول کڑے موسم کا

                        اپنی کالی رات کا تارا

کبھی  کبھی   چمکا

٭

پھول بھی کھِلتا ہے

                          برف کی بارش بھی تھمتی ہے

یار بھی  مِلتا  ہے

 

’حصارِ امکاں‘ کی پھول نظمیں درج ذیل ’پھول نظم ‘ پر ختم ہوتی ہیں۔ ۔ ؂

 

پھول پہ رکھ کر پاؤں

                            جب واجاؔ نے مونچھ مڑوڑی

رویا سارا گاؤں 

 

عبداللہ جاوید کی شاعری میں کینیڈا اور شمالی امریکہ بھی جھلک اٹھتا ہے۔   ان کی غزل جس کی ردیف  ’’برف ‘‘  ہے اس مقطع پر ختم ہوتی ہے۔۔  ؂

آپ نے بھی سمیٹ لیں جاویدؔ

کینیڈا کی  ملامتیں  اور  برف

نظم  ’’یادِ وطن‘‘  کا آخری بند دیکھیئے۔۔   ؂

برف کے بیچوں بیچ میں چلتا

پارک کے آگے کا رستہ

چھوٹے بڑے پیڑوں کے اوپر

برف کی بور

چاروں جانب حدِّ نظر تک

برف سماں

جلتے آنسو،  گرم دھواں

روح میں سنّاٹے کا شور

اِس نوع کی نظموں میں  ’جنونِ مارچ‘  ’ہوا کے شہر شکاگو کی نذر‘  ’برف کے سمند ر پر‘  ’مارچ کی دستک‘ ’دھوپ، برف، پانی اور آپ‘  قابلِ ذکر ہیں۔   لیکن ان کی کتاب  ’خواب سماں‘  کی نظمیں  ’بند مکاں کے اندر‘  اور  ’پنجرہ‘  مختصر دل گداز افسانے لگتے ہیں،  جن کا لوکیل شمالی امریکہ اور مونٹریال ہے۔   ایک نظم ’میرے اندر‘ کا موضوع حالات اور ماحول کے زیرِ اثر ایک کردار کی ذہنی ماہیتِ قلبی ہے۔   اس کے  علاوہ  ان کی غزلوں میں بھی  شمالی امریکہ  اپنی جگہ  بناتا ہوا  دکھائی دیتا ہے،  جو  ایک فطری امر ہے۔   

عبداللہ جاوید کی غزلیات

شاعر شدّتِ جذبات سے مغلوب ہو کر جنوں خیز انداز میں اشعار کہتا ہے اور دیوانگی کی گھڑی گزر جانے کے بعد اپنی عقل و خرد سے اس کا تجزیہ نہیں کر سکتا۔شاعر اور شاعری کو افلاطون نے اپنی مثالی ریاست میں جگہ نہیں دی کیونکہ وہ عقل و خرد سے عداوت رکھتی ہے۔   مگر اکثر نقاّد و شاعر حضرات نے اسے قدرت کا عطیہ تصوّر کیا ہے کیونکہ جذبے کا بر محل استعمال فن پارے میں بلندی اور اثر پیدا کر دیتا ہے۔   جذبے کی شدّت بنیادی طور پر جذبے کے خلوص سے ابھرتی ہے۔   انسان قدرت و فطرت کے رموز دیکھ کر ان سے استعجابی کیفیت حاصل کر کے اسے شاعرانہ جذبے کی صورت میں الفاظ کا جامہ پہنا دیتا ہے۔   فطرت کے رموز انسانی فطرت سے متعلق ہوں یا کائنات سے متعلق ہوں یہ امر یقینی ہے کہ ان اسرار کا سامنا کرنے سے حیرت و استعجاب کی صوفیانہ کیفیت پیدا ہوتی ہے۔  اِس کیفیت اور پوری جذبی شخصیت کو ہم عبداللہ جاوید کے کلام میں پا چکے ہیں۔   

ورڈزورتھ جذبے کی توانائی کا بہت بڑا حامی ہے۔   اس کے نزدیک اعلیٰ شاعری توانا جذبات و احساسات کا بے ساختہ اظہار ہے۔   وہ انسانی فطرت کے بنیادی قوانین میں جذبے کو اہم گردانتا ہے۔   اس لیے لوک تمدّن کو فنون کی جڑ تسلیم کرتا ہے۔   اسی طرح کولرجؔ بھی شاعری کے لیے جذبے کی شدّت کو لازمی خیال کرتا ہے۔   ہمارے عبداللہ جاوید صاحب بھی اپنی شاعری میں اسی نظریے پر ایمان رکھتے ہیں۔   وہ جانتے ہیں کہ جذبہ محض فن پارہ تخلیق کرنے ہی میں مملو معاون ثابت نہیں ہوتا بلکہ تنقیدی نقطۂ نظر پیش کرنے کے لیے بھی ضروری ہے۔   تنقید کے لیے ذوقِ سلیم کی ضرورت مسلّمہ ہے اور ذوقِ سلیم عمدہ ادبی تحریریں مسلسل زیرِ نظر رکھنے سے پختہ ہوتا ہے۔

عبداللہ جاوید کسی بھی مسئلے کے تخلیقی، شعری اور انسانی تجربے کو پیش کرنے والے شاعر ہیں۔   مسئلہ اور مسئلے کا تخلیقی تجربہ دو الگ الگ چیزیں ہیں،  تخلیقی تجربے میں ایک طرف تو آدمی کے اندرونِ ذات کے سارے اسرار و رموز اور پیچیدگیاں بھی شامل ہوتی ہیں تو دوسری طرف خارجی دنیا میں معاشرتی قوتوں کے علاوہ دوسری کائناتی قوتیں بھی کار فرما ہوتی ہیں۔   جاویدؔ شعری اور انسانی تجربے کی ہمہ گیر پیچیدگی اور اسرار کے شاعر ہیں۔   وہ کسی سماجی، سیاسی و معاشرتی مسئلے کو صرف ایک عہد اور مقام کا مسئلہ نہیں سمجھتے،  اسے صرف  انسانی تاریخ کا بھی  مسئلہ نہیں سمجھتے،  بلکہ  آدمی  اور کائنات کے اُن بنیادی رازوں کی پیچیدگی سمجھتے ہیں جو ظاہر تو  زمانوں اور زمینوں میں ہوتے ہیں،  لیکن اُن کا سرچشمہ کہیں اور ہوتا ہے۔  مثلاً ان کی یہ غزل دیکھیئے۔ ۔  ؂

چمکا  جو  چاند  رات  کا  چہرہ  نکھر  گیا

مانگے  کا  نور  بھی  تو بڑا  کام  کر  گیا

یہ بھی بہت ہے سیکڑوں پودے ہرے ہوئے

کیا  غم  جو  بارشوں میں کوئی  پھول  مر گیا

ساحل پہ لوگ یوں ہی کھڑے  دیکھتے رہے

دریا  میں  ہم  جو  اُترے  تو دریا اُتر گیا

ہر  سخت  مرحلے  میں  اکیلے  ہی  رہ گئے

جو  کارواں  تھا  ساتھ  ہمارے  بکھر گیا

سایہ بھی  آپ کا ہے فقط  روشنی کے ساتھ

ڈھونڈو گے  تیرگی  میں کہ  سایہ کدھر گیا

جھپکی پلک  تو موسمِ  گل  کا  پتا  نہ  تھا

’جھونکا  سا  اک ہوا کا  اِدھر سے اُدھر گیا ‘

ہم جس کے انتظار میں  جاگے تمام  رات

آیا  بھی وہ  تو  خواب کی  صورت گزر گیا

مشکل  ہے  اب کسی  کا  سمانا   نگاہ  میں

وہ اک جھلک کے ساتھ ہی آنکھوں کو بھر گیا

ہم نے تو گل کی، چاند کی ، تارے کی بات کی

سب  اہلِ انجمن  کا  گماں  آپ  پر گیا

بجلی  کا   قمقمہ  سا    چراغِ  حیات   ہے

ٹوٹا   نفس  کا   تار   اندھیرا  اُبھر  گیا

جیتے   جی  مر چکے  تھے  مگر  اپنا   ہر نفس

ہم  ہی  پہ  سانس  لینے  کا الزام  دھر گیا

گھر ہی  نہیں  رہا  ہے سلامت بتائیں کیا

غالبؔ  کے  بعد  سیلِ بلا کس  کے گھر گیا

مقطع  کہو کہ  لطفِ سخن  کا   بھرم  رہے

جاویدؔ اب  غزل  کا   نشہ  سا  اُتر  گیا

 آیئے عبداللہ جاوید کی ایک اور غزل دیکھتے ہیں،  یہ اور پہلے والی غزل ’موجِ صد رنگ‘  میں ساتھ ساتھ دی ہوئی ہیں، اس کا موضوع ’وقت ‘ ہے۔۔   ؂

اک سیلِ بے پناہ کی  صورت  رواں  ہے  وقت

تنکے سمجھ  رہے ہیں کہ  وہم  و  گماں ہے  وقت

پرکھو   تو   جیسے  تیغِ  دو  دم  ہے  کھنچی  ہوئی

ٹالو  تو  ایک  اُڑتا  ہوا  سا  دھواں ہے  وقت

ہم اس کے ساتھ ہیں کہ وہ ہے اپنے ساتھ ساتھ

کس کو  خبر کہ ہم ہیں  ر واں  یا رواں ہے وقت

تاریخ کیا  ہے  وقت کے  قدموں کی گرد  ہے

قوموں کے اوج و پست کی اک داستاں ہے وقت

خاموشیوں    میں  سرِّ  نہاں   کھولتا    ہوا

گونگا  ہے  لاکھ  پھر بھی  سراپا  زباں ہے وقت

ہم  دم  نہیں،   رفیق  نہیں،   ہم   نوا  نہیں

لیکن  ہمارا  سب  سے  بڑا  راز داں ہے وقت

کُل  کائنات   اپنے  جلو  میں  لیے  ہوئے

جاویدؔ  ہست  و  بود  کا اک  کارواں ہے وقت

عبداللہ جاوید ایک حقیقت نگار شاعر ہیں۔   وہ ہمہ وقت سماجی حقیقت پر نظر رکھتے ہیں اور سماجی حقیقت ہی کو اپنی شاعری کا موضوع بناتے ہیں۔   سماجی حقیقت نگاری کے سلسلے میں یہ بات ذہن نشیں کر لینی چاہیئے کہ شاعری میں سماجی حقیقت نگاری اخباری رپورٹ سے بالکل مختلف چیز ہے۔   شاعر حقیقت کو اس طرح نہیں پیش کرتا جیسی وہ نظر آتی ہے،  بلکہ اپنے تخیّل کی مدد اور جذبات و احساسات کے امتزاج سے حقیقت کی وہ صورت سامنے لاتا ہے جو بالعموم لوگوں کی نظر سے  اوجھل ہوتی ہے۔   اس مخفی صورت کو منظرِ عام پر لانے ہی کا نام تخلیق ہے۔   عبداللہ جاوید ساری عمر حقائقِ زندگی کے رخ پر پڑے ہوئے پردوں کو اٹھانے میں مصروف رہے ہیں۔   خارجی حقائق ان کو متحرک کرتے ہیں۔   ہم یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ کچھ لوگ خارجی دنیا کو خالص داخلیت کی عینک سے دیکھتے ہیں اور کچھ لوگ خارجی دنیا سے اثر قبول کر کے اپنے احساس کی صورت گری کرتے ہیں،  یعنی کچھ لوگ دروں بینی اور کچھ لوگ جہاں بینی کے سہارے فنّی تخلیق کا سفر طے کرتے ہیں۔   جاویدؔ یہ سفر جہاں بینی کے سہارے طے کرتے ہیں۔   

جب ہم کسی فنکار کا زادِ راہ اس کی جہاں بینی کو ٹھہراتے ہیں تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ وہ تخیّل،  احساس  یا  جذبے سے خالی ہوتا ہے۔   کیونکہ یہ عناصر تو فنّی تخلیق کے لازمی اجزاء ہیں۔   سوال ان لازمی اجزاء کی تشکیل و تعمیر اور صورت گری کا ہے۔   

جیسا کہ ہم عرض کر چکے ہیں جاویدؔ اپنے جذبے کی تعمیر و تشکیل جہاں بینی کی مدد سے کرتے ہیں،  یعنی ان کے احساس کا سفر خارج سے داخلیت کی طرف ہے نہ کہ داخلیت سے خارج کی طرف۔  ان کے سفر کا یہ انداز ان کے پورے کلام میں نظر آتا ہے جو ان کی شخصیت کی وحدت کا واضح ثبوت ہے۔۔ 

آئیے اسی تناظر میں عبداللہ جاوید کی دو اور غزلیں دیکھتے ہیں۔۔    ؂

زندگی کٹتی ہے  کچھ  اہلِ کرامات کے ساتھ

زہر کا جام  جو دیتے ہیں  مدارات کے ساتھ

ہم  مسافر ہیں  شبِ تار کے،   پر جانتے ہیں

ان اندھیروں کا تسلط ہے فقط رات کے ساتھ

رات کے ساتھ مہ  و  نجم  کا  رشتہ ہے  مگر

جیسے  ظالم کا تعلق  ہو  مراعات  کے  ساتھ

نام  لو یا  کہ  نہ  لو  یاد  کرو  یا  نہ  کرو

ذکر اُس شخص کا چھڑ جاتا ہے ہر بات کے ساتھ

چاند کے چہرے کو  دیکھا  تو یہ دل میں  سوچا

رات آئی ہے  تری یاد کی  سوغات کے ساتھ

شہر  کا   شور  ابھی  جاگ  رہا  ہے   سو لو

شہر سو جائے تو  بیدار  رہو  رات کے  ساتھ

وقت کے ساتھ  وہی  لوگ  فنا  ہوتے  ہیں

صُلح کر لیتے ہیں جو  کہنہ  روایات کے ساتھ

ہم  کو  شکوہ  نہیں  ابیات کی  ناقدری  کا

لوگ کیا کرتے ہیں قرآن کی آیات کے ساتھ

ہم  تو  بندے ہیں،  خدا کا بھی  تصوّر  جاویدؔ

ہر زمانے میں بدل جاتا ہے حالات کے ساتھ

 

اسی  رنگ میں کہی  ہوئی اور  ’موجِ صد رنگ‘  میں  شامل  جاویدؔ صاحب کی  ایک  اور  غزل  پڑھئیے۔۔   ؂

 

برسوں کے  حالات بھی کل کی بات لگیں

دل کے  اندر  صدیاں بھی  لمحات لگیں

جو کچھ  ہے  احساس کا  جادو  ہے  ورنہ

آنسو بھی  بے  بادل  کی  برسات لگیں

کانٹوں کو مت کوسیے  شاید  کانٹے  ہی

منزل  کی  محرومی  پر  سوغات  لگیں

جن آنکھوں نے پیار کی مے  چھلکائی  ہو

آنسو  ایسی  آنکھوں میں،  خدشات لگیں

جس کو  ہم  نے  جانِ  غزل ٹھہرا  یا  ہے

اس کی  باتیں  بھی  ہم کو  ابیات  لگیں

اُس کی گلی میں جاتے ہوئے  جی ڈرتا ہے

کیسے کیسے  لوگ نہ جانیں  ساتھ  لگیں

کم  تو  نہیں  جاویدؔ  کسی  کے  مِلنے پر

بدلے  بدلے  دنیا کے  حالات  لگیں

 

کسی شاعر کے پورے کلام میں کسی ایک شخصیت کے محوِ گفتگو رہنے کا احساس ایک ایسا معیار ہے جس کی بنا پر کسی شاعر کو سچاّ شاعر کہہ سکتے ہیں۔   یہاں ہمیں نہ تو  ٹی ایس ایلیٹؔ  کے شخصیت سے فرار والے نظریے سے کوئی سروکار ہے اور نہ ساختیات کے حامیوں سے کوئی بحث ہے جو شاعر کو شعر سے خارج کرنے پر زور دیتے ہیں۔   ہمیں یہ سارے نظریے اپنے اپنے طور پر حقیقت سے فرار اور محسوس و مانوس زندگی سے آنکھیں چرانے کی کوشش معلوم ہوتے ہیں،  جبکہ مثبت انسانی فکر و احساس کا تقاضہ یہ ہے کہ انسان زندگی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنے وجود کا جواز مہیّا کرے۔   مثبت فکر و احساس کے تناظر میں ہمارے عبداللہ جاوید صاحب ہمیں  اپنا آئیڈیل فنکار نظر آتے ہیں۔۔ کہ ماحول کے دل آویز رنگین پردوں میں چھپی ہوئی حقیقتوں کا اظہار ان کا مسلک ہے۔۔  اور پستی کی وادیوں میں بھٹکتی ہوئی انسانیت کو سہارا دینا  ان کا نظریۂ فن۔  موثر  اظہار کے لیے جذبات و احساس کی صداقت اور متخیّلہ کی کار فرمائی کے ساتھ فنّی تقاضوں سے سرخرو گزرنا شاعری کی لازمی شرط ہے اور جاویدؔ صاحب پوری پوری کوشش کرتے ہیں کہ وہ یہ شرط پوری کریں۔   مثال کے طور پر آپ ’موجِ صد رنگ ‘ میں درج ان کی یہ غزلیں ملاحظہ فرمائیں :

 

کھِلا جو پھول کوئی،  کوئی  پھول  مرجھایا

تضادِ زیست نے ہر رنگ میں  ستم ڈھایا

جنوں سے کم تو نہیں ہے یہ شدّتِ احساس

جو  شاخِ گل کہیں  لچکی  تو سانپ  لہرایا

ہر  ایک   لمحۂ  گزراں  کا  احترام کرو

بچھڑنے  والا  کبھی  لوٹ کر  نہیں آیا

نگاہِ  یار  کی  یہ  روشنی  رہے  تو  رہے

وگرنہ  دہر  میں  جو  کچھ ہے سر بسر سایا

رہا   ہے   پیشۂ آبا  سپہ  گری  جاویدؔ

یہ  اور  بات  ہمیں  شاعری  نے اپنایا

٭

ترا  خیال  بہت  دُور  لے گیا  مجھ  کو

زمانہ   دیر  تلک  ڈھونڈتا  رہا  مجھ  کو

ترے  بجائے  تری جستجو کے  رستے میں

خیال  و  خواب کا اک سلسلہ مِلا  مجھ  کو

صبا کے دوش سے لپٹی ہوئی  صدا کی طرح

ہر  ایک  لمحہ  اُڑاتا  ہو ا   چلا  مجھ  کو

مرے نصیب کہ کھُل کر  گناہ بھی  نہ کیے

ہر ایسے وقت میں  یاد آ گیا  خدا مجھ  کو

وہ  تیرا  پیار سے  مِلنا ہو  یا  بچھڑنا  ہو

ہر  ایک  واقعہ  اک  خواب  سا لگا مجھ کو

کھِلا  جو  پھول  تو کانٹا سا چبھ گیا جاویدؔ

بہار  آنے  کا دھڑکا سا  لگ گیا مجھ  کو

 

دیکھا آپ نے کہ عبداللہ جاوید کا ہر شعر ایک دن کی طرح طلوع ہوتا ہے،  اور آسمان کی دوسری سمت شامِ سیاہ قبا میں ڈوب جاتا ہے۔   ان کا ہر شعر عصری تضادات کو محسوس کراتا ہے۔   وہ لفظوں کے پیکر تراش کر متضاد کیفیتوں سے تصویریں بناتے ہیں۔   اور سب سے اہم بات یہ کہ ان کے اسلوب کی گونج ایک ایسی موسیقیت کا رس گھولتی ہے جس کی وجہ سے ان کا اسلوب سیکڑوں، ہزاروں غزل گو شعراء کے ہجوم میں ایک ایک شعر کے حوالے سے منفرد نظر آتا ہے۔   دراصل جاویدؔ  صاحب کے اسلوب کی انفرادیت کا راز اس منفرد صوتی آہنگ سے پیوستہ ہے جسے وہ دل کے گداز میں اتار کر شعری تصویریں بناتے ہیں۔

اپنے کہے کی گواہی کے لیے میں ایک بار پھر ’موجِ صد رنگ ‘ ہی سے عبداللہ جاوید کی کچھ اور غزلوں کی قرأت میں آپ کو شریک کرنا چا ہوں گا۔۔   ؂

 

ننگے  پاؤں کی  آہٹ تھی  یا  نرم  ہوا  کا  جھونکا   تھا

پچھلے  پہر کے  سنّاٹے  میں  دل  دیوانہ   چونکا   تھا

پانچوں حواس کی  بزم سجا کر  اُس کی یاد میں  بیٹھے تھے

ہم سے  پوچھو  شبِ  جدائی  کب کب  پتّا کھڑکا تھا

اور بھی تھے اُس کی محفل میں باتیں سب سے ہوتی تھیں

سب کی  آنکھ  بچا کر  اُس نے  ہم کو  تنہا  دیکھا تھا

چاہ  کی  بازی  ہار کے  ہم نے  کیا کھویا  اور کیا  پایا

اُس کے ملن کی  بات  نہ  پو چھو  سپنا سا  اک دیکھا تھا

چاند گگن  میں  ایک ہے لیکن عکس ہزاروں پڑتے  ہیں

جس کی لگن میں  ڈوب گئے ہم،  دریا  میں  اک سایا تھا

دل کے دھڑکنے پر مت جاؤ،  دل تو یوں بھی  دھڑکتا ہے

سوچو   باتوں  ہی   باتوں  میں  نام کسی  کا  آیا  تھا

کیسا شکوہ،  کیسی شکایت،  دل  میں  یہی سوچو  جاویدؔ

تم ہی گئے تھے  اُس کی گلی  میں،  وہ کب تم تک  آیا تھا

 

دوسری غزل دیکھیے۔۔  ؂

روح  کو  قالب کے  اندر  جاننا  مشکل ہوا

لفظ   میں  احساس  کو  پہچاننا   مشکل  ہوا

لے  اُڑی  پتّے ہوا تو شاخِ گل بے بس ہوئی

پھول  پر  سائے  کی چادر  تاننا  مشکل ہوا

اپنے خلوت خانۂ دل سے  جو  نکلے  تو ہمیں

سب کے غم میں  اپنا غم بھی  جاننا  مشکل  ہوا

وقت  نے  جب آئنہ ہم کو  دکھایا، رو  پڑے

اپنی  صورت  آپ  ہی  پہچاننا  مشکل  ہوا

اِس مشینی عہد میں کیا ذات کیا  عرفانِ  ذات

آدمی   کو   آدمی  گرداننا    مشکل   ہوا

دل   نہ   چھوٹا   کیجئے  ناقدریِ  احباب پر

عیب   جویوں   کو   ہنر  پہچاننا  مشکل ہوا

کیا کریں جاویدؔ اِس بہروپیوں کے دیس میں

گل کو گل  کانٹے  کو  کانٹا  ماننا  مشکل  ہوا

 

اور اب تیسری اور ’موجِ صد رنگ‘ سے منتخب کی ہوئی آخری غزل بھی آپ کی نذر ہے۔۔ ؂

بکھر  گیا  ہوں  ابھی  کائنات  میں گم  ہوں

یہ سب  فریب ہے  خود  اپنی ذات میں گم ہوں

اگر تُو  ایک ہے، کیوں  اتنے  نام  ہیں  تیرے

میں  سادہ  لوح،  ہجومِ  صفات   میں گم  ہوں

تُو  ہی  بتا  دے کہ  اس  میں  قصور کس کا  ہے

تُو خود میں گم ہے،  میں لات  و  منات میں گم ہوں

جُدا  ہوں  تجھ سے،  مگر تیرے  لفظِ کُن کے طفیل

ہزار گم   ہوں،  مگر   تیری   بات  میں گم  ہوں

مری   تلاش  عبث  ہے  کہ   لمحہ   لمحہ  میں

بدل  رہا   ہوں کہ  سیلِ  حیات  میں گم   ہوں

ریاضِ  شعر  میں  رنگِ  بہار  ہے  مجھ  سے

میں  پھول پھول  میں اور پات پات میں گم ہوں

پڑھوں  جو میرؔ تو  یہ  بھی  نہ کھُل  سکے  جاویدؔ

میں  کائنات  میں   یا کلّیات   میں گم   ہوں

 

ہر دور میں عصری اور معاشرتی حقیقتیں اتنی واضح اور اٹل ہوتی ہیں کہ جب تک کوئی لکھاری ان کو نوشتۂ سخن میں نہ ڈھالے وہ سخن ور نہیں کہلاتا۔  شعری ادب پر گفتگو کرنا نہایت مشکل امر ہے۔   شاعری کا آج تک ایسا کوئی ہمہ گیر نظریہ وجود میں نہیں آیا ،  جو ہر طرح کی شاعری کا احاطہ کر سکے۔   بہرحال ایک متوازن و معتدل، مہذّب و مقدّس اور مضبوط و مربوط آہنگ والی شاعری اپنا آپ منوا لیتی ہے۔   نئی سوچ، فکر اور مشاہدہ کی شاعری ،  نئے فکری حوالوں اور نئے طرزِ احساس کی شاعری خصوصاً وہ شاعری جس پر کوئی لیبل نہ لگایا جا سکے۔   پھر اس کا انحصار خیالات کے اظہار کے سلیقے،  ابلاغ میں جلال و جمال اور لفظوں کے انتخاب پر بھی ہوتا ہے اور یہی چیزیں کسی سخنور کو اُس کے ہم عصروں سے منفرد کرتی ہیں۔   لفظوں کی نشست و برخاست،  روانی اور تسلسل اور موسیقیت بھی ایک اضافی جزو ہے۔   عبداللہ جاوید ایک سادہ اور معصوم آدمی ہیں،  فطرت کے نزدیک تر ہیں،  ان کی گفتگو ،  ان کا لہجہ اور ان کے احساسات ان کی ذات کی عکاّسی کرتے ہیں۔   ان کی غزلیں اور نظمیں فکر کی بلندی،  خیالات کی وسعت اور جذبات کی گہرائی کی امین ہیں۔   جاویدؔ صاحب نہ صرف ایک دردِ دل رکھنے والے انسان ہیں بلکہ وہ ایک وطن پرست شہری بھی ہیں۔   کائنات کے حوالے سے ان کی گفتگو میں آفاقیت ،  ان کی وسعتِ قلب و نظر اور ہمہ جہت فکر پر دلالت کرتی ہے۔   شاعری یا شاعرانہ فن کی خصوصیت کے بارے میں ایک انگریز محقق نے کہا ہے کہ بڑا شاعر زندگی کے تجربات کے اہم اور لازمی  (Essential)  پر نظر رکھتا ہے اور چھوٹا شاعر اس کے وقتی یا حادثاتی  (Accidental)  عنصر کو بیان کرتا ہے۔   گویا بڑے شاعر کا کلام آفاقی نوعیت کے تجربے پر ہوتا ہے اور چھوٹے شاعر وقتی حیثیت کے ادب پارے پیش کرتے ہیں۔   جاویدؔ صاحب کے کلام میں وہ غزل ہو یا نظم کوئی شعر بھی ایسا نہیں ملے گا جس کو عوامی جلسہ گا ہوں میں محض جذبات انگیزی یا نعرہ بازی کے لیے استعمال کیا جا سکے۔   ان کے اشعار مختلف مواقع  پر  دعوتِ فکر  دینے کے لیے  استعمال کیے جا سکتے ہیں،  اور  یہ  ان کی شاعری کی آفاقیت کی دلیل ہے۔

عبداللہ جاوید کی شاعری کے تجزیاتی مطالعے کے لیے ان کے شعری مجموعہ ’حصارِ امکاں‘ سے جو غزلیں میں نے منتخب کی ہیں،  اب آئیے ان کے حوالے سے کچھ بات ہو جائے۔   اور اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے میں آپ کو ان کے ایک ہی موڈ کی تین غزلیں پڑھواؤں۔۔  ؂

 

جس کو بھی دی صدا ،  وہ  بڑی دیر سے ملا

جو بھی  بھلا لگا،  وہ  بڑی  دیر  سے  ملا

مِلتے گئے جو لوگ  وہ  د ل  کو نہیں لگے

جس سے بھی دل لگا ،  وہ بڑی دیر سے ملا

باہر سے کوئی عکس  نہ  دل میں  اتر سکا

جو عکس دل میں تھا،  وہ  بڑی دیر سے ملا

ہم  مدّتوں کسی کی   پرستش  نہ  کر سکے

اپنا  جو  تھا خدا ،  وہ  بڑی   دیر  سے  ملا

ہنگامِ  شکر ہے  وہ  ملا  تو  زہے نصیب

اب اس کا کیا گلا،  وہ  بڑی  دیر  سے  ملا

جاویدؔ  گو   دعا   تری   مقبول   ہو گئی

جو تھا  پسِ دعا ،  وہ   بڑی  دیر  سے  ملا

مسکرانا  بہت  آساں تھا  کسی کے  ہوتے

اب یہ عالم ہے کہ روتے ہیں سبھی کے  ہوتے

آسمانوں  سے   اترنے  میں  اُسے  دیر لگی

ہم بھی  تاخیر سے آتے  تو  اُسی کے  ہوتے

مانگ کر پینے کی عادت  نہیں ڈالی  اب تک

ہاتھ  پھیلائے  نہیں  تشنہ لبی  کے  ہوتے

باخبر ہونے  میں  کیا کیا  نہیں کھویا  ہم نے

اِس سے بہتر تو یہ تھا ،  بے  خبری  کے  ہوتے

یوں دکھانے کو عدالت بھی ہے، میزان بھی ہے

اصل سامان  بھی  کچھ  داد رسی کے  ہوتے

وہ  زمانہ  ہو  کہ  یہ،   ایک  ہی  رشتہ   اپنا

ہر  زمانے  میں  حُسین ابنِ علی  کے  ہوتے

لحظہ  بھر  ہی  سہی  اپنے  تئیں  سوچو جاویدؔ

عشق  کرنے  کو چلے  کج کُلہی کے  ہوتے

٭

کوئی  جب  دل کے اندر  ناچتا ہے

تو  انساں   ہو کہ  پتھّر،  ناچتا  ہے

تصوّر   یا  حقیقت  ہے  کہ  اکثر

مرا  سر  مجھ  سے کٹ کر  ناچتا  ہے

ہُوا  یوں  بھی کہ  مرشد کو   منانے

کبھی   کوئی   قلندر   نا چتا   ہے

میں  لکھتا  ہوں  مدینہ دل کے اوپر

تو  دل  کا  سارا   اندر   ناچتا  ہے

میں جب کرتا ہوں  جانے کی  مدینہ

ادب سے  دل میں اک ڈر ناچتا ہے

وہ  آ جاتے ہیں  جس سینے کے اندر

وہ  مسجد  ہو  کہ  مندر  ناچتا  ہے

وہ جب بھی پاس آ جاتے ہیں میرے

تو  گھر  کا  سارا   منظر  ناچتا  ہے

جمی  ہے  برف   باہر  چار  جانب

لہو    میرا     برابر    ناچتا    ہے

میں جب بھی ڈالتا ہوں  دل کی کشتی

تو  اٹھ  اٹھ  کر  سمندر  ناچتا ہے

سبھی  دیوار  و  در کہتے  ہیں  جاویدؔ

قدم  اب  روکیے  گھر  ناچتا  ہے

 

وجود اور خیال میں ایک جدلیاتی وحدت ہے۔   خیال وجود سے ہے اور وجود کا ارتقاء خیال سے ہے۔   اور جس طرح وجود کا ارتقاء اپنے سماجی روپ اور فطری روپ میں بھی ناقابلِ تجدید ہے اسی طرح خیال بھی ناقابلِ تجدید ہے۔   یہ خیال کی فطرت ہے کہ وہ کوئی حد قبول نہیں کرتا۔  وہ وجود کی ترقی کے ساتھ ساتھ ترقی کرتا رہتا ہے۔   زیادہ گہرائی،  زیادہ پُر مائیگی اختیار کرتا رہتا ہے۔   ہماری  یہ جو  جدید شاعری ہے  اس پر ایک سایہ مغرب کی اس جدید شاعری کا ہے  جو عقل ( Reason)  اور حسّیات  (Sensibilities)  کی جدائی کے دور میں تخلیق ہوئی۔  جبکہ سرمایہ دارانہ نظام کا  ’میں‘  اپنے کو جارحانہ انداز میں منوانے کی فکر میں تھا۔  یہ لیریکل شاعری جو بیشتر موضوع  ( Subject)  کے احساسات کی دنیا میں رہتی ہے اور معروض سے بے نیاز رہتی ہے،  جو موضوع اور معروض میں کسی جدلیاتی رشتے کی غمّاز نہیں ہے اس شاعری سے ہلکی ہے جو ایپک  ( Epic) شاعری تھی جس میں زندگی کو اس کی اپنی کُلیّت میں پیش کیا جاتا ،  آدمی کا رشتہ جہاں دوسرے انسانوں کے ساتھ ہے،  جسے سماجی رشتوں کا نام دیا جا سکتا ہے،  وہاں اس کا رشتہ فطرتِ خارجیہ یا کائنات سے بھی ہے۔   ہم فطرت سے جدا ہوئے ہیں،  اس کا موضوع بنے ہیں،  اس کے مقابل آئے ہیں،  یہ کہنے کے لائق بنے ہیں کہ۔۔  سفال آفریدی،  ایاغ آفریدم۔ قبل از ایں فطرت کا ایک حصّہ تھے اور موضوع بننے کے بعد بھی اس کا ہی ایک حصّہ ہیں۔   شاعری جو زندگی کی کُلیّت پر محیط ہوتی ہے وہ ان رشتوں کو نظر انداز نہیں کر سکتی۔  بلکہ انہیں رشتوں کی ترجمانی سے وہ عظیم شاعری کا نام پاتی ہے۔   ابھی آپ نے عبداللہ جاوید کی جو تین غزلیں پڑھیں ذرا اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر کہئے۔۔  کہ کیا آپ کو ان میں آفاقیت اور عظیم شاعری کا جملہ اہتمام نہیں ملا  !۔۔  اور آپ نے یقیناً یہ بھی دیکھا کہ انہوں نے اپنی غزلوں میں ربِّ کائنات سے براہِ راست تخاطب میں جو تیکھا اور اصولی لہجہ اختیار کیا ہے۔۔   ؂

اگر تو ایک ہے، کیوں اتنے نام ہیں تیرے

میں  سادہ لوح ،  ہجومِ صفات میں گم ہوں

  یا یہ کہ۔۔  سرکارِ دو عالمﷺ  کے تصوّر سے۔۔ ؂

میں لکھتا ہوں مدینہ دل کے اوپر

تو  دل کا  سارا  اندر ،  ناچتا ہے

کہہ کر اپنی شاعری کو عظمت نہیں بخشی ہے  ؟  یہاں مجھے یہ کہنے دیجئے کہ۔۔  اپنے جذبات اور بندگی کے اس قدر والہانہ اظہار کا یہ پاکیزہ اور بھولا بھالا انداز۔۔ آپ کو کہیں اور نہ مِلے گا۔

آیئے اب ہم آپ کو جاویدؔ صاحب کی ایک وجدانی اور عالمِ کیف و مستی کی ’غزلِ مسلسل ‘  پڑھواتے ہیں۔۔  اور اِس دعوے کے ساتھ کہ  26  اشعار کی اس وجدانی غزل کو پڑھتے ہوئے آپ بھی اُسی کیفیت میں جھوم اٹھیں گے۔۔  ؂

 

سمندر  کے  کنارے  رقص  میں  ہوں

ہوا  میں  بے  سہارے  رقص میں  ہوں

ابھی   ہے   رات   کا   اک  پہر  باقی

میں لے کر چاند تارے  رقص  میں  ہوں

مرے   اندر   بھی   کوئی   ناچتا   ہے

میں اُس کے ساتھ پیارے،  رقص میں ہوں

اُچھالے   سنگ  کوئی    میری    جانب

یا  کوئی  پھول  مارے،   رقص  میں  ہوں

کبھی  نیچے   ہیں   میرے   ا بر  پارے

کبھی ہیں  تیز دھارے،   رقص میں  ہوں

عبث   ہے    اب   مجھے   آواز   دینا

کوئی  کتنا   پکارے،  رقص   میں   ہوں

فلک    پر    ناچ   میرا     دیکھتے   ہیں

فرشتے،  چاند،  تارے،  رقص   میں  ہوں

ہر  اک  ہونے کی   حد  کو  پار  کر کے

نہ  ہونے کے  کنارے،  رقص  میں ہوں

ستارے  ہیں  مرے  قدموں کے   نیچے

کبھی  جلتے  شرارے،   رقص  میں   ہوں

قدم  روکوں  تو   رُک   جائے   یہ  دنیا

یہی  اچھا  ہے  پیارے،  رقص  میں  ہوں

میں   اپنی   جان  کی   بازی    لگا  کر

خود  ا پنی  جان  ہارے،  رقص  میں  ہوں

بظاہر   نیند   میں   ہوں   غفلتوں  کی

کہیں  پاؤں  پسارے،  رقص  میں  ہوں

سکوں  دشمن  جہاں   میں   زیست  اپنی

کوئی  کیسے گزارے،   رقص   میں  ہوں

ہوئی  ہے   تیز   تر   دنیا   کی  گردش

اُسی گردش کے  مارے،  رقص  میں  ہوں

قدم   روکوں   تو  کیسے  ؟  بھاگتے  ہیں

نظاروں   پر   نظارے،   رقص  میں ہوں

بدلتے   ہیں   بہت   ہی   تیز   چہرے

تمہارے  ا ور  ہمارے،  رقص  میں  ہوں

زمانے   نے    بگاڑا    مجھ  کو   لیکن

زمانے  کو  سنوارے،  رقص  میں   ہوں

اٹا   ہے  گرد   میں    خود   اپنا   چہرہ

ہر اک  چہرہ  نکھارے،  رقص  میں  ہوں

کبھی  لگتا  ہے   شاید   ساتھ  میرے

ہیں رقصاں  لوگ سارے،  رقص میں ہوں

کبھی   لگتا  ہے   میرے   ناچنے   میں

کسی کے ہیں  اشارے،  رقص  میں  ہوں

فنا  کی   تیز   موجوں   کے   بھنو ر  میں

اَنا   کا سر   اُبھارے،   رقص  میں  ہوں

نچا   تا  ہے   جو   سب  کو  زندگی  بھر

اسی  پر  خود  کو  وارے،  رقص میں  ہوں

کسی   مندر  کسی  مسجد  کی  چھت کے

لرزتے  ہیں  منارے،  رقص  میں   ہوں

نہ جانے   بج  رہے ہیں کس   جہاں  میں

نفیری  اور   نقارے،   رقص  میں   ہوں

مری  چاپوں  سے  چھم چھم  پھوٹتے  ہیں

جنوں  کے  استعارے،  رقص  میں  ہوں

مری   ہر  جنبشِ  اعضاء   میں   جاویدؔ

ابد  کے  ہیں  اشارے،  رقص  میں  ہوں

 

تیسری دنیا کے بیشتر ممالک میں،  جمہوریت اور انصاف کی جدوجہد وہ اہم موضوع ہیں جن سے آج کی دنیا اور دنیا کے حوالے سے آج کا تخلیق کار دوچار ہے۔   یہ تمام واقعات اور رجحانات اس نئے شعور کی بھی خبر دیتے ہیں جو تمام رکاوٹوں کے باوجود آہستہ آہستہ اپنے قدم جماتا،  نئے خوابوں کی بنت کر رہا ہے۔   اس نئے شعور کا ایک باب نئے اقتصادی اور سماجی حوالوں میں انسان کی دریافتِ نو ہے۔   انسان کی دریافت کا یہ عمل یوں تو صدیوں سے جاری ہے اور ہر دور کے تخلیق کاروں نے یہ سوال اُٹھایا ہے کہ انسان کی غائت کیا ہے اور ایک سماجی حیوان ہونے کے ناتے ایک بہتر سماج کی تعمیر کیسے ہو سکتی ہے،  لیکن انسانی شعور کی بلوغت کے ساتھ ساتھ سوال کرنے کی نوعیت بدلتی رہی ہے۔   سائنسی دریافتوں سے پہلے کا انسان ان سوالوں کی گنجلک را ہوں پر چلتا ایک ایسی دنیا میں پہنچ جاتا تھا جو اس کے عقیدوں اور توّہمات سے وجود میں آئی تھی ،  یہ در اصل زمین اور زمین کی حقیقتوں سے ماوراء ہو کر نفیِ ذات کا عمل تھا ،  سائنسی دریافتوں نے شعور کے نئے دروازے کھولے ہیں اور بہت سے پرانے روّیوں کو نئی معنویت سے آشنا کرنے کی ضرورت کا احساس دلایا ہے۔   ایک طرف اگر تسخیرِ کائنات کے سلسلے میں انسانی بالا دستی کا احساس ابھرتا ہے تو دوسری طرف انسانی چھوٹی قوموں کے مقدّر پر بڑی قوموں کی بالا دستی اور طبقاتی سماج میں انسانی بے وقعتی کا احساس بھی جنم لیتا ہے،  یہ سارے متصادم احساس اُس نئی حسیّت کی اساس ہیں جس سے نئی شاعری کا خمیر اُٹھا ہے۔   یہ حسیّت اور سچائی کلاسیکی طرزِ فکر سے بہت مختلف ہے۔   کلاسیکی طرزِ احساس میں یہ سچائی ایک خاص مابعد الطبیعاتی پس منظر میں اپنی پہچان کراتی تھی ،  لیکن جدید سیاق و سباق میں اس کے معنی زمین اور معاشرے کے طبیعاتی پس منظر میں متعین ہو رہے ہیں۔   عبداللہ جاوید کے یہاں یہ معنویت اور حسیّت اُس نئے منشور کا حصہّ ہے جس سے نیا شعری تناظر وجود میں آیا ہے۔   سوال وہ بھی کرتے ہیں،  لیکن ان کا سوال سچّائی کے انسان کے روپ میں مجسّم ہونے کے عمل سے عبارت ہے،  اور انسان کے حوالے سے معاشرہ  اور اس کی طبقاتی اونچ نیچ ،  رنگ و نسل کے مسائل ،  موت جو کبھی جنگ اور کبھی آمریت کے تشدّد کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے،  وہ دشمن ہیں جو کئی محاذوں سے چھُپ کر وار کرتے ہیں۔   جاوید صاحب اپنی نظموں اور غزلوں میں انہی عوامل کی نشان دہی کرتے ہیں۔   آئیے اسی حوالے سے ’حصارِ امکاں‘  میں درج ان کی تین غزلیں اور دیکھتے ہیں۔۔  ؂

 

سبھی  آلام لے کر  اُ ڑ گیا ہے

پرند ہ  دام  لے کر  اُڑ گیا ہے

دریچے  میں  ذرا سی  دیر گا کر

وہ طائر  شام لے کر اُڑ گیا ہے

ہم اُس کا  نام بھی کیسے بتائیں

جو  اپنا  نام لے کر  اُڑ گیا ہے

ہمارے دل کا  سودا کرنے والا

بڑا  انعام  لے کر  اُڑ گیا  ہے

جسے  ساقی  سمجھ کر  جام سونپا

وہ ظالم  جام لے کر  اُڑ  گیا ہے

یقیں کی  روشنی  کا  ایک  جگنو

سبھی  اوہام لے کر  اُ ڑ گیا ہے

کسی کی  یاد کا  خاموش  جھونکا

غمِ  ایّام  لے کر  اُڑ گیا  ہے

جسے  جاویدؔ  سمجھے تھے  وہ  لمحہ

خیالِ  خام لے کر  اُڑ گیا  ہے

٭

فلک  پر   جب  ستارے   ٹوٹتے   ہیں

زمیں   پر   دل   ہمارے   ٹوٹتے  ہیں

یہ  کیسے   فیصلے    ہوتے   ہیں    اوپر

جو   نیچے   عہد   سارے   ٹوٹتے  ہیں

سُبک موجوں سے بن جاتے ہیں دھارے

سُبک  موجوں  سے  دھارے ٹوٹتے ہیں

کوئی   طوفان   دستک   دے  رہا  ہے

لبِ دریا   کنارے    ٹوٹتے    ہیں

جُدا  یہ   بات  کچھ  برسے  نہ   برسے

بظاہر    ابر    پارے    ٹوٹتے     ہیں

بجائے    آب     قحطِ   آ ب    برسا

یونہی   اکثر    سہارے    ٹوٹتے   ہیں

خوشی   کے   موڑ پر   ہی کیوں   یہ  آخر

ہمارے   خواب   سارے   ٹوٹتے  ہیں

ہمیں    پہچان   ہوتی   ہے   خدا   کی

ارادے   جب   ہمارے   ٹوٹتے   ہیں

بہتر  تو  ہے  یہی کہ پر  و  بال کاٹ دے

یا  پھر  کوئی فضاء کے سبھی جال کاٹ دے

فن کار  سنگ  و  چوب تراشے تو  احتساب

موسم  جو  پیڑ پیڑ پہ  اشکال  کاٹ  دے

اک عمر کاٹ دی ہے  جہاں ہم نے کوئی  اور

اک روز ،  ایک ماہ  یا  اک سال کاٹ دے

یا  ہر عمل کے  ساتھ  لکھے  سب محرّکات

یا  لکھنے   والا  نامہ ٔ اعمال  کاٹ  دے

لکھے  وہ  حرف  حرف  جو  دل پر گزر گیا

یا  حرف حرف  سارا  ہی احوال کاٹ دے

جس طور سوچ ،  شعر  اسی  طور  ہی سے لکھ

شاعر  حصولِ  داد  کا  جنجال کاٹ  دے

جاویدؔ تا  کُجا   یہ  فریبِ  نبود   و   بود

اشیاء  سے  اُن کا  رشتۂ تمثال کاٹ  دے

 

عبداللہ جاوید کی غزل میں اُن اقدار کو سمونے کی شدید خواہش اور شعوری کا وش ملتی ہے جن کا تعلق ہمارے عہد کی نفسی اور وجودی صورتِ حال کے ساتھ ساتھ فنّی معنویت کے دائمی تصوّرات سے بھی ہے۔   انہوں نے اپنی ذاتی زندگی کی چھوٹی چھوٹی خواہشوں پر نہ تو معذرت طلب کی ہے اور نہ ہی ان سے محرومی کا ماتم کیا ہے۔   ان کے یہاں کسی بڑے نشیب و فراز،  ترچھی یا کھڑی چڑھائی چڑھنے سے بہنے والے پسینے کا ذکر بھی نہیں،  اس لیے کہ وہ حسب آرزو غزل کو ایسی جمالیاتی اساس فراہم کرنا چاہتے ہیں جسے اس عہد کے تغزل کا نام دیا جا سکے۔   اپنی مجلسی گفتگو میں بھی وہ ہمیشہ اسی فکر کا اظہار کرتے ہیں کہ ’’شاعری کو عہد سے مربوط ہونا چاہئے،  لیکن اس طرح کہ وہ عہد کی حدود سے  Transcend  بھی کر سکے ‘‘۔  ہم سمجھتے ہیں کہ شاعری زندگی کی معنویت کی تشکیلِ نو ہے،  جس کے اظہار میں جمالیاتی آہنگ بہت ضروری ہے۔   دوسرے الفاظ میں شاعری معنویتِ حیات کی جمالیاتی تشکیل ہے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ عبداللہ جاوید کی بیشتر علامات کائنات میں تنہا انسان کے اس سفر کو ظاہر کرتی ہیں جو وہ ہمیشہ اندر سے باہر کی طرف کرتا ہے۔   ان کی غزل میں اکثر و بیشتر امیجری تازہ،  نکھری ہوئی اور مکمل تصویروں کا سا تاثر لیے ہوئے ہوتی ہے۔   ان کے بعض امیجز ایسے بھی ہیں جو ان کا ذہنی رشتہ اردو اور فارسی کی کلاسیکی شاعری کی روایت سے جوڑتے ہیں۔ ۔   ؂

 

بند  دروازے کہاں  تک کھولتے 

کیا  زمیں سے آسماں تک کھولتے

دائرہ   در   دائرہ  تھی   زندگی

دائروں  کو  ہم کہاں تک کھولتے

آپ نے پوچھا تو ہوتا  دل کا حال

ہم زباں کیا  زخمِ جاں تک کھولتے

کوئی  دل کا  راز داں   ملتا   اگر

چاک سینے کے  وہاں تک کھولتے

عشق کی  نشتر زنی  کا  حال  ہم

یاد   یارِ  مہرباں  تک  کھولتے

مہرباں سورج کے سارے راز بھی

سایۂ  نا  مہرباں  تک  کھولتے

کشتیِ  عمرِ  رواں کا   باب  ہم

جنگ  باد  و  بادباں تک کھولتے

ذہن  و  دل کی جستجو  کا   ماحصل

ما ورائے بے  نشاں  تک کھولتے

کھولتے ہر چیز کے سارے پرت

سب یقینوں کو  گماں تک کھولتے

لمحے لمحے کو  رواں رکھنے کے ساتھ

لا زماں  و  لا مکاں  تک کھولتے

نقل  کی  بھی نقل تھے جاویدؔ جی

اصل کو  کیسے  کہاں تک کھولتے

٭

دل کے رستے پہ  کچھ نہیں ملتا

لمبی لمبی  مسافتیں  اور  برف

کیا  دریچے کے پار  دیکھو  ہو

اونچی اونچی عمارتیں  اور برف

آسماں،  راستے،  شجر  اور گھر

زندگی کی علامتیں  اور  برف

سرد موسم میں  ساتھ رہتی ہیں

جھوٹی، سچی حرارتیں اور برف

پھول چہروں کو رنگ دیتی ہیں

شوخیاں اور شرارتیں اور برف

لوگ اکتا گئے ہیں  موسم سے

ہر طرف ہیں شکایتیں اور برف

آنے والے  سہانے  موسم کی

ہر زباں پر بشارتیں  اور برف

کب سے باہم دگر مقابل ہیں

آدمی کی  مہارتیں  اور  برف

یاں کی سوغات سندھ کیا بھیجیں

الٹی سیدھی حکایتیں  اور برف

آپ نے بھی سمیٹ لیں جاویدؔ

کینیڈا کی  ملامتیں  اور  برف

٭

پتّے،   پتّے  پہ  قضا  کا   لکھا

کون  پڑھتا  ہے  خدا کا  لکھّا

نقش کا  الحجر کی  صورت معلوم

ریت  پر  کلکِ  ہو ا  کا  لکھا

وقت کے ساتھ بدل  جاتا ہے

لفظ  ہو  خواہ   خدا  کا  لکھا

ڈوبنے  والے  کا حرفِ آخر

لبِ  ساحل  کفِ  پا کا لکھا

کاش  پڑھتی  تو کبھی  تیز ہوا

عارضِ  گل  پہ  حیا کا  لکھا

؂

ادبی دنیا میں یہ عام مفروضہ ہے کہ اگر احساسات ،  جذبات  اور  واردات ،  تخیلات و افکار کی ہی پیشکش ہوتی ہے تو فن کی دنیا محدود ہو جائے گی۔  اور آپ دیکھ رہے ہیں کہ عبداللہ جاوید نے شاعری کے اس پہلو کی طرف خصوصی توجہ دی ہے۔   ان کی شاعری میں تخیّل و معنویت کی جلوہ گری بڑی فنکارانہ سادگی کے ذریعے ہوئی ہے۔   یہ سادہ،  سجل ،  شستہ،  سلیس ،  رواں اور نکھری ہوئی ہے۔   ان کے ہاں نہ تو ثقالت ہے اور نہ سپاٹ سادگی ہی ملتی ہے۔   بلکہ ان کے اسلوب میں کڑھی ہوئی، بیدار و پُر اثر سادگی،  سلیس و نفیس سادگی اور حسین و فصیح سادگی پائی جاتی ہے۔   ان کا آرٹ نازک،  لطیف،  متین اور سکون بخش ہے،  مگر اس میں سوز و گداز کی دھیمی آنچ اور میٹھے درد کی نرم ٹیس بھی ہے۔   ان کے اظہار کا لب و لہجہ مخلصانہ ،  متوازن،  متعین اور معنویت سے لبریز ہے۔   وہ سرشار جذبات اور پُر کیف واردات کی ترجمانی کے لیے محاکات ،  مصوّری و بُت گری،  نغمگی اور لب و لہجے کی ایمائیت اور اشاریت کو ساحرانہ طور پر بروئے کار لاتے ہیں۔

عبداللہ جاوید کی شاعری احساسات کی نزاکت ،  جذبات کی لطافت و ندرت ،  خیالات کی جدّت و نفاست ،  تازہ کار  و فکر انگیز معنویت ،  زبان کی فصاحت ،  لب و لہجے کی نرمی،  پیکر تراشی اور نفیس و نادر تنظیم و تہذیب،  تجربے کی جہتوں سے نہایت صنّاعانہ کمال کو پہنچی ہے۔   جاوید صاحب نے احساسات کے نئے پہلو ،  مشاہدات کے نئے زاویے،  تخیّلات کی نئی اڑان ،  تصوّرات کے جدید صنم کدے،  افکار کی نئی سمتیں،  غور کی ان دیکھی گہرائیاں،  نظر کی اچھوتی بلندیاں اور تخلیق کے نت نئے امکانات پیش کیے ہیں۔   

آئیے اب ’حصارِ امکاں‘ سے جاویدؔ جی کی ایک ہی موڈ کی چار غزلیں ایک ساتھ پڑھتے ہیں :

 

زندگی  میں  ابتری  پہلے  سے  تھی

گھر کے اندر بے گھری  پہلے سے تھی

اپنے  اندر  کا  سفر  پہلے  سے  تھا

اپنے  باہر  بے  کلی  پہلے  سے تھی

زندگی  کے  شور  کو گھیرے ہوئے

ایک  گہری  خامشی  پہلے  سے تھی

چہچہوں  سے گو  قفس  معمور   تھا

روح  پر  تولے کھڑی  پہلے سے تھی

میری بربادی پہ کیوں نادم ہوں آپ

میری قسمت  تو لکھی  پہلے  سے تھی

اِس  زمیں  پر آپ آئے  بعد میں

یہ  زمیں  جاویدؔ  جی  پہلے سے تھی

٭

پیڑوں سے  جدا ہوتے  ہی پتّے نہیں اُڑتے

جب تک کہ نہ ہو جائیں وہ ہلکے،  نہیں اُڑتے

موسم  کے  تغیرّ سے گو اُڑتے  ہیں  پرندے

مٹّی سے مگر  روح  کے  رشتے نہیں   اُڑتے

حالات سے اُڑ جاتے ہیں سب رنگ ہمارے

ہاں  پیار  کے  جو رنگ  ہیں پکّے نہیں اُڑتے

فرقت کی  ہو ا  اس  کا  تدارک  نہیں کرتی

چہرے  تو  اُڑاتی  ہے  دریچے نہیں  اُڑتے

ہر   دیدنی  منظر  کو  اُڑا   لیتی  ہے  دنیا

کم بخت یہ آنکھوں کے جھروکے نہیں اُڑتے

اٹکھیلیاں  کرتا  ہے   ہواؤں   کا    دباؤ

بھوتوں کی شرارت  سے بگولے نہیں  اُڑتے

سچّائی  کبھی  حد سے گزرتی   نہیں   جاویدؔ

جھوٹے  تو اُڑا کرتے ہیں سچّے نہیں  اُڑتے

*

کسی    چہرے    بِنا   کیسا    دریچہ

کھُلا   ا بھی  تو    بہت  رویا   دریچہ

کھُلا  یوں   جیسے  انگڑائی  سی  لی  ہو

لگا یوں    نیند   سے    جاگا    دریچہ

گلی   میں   اک   نیا ہی   نُور  اُبھرا

بجائے   چاند   جب    چمکا    دریچہ

گھٹن میں وقت کی جب بھی گھِرے ہم

بطونِ    جان   سے    اُبھرا   دریچہ

بھری     دنیا    اکیلا     دل    ہمارا

اکیلے   دل   میں   اک  تنہا   دریچہ

کہاں   سے   لاؤ   گے جاویدؔ  جی تم

وہ   دل   میں   جھانکنے   والا  دریچہ

٭

وقت کی  اک موج  سارا رنگ و روغن لے گئی

تن کے گلشن پر خزاں آئی تو سب دَھن لے گئی

پھول  جب بکھرا  تو  اب کیا پوچھنا گلچیں،  ہوا

پھول کی  پتّی کو گلشن  لے گئی،  بن  لے  گئی

ہم مجسّم  موم  ہو کر  رہ گئے   جب   زندگی

سانحہ  در  سانحہ  سب سنگ و آہن لے گئی

وہ  پچھل پائی  تھی کوئی  اور ،  ہم سادہ مزاج

یہ سمجھتے  ہی  رہے  دل  ایک  جوگن  لے گئی

دے گئی  اونچے  محل اور  کھولیاں تہذیبِ نو

پھیلے  پھیلے،  اُجلے  اُجلے دل کے آنگن لے گئی

 

غزل کہنا۔۔  اشارے،  کنائے،  رمز  و  ایماء،  کم سے کم الفاظ کے ذریعے،  زیادہ سے زیادہ کام لینے،  معنی کی کئی پرتوں کو برتنے،  مدّھم چراغوں کی  لَو سے ذہن میں چراغاں کرنے کا فن ہے۔   یہاں سورج کی تیز روشنی کا گزر نہیں،  چاندنی کا جادو جگایا جاتا ہے۔   غزل قدما سے لے کر اب تک بہت سے رنگوں،  سمتوں،  تجربوں،  وارداتوں،  کیفیتوں اور جلووں کو جذب کر چکی ہے۔   تجربے کے شوق میں یہ غزل بعض آداب سے بغاوت پر بھی آمادہ رہی ہے،  مگر مجموعی طور پر یہ زندگی کی ہر منزل ،  ذہن کی ہر کروٹ اور مزاج کے ہر موڑ کا ساتھ دیتی رہی ہے۔   یہ ساری شاعری نہیں ہے،  لیکن شاعری کی ایک اہم ،  قابلِ قدر اور جاندار صنف ہے۔   یہ نہ ’نیم وحشیانہ ‘ ہے نہ ’گردن زدنی ‘۔   اس کا فن ہمارے صدیوں کے ریاض کا ثمر ہے،  اور اس میں ہماری زندگی،  تہذیب،  ماحول،  روایت ،  مزاج اور مخصوص ذہن کی بھر پور نمائندگی ہوئی ہے۔   یہ دو اور دو چار کا فن نہیں ہے۔   یہاں بیان کی نہیں،  حُسنِ بیان کی کار فرمائی ہے۔   یہ تنظیم، تفصیل،  تسلسل اور تعمیرِ سے بے نیاز ،  اپنے اشاروں،  اپنے نشتروں اور اپنی فضاء آفرینی کے  ذریعے سے  اپنی طاقت کا لوہا منواتی ہے۔   یہ ذاتی تجربات کو آفاقی جہت دیتی ہے۔   یہ کاروبارِ شوق کو زندگی کے ہر رنگ میں دیکھتی ہے اور دکھاتی ہے۔   یہ حدیثِ دلبری بھی ہے اور صحیفۂ کائنات بھی۔ مگر صحیفۂ کائنات کو بھی یہاں حدیثِ دلبری کا رنگ و آہنگ اختیار کرنا پڑتا ہے۔   

عبداللہ جاوید کی جدید غزل میں تغزّل کا وہ جلوہ ہے،  جس کے پیچھے اِس دور کے کرب،  آگہی،  نشّے،  زہر،  احساس اور عرفان کی کئی جہتیں ملتی ہیں۔   وہ غزل گوئی کے کلاسیکی در و بست کا لحاظ رکھتے ہیں۔   مگر ان کے احساس کا ذائقہ چونکہ نیا ہے،  اس لیے ان کی غزل کا مزاج بھی روایت کی توسیع کی نمائندگی کرتا ہے۔   یکسر انحراف کی نہیں۔   مثال کے طور پر ’حصارِ امکاں‘  ہی سے ان کی چار اور غزلیں دیکھئے۔؂

 

جب تلک  قید میں  پرندہ ہے

تب تلک ہی قفس بھی زندہ ہے

ساری   شائستگی  بناوٹ  ہے

ورنہ   ہر  آدمی   درندہ  ہے

جیسی    چا ہو   ادائیگی  کر لو

کوئی  اندر سے  نا  دہندہ ہے

زندہ  لفظوں کی بات کیا جاویدؔ

دل سے جو لکھ دیا  وہ زندہ ہے

٭

لمحہ  لمحہ  گزر  گیا   میں بھی

اپنی  میعاد   بھر گیا  میں  بھی

جرمِ  تقلید  کر گیا  میں  بھی

لوگ مرتے ہیں،  مر گیا  میں بھی

لوگ  آخر گھروں کو  جاتے ہیں

یہ  سمجھنا کہ  گھر گیا  میں بھی

پیڑ کی  عمر  جب  تمام  ہوئی

پیڑ پر  سے  اتر  گیا  میں بھی

کب تلک  پھول  بن کے لہراتا

تھا جو  مٹّی ،  بکھر گیا  میں  بھی

بوند سے موج ،  موج سے دریا

کیسے  بہروپ  بھر گیا  میں بھی

بھیک  کی  روشنی  پہ  اِترا  کر

چاند  تاروں کے  سر گیا میں بھی

حد میں رہنے کے وعظ سُن سُن کر

اپنی  حد  سے گزر گیا  میں  بھی

اپنے باطن میں  جھانک کر جاویدؔ

جب بھی دیکھا  تو  ڈر گیا میں بھی

٭

حرفِ  غلط  نہ  تھا ،  مجھے  سمجھا  گیا  غلط

لکھّا   گیا   غلط ،  کبھی    بولا  گیا   غلط

میں بھی  غلط نہ تھا،  مری  باتیں غلط  نہ تھیں

مجھ کو ،  مرے  کلام  کو   جانچا  گیا   غلط

میزانِ عدل  ٹھیک تھا ،  پلڑے درست تھے

یہ  کون  دیکھتا  ہے  کہ  تو لا  گیا  غلط

مجھ میں نہیں تھے عیب ،  کسوٹی میں عیب تھے

میرا  یہ  تھا  قصور  کہ   پرکھا  گیا   غلط

گو  مرتبے  میں  ہیچ  ہوں لیکن  غلط نہیں

سقراط  کی  طرح   مجھے  مار ا  گیا   غلط

طوفاں  کے  بعد  اہلِ  تدّبر  کو فکر  ہے

ساحل  کا  تھا  قصور  کہ  دریا گیا  غلط

افراد  ہیں  غلط  کہ غلط  ہیں  تصوّرات

یا  اس  معاشرے  ہی  کو  ڈھالا گیا غلط

اکثر   وہ   لوگ   زندۂ  جاویدؔ  ہو گئے

تاریخِ  عصر  میں  جنہیں  لکھّا  گیا غلط

٭

لگائی  تہمتِ ہستی  مگر  کہیں  رکھّا

بنانے والے نے رکھّا بھی یا نہیں رکھّا

گماں  کی بھول  بھُلیّاں بنا کے دنیا کو

یہ کس نے  پیچ  و خمِ راہ میں یقیں رکھّا

ہمیں  مزاج   دیا ،  آسمان  والوں کا

اور  اس  مزاج  پہ  وابستۂ زمیں رکھّا

 

عبداللہ جاوید کا تیسرا شعری مجموعہ  ’خواب سماں‘  اِس وقت ہمارے زیرِ مطالعہ ہے۔   اپنے تیسرے دیوان کی اشاعت کے حوالے سے خود جاویدؔ صاحب کا کہنا ہے کہ۔۔ 

’’موجِ صد رنگ ‘‘ سے ’حصارِ امکاں‘ تک اور ’حصارِ امکاں‘ سے ’خواب سماں‘ تک،  میری صد رنگی قائم و دائم ہے،  اور ساتھ ہی خود مجھ کو حیران کر دینے والی ایک تحت موجی ’یک رنگی‘ قائم و دائم ہے،  جو ان تینوں کتابوں کی  ’صد رنگی‘  کو باہم،  ہم رشتہ و پیوستہ کر رہی ہے۔   اِس کے عقب میں شاید  ’میں‘  موجود ہوں۔   میرے کسی شعوری عمل دخل کے بغیر۔  یوں بھی شاعری میں شعوری عمل دخل کا میں زیادہ قائل بھی نہیں۔   غزل کی شاعری میں تو شاید بالکل نہیں۔   میں اپنی شاعری سے غیر مطمئن اس حد تک ہوں کہ میری شاعری میں میرا بہت کچھ نہ آ سکا۔  اس بہت کچھ میں وہ سب کچھ ہے جس کو میں آپ تک یا خود اپنے آپ تک لفظوں  میں مرتّب ، مشکّل یا مصوّر کر کے یا پھر ایک نوع سے تخلیق کر کے پہنچانا چاہتا تھا اور چاہتا ہوں۔   میں کیا بتاؤں شعر گوئی کے عمل میں کس حد تک لاچار ہوں۔   جیسے کچھ بھی میرے اختیار میں نہیں۔   تخلیق کے نیم روشن اور نیم تاریک نہاں خانے میں جو کچھ ہوتا ہے اس کو بیان کرنا میرے ہی نہیں کسی کے بس کی بات نہیں۔   اس پر نامناسب ماحول ،  انتہائی حساس دل ،  زود رنج طبع،  ناگوار کو گوارا کر لینے،  صبر،  ضبط اور تحمّل سے لوگوں کو زیادتیوں کے ارتکاب کی کھُلی چھٹّی دینے والے روّیے کے سبب شعر کے تخلیقی عمل پر قدغن لگانے کی میری اپنی کوتاہی کو بھی نہ تو خود ہی آج تک سمجھ سکا ہوں اور نہ سمجھانے کے لائق ہوں۔   دنیا میں کچھ کر دکھانے کے لیے تھوڑی بہت خود غرضی کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔   میں جب کسی وائٹ ہاٹ انسپریشن  (White hot inspiration )  کے تحت ہوتا ہوں،  تو یوں بھی  اپنے آپ میں نہیں ہوتا۔  ایسے میں اگر وقت اور ماحول سازگار میسّر آ جاتا ہے تو کچھ نہ کچھ ہو جاتا ہے ورنہ اکثر اوقات ہمیشہ کے لیے غائب ہو جاتا ہے اور اپنے پیچھے کبھی ایک خلش ،  کبھی پچھتاوا ،  کبھی احساسِ جرم اور کبھی دکھ کسی تخلیقی بخشش سے محروم رہ جانے کا چھوڑ جاتا ہے۔   افسانہ نگاری میں اس نوع کا ’انسپریشن ‘  قدرے دیر پا اور سنبھالے جانے کے لائق ہوتا ہے جب کہ شاعری میں بہت زیادہ مختصر،  وقتی اور سنبھالے نہ سنبھلنے والا ہوتا ہے ‘‘۔

عبداللہ جاوید صاحب نے تخلیقِ شعر میں اپنی جس بے بسی اور نا مناسب ماحول کی طرف اشارہ فرمایا ہے،  ہمارے عہد میں ہر بڑا شاعر اس صورتِ حال سے دوچار ہے۔   چونکہ آج کے انسان کو فنا کا شدید احساس لاحق ہے۔   آج تشخص اور پہچان ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔  دُکھ درد کے کتنے حوالے ہماری زیست کے درپے ہو گئے ہیں۔   ہلاکت اور تباہی کے دہانے پر کھڑی ہوئی دنیا میں آج کا انسان جس طرح موت اور بربادی کے احساس میں شدّت سے مبتلا ہے،  تنہائی اور لا یعنیت کا کرب جس طرح ہم سب کی زندگیوں میں نقب زنی کر رہا ہے،  اس سے کون واقف نہیں۔   ایسے وقت میں عبداللہ جاوید کے شعر جذبوں میں پھیلتے اور وجود میں سرایت کرتے محسوس ہوتے ہیں۔   وہ علاج بالمثل کی طرح ہمارے جذبوں کو شدید تر ( Intensify ) کر کے ان کی تطہیر کرتے اور سکون پہنچاتے ہیں۔   مثال کے طور پر ’خواب سماں‘ سے ان کی چند غزلیں ملاحظہ فرمائیں۔۔   ؂

 

دل  کی   دیوانگی   کا   سماں   ہر  طرف

آسماں،   آسماں،    آسماں    ہر   طرف

سوجھتا   ہی   نہیں   راستہ   کیا  کریں

اک دھواں، اک دھواں، اک دھواں ہر طرف

اُڑ گئی  ہے   زمیں،   پاؤں  رکھیے  کہاں

فرش  ہے  یا  کہ  آبِ  رواں  ہر طرف

ایک  دریا  ہے   پیروں  سے  لپٹا   ہوا

بے سکوں،  بے سکوں،  بے کراں  ہر طرف

اصل   چہرے  کی   پہچان  ممکن  نہیں

عکس  ہی  عکس  ہیں  درمیاں  ہر طرف

ایک  صورت  کی  سو  صورتیں  بن گئیں

آئنے  رکھ  دیے  ہیں  یہاں  ہر  طرف

اتنی  آنکھیں  کہاں،  دیکھ  سکتے  جو  ہم

آپ  کے  حُسن  کی کہکشاں  ہر  طرف

آپ  سے  دُور  جاتے  تو  جاتے  کہاں

آپ  ہی  آپ  تھے  مہرباں  ہر  طرف

کون  کہتا  ہے   جاویدؔ  جی   مر گئے  ؟

وہ  تو  موجود  ہیں  اے میاں  ہر  طرف

٭

فاصلوں  کو  درمیاں  پر لکھ  دیا

کیا   ملیں جب  آسماں  پر لکھ دیا

ساتھ کیسا ساتھ ،  سب کچھ خواب یا

خواب  اک چشمِ گماں  پر لکھ  دیا

آپ ہی کے ہو گئے،  سو   ہو گئے

آپ ہی کو  لوحِ جاں پر  لکھ دیا

بات جب  نوکِ زباں پر رُک گئی

دل نے آنکھوں کی زباں پر لکھ دیا

ہم ہی خود  دورِ زماں  میں کھو گئے

ہم  نے  خود  دورِ  زماں پر لکھ دیا

زندگی اِس  طور  سے  بخشی  گئی

نام  اک  ریگِ رواں  پر لکھ  دیا

رہتے ہیں جاویدؔ جی اس گھر کے بیچ

ہم نے  اک  کچّے  مکاں پر لکھ دیا

٭

چاندنی  کا  رقص  دریاء  پر  نہیں  دیکھا گیا

آپ  یاد  آئے  تو یہ  منظر نہیں  دیکھا  گیا

آپ  کے  جاتے  ہی  ہم کو  لگ گئی آوارگی

آپ کے جاتے ہی ،  ہم سے گھر نہیں دیکھا گیا

اپنی  ساری  کج  کلاہی  داستاں  ہو کر رہی

عشق  جب  مذہب کیا  تو  سر نہیں  دیکھا گیا

جسم  کے  اندر  سفر میں،  روح  تک پہنچے مگر

روح  کے  باہر  رہے،  اندر نہیں  دیکھا  گیا

جس  گدا نے  آپ کے در پر صدا دی ایک بار

اُس  گدا  کو  پھر کسی  در پر  نہیں  دیکھا گیا

آپ کو پتھّر لگے  جاویدؔ جی  دیکھا  ہے  یہ

آپ  کے ہاتھوں میں گو  پتھّر نہیں دیکھا گیا

٭

کبھی   پیارا  کوئی  منظر  لگے   گا

بدلنے  میں  اسے  دم  بھر لگے  گا

نہیں  ہو  تم  تو  گھر جنگل لگے  گا

جو تم  ہو  ساتھ،  جنگل  گھر لگے  گا

ابھی  ہے  رات  باقی  وحشتوں  کی

ابھی  جاؤ  گے  گھر  تو ڈر  لگے  گا

کبھی  پتھّر  پڑیں گے  سر کے  اوپر

کبھی  پتھّر کے   ا وپر  سر  لگے  گا

در  و  دیوار  کے  بدلیں گے  چہرے

خود   ا پنا  گھر   پرایا  گھر  لگے  گا

چلیں گے پاؤں  اُس کوچے کی جانب

مگر  الزام   سب  دل  پر  لگے  گا

ہم  اپنے  دل  کی  بابت کیا  بتائیں

کبھی  مسجد،   کبھی   مند ر  لگے  گا

اگر  تم   مارنے  والوں  میں  ہو گے

تمہارا   پھول  بھی   پتھّر  لگے  گا

کہاں  لے  کر چلو  گے سچ کا  پرچم

مقابل   جھوٹ  کا   لشکر  لگے  گا

ہلاکوؔ  آج    کا     بغداد    دیکھے

تو  اس  کی  روح کو بھی  ڈر  لگے گا

زمیں  کو   اور  اونچا  مت   اٹھاؤ

زمیں  کا  آسماں  سے  سر لگے  گا

جو اچھے کام ہونگے اُن سے ہوں گے

برا  ہر   کام   اپنے   سر لگے   گا

سجا تے   ہو   بدن بے  کار  جاویدؔ

تماشا   روح  کے   اندر  لگے  گا

 

شاعرانہ اسلوب کی تازہ کاری میں ایمائیت اور رمزیت کو اہم خصائص شمار کیا گیا ہے۔   ہم دیکھتے ہیں کہ عبداللہ جاویدؔ کے یہاں یہ عنصر ایک انوکھے انداز میں جلوہ گر ہوتا ہے اور بڑے گہرے اشارے نہایت سادہ اور سہل باتوں میں اپنا اظہار کرتے ہیں۔   درد ان اشعار کی کیفیات کا محور ہے،  لیکن عام شعراء کی طرح ان کا راستہ یا سیّت اور قنوطیّت کی طرف نہیں جاتا۔  محبتّ اس شاعری کا فنّی ایمان ہے،  لیکن وہ عام شعراء کی طرح محبتّ کو طلسمات کا اسیر نہیں کرتے۔   اس میں آفاقیت سے زیادہ ارضیت ہے جسے ہم عصری تقاضوں کی نکتہ شناسی کا نام دے سکتے ہیں، یا یہ کہہ سکتے ہیں کہ آج کا شاعر محبتّ اور محبوب کو کوئی ما بعد الطبیعاتی علیحدگی عطاء کرنا نہیں چاہتا ،  بلکہ وہ بلا تکلّف دوسرے استعاروں کی طرح اس کی شناخت کا سرچشمہ بنتے ہیں۔   محبتّ کے تجربے شاعر کو یعنی آج کے سچے  شاعر کو ایسے بیش قیمت تحیرّ سے آشنا کرتے ہیں جو اس کے جہان کو متنوّع کیفیات سے سیراب کرتا ہے۔   اور ہم دیکھتے ہیں کہ یہی متنوّع کیفیات جاویدؔ صاحب کی غزلوں میں پورے اہتمام،  مضمون کی بے ساختگی ،  اظہار کی ندرت ،  زبان کی چاشنی اور احساس میں شدّت کے لحاظ سے بے نظیر ہیں۔   اور دل و دماغ تک رسائی کے لحاظ سے بے مثال۔  ان کا ہر شعر بڑی سرعت کے ساتھ محسوسات کو متاثرّ کرتا ہے اور فکر و آگہی کی حدوں میں دُور تک اپنے نقوش چھوڑ جاتا ہے۔   

آیئے ان ہی متنوّع کیفیات سے لبریز جاویدؔ جی کی کچھ اور غزلیں دیکھتے ہیں،  جو ہم نے آپ کے لیے ’خواب سماں‘ سے منتخب کی ہیں۔۔   ؂

 

جو دل کی بات ہی کرنی نہیں تھی

تو کوئی بات بھی  کرنی  نہیں تھی

اگر  اندر  سے  اتنا   چاہنا   تھا

تو  باہر  بے  رخی کرنی  نہیں تھی

خطائیں اور تھیں کرنے کے لائق

خطائے  عاشقی  کرنی  نہیں تھی

ہمیں  یہ  امتحاں  دینا  نہیں تھا

ہمیں  یہ  زندگی  کرنی نہیں تھی

محبتّ  بھول تھی  تو   بھول  ایسی

کبھی بھولے سے بھی کرنی نہیں تھی

بکھر کر  پھول  یہ  بولے شجر سے

ہوا  سے  دوستی کرنی  نہیں  تھی

ہمارا   مسئلہ  یہ  تھا  کہ  جاویدؔ

زمانے  کی  خوشی  کرنی نہیں تھی

 ٭

جہاں  بھی  جاؤ  گے  دیوار ہو گی

کوئی  اٹھتی   ہوئی  تلوار   ہو گی

بہت  مانگو  ہو  اس  نظرِ کرم  کو

وہ جب ہو گی  تو  دل کے پار ہو گی

یہ دل باتیں کرے گا جب کسی سے

تو   فوجِ   دشمناں   تیار   ہو گی

کیا جب عشق  تو یہ سوچنا تھا

کہ باقی  زندگی  آزار ہو گی

نکل کر بند کوچے سے وفا کے

محبتّ   شاملِ   بازار  ہو گی

گماں کی ملگجی پرچھائیوں میں

یقیں کی  روشنی  لاچار  ہو گی

جنوں وہ بھی جنونِ عشق جاویدؔ

نہ سر ہو گا  نہ ہی  دستار  ہو گی

٭

ناچنے  لگتا ہے  بازاروں کے بیچ

بند  کیجے دل کو  دیواروں  کے بیچ

عشق  ہے  ظاہر میں  خوشبو کا سفر

راستہ  جاتا ہے  انگاروں  کے بیچ

دیکھئے  آ کر  کبھی  دنیائے  دل

بیٹھیے  آ کر  کبھی  یاروں کے بیچ

کاسۂ  درویش  بھی  رکھ  دیجیے

کچھ جگہ خالی ہے  دستاروں کے بیچ

آپ کو  نشہ ّ  نہیں  کرتی  شراب

آپ کا کیا کام مے خواروں کے بیچ

شہرِ جاں  تک آ گئی جنگل کی آگ

جل  رہی  ہے عین گلزاروں کے بیچ

کیسی  وحشت ہے زمیں سے تا فلک

چاند ہے  سہما  ہوا  تاروں کے  بیچ

امن ہے  بغداد  میں چاروں طرف

فاختہ  اُڑتی  ہے  تلواروں کے بیچ

مانگیے  جاویدؔ اب  مشرق  کی  خیر

گھِر گیا مغرب کے ہتھیاروں کے بیچ

٭

ہاتھ  اٹھائے  تو  دعا بھول گئے

مانگنے  بیٹھے تھے کیا ، بھول  گئے

جذب میں آ گئے جب وقتِ دعا

ہم ہیں بندے کہ خدا  بھول گئے

یوں  شب  و  روز کی  اللہ  اللہ

نام  ہی  اپنا  گدا  بھول  گئے

بھول  جانے پہ  جو آئے اس کو

اور سب اُس کے سِوا بھول گئے

یاد  رکھنے کی  کبھی  کوشش کی

جس نے  جو  زخم دیا بھول گئے

اپنے  اندر  وہ   تماشے  دیکھے

اپنے  باہر  جو  ہُوا  بھول  گئے

اپنے  باہر کے  خدا  کو  ڈھونڈا

اپنے  اندر  کا  خدا  بھول  گئے

خود سے جب پہنچے خدا تک جاویدؔ

اپنے  ہی  گھر کا  پتا بھول  گئے

 

ہم دیکھتے ہیں کہ اِس عہد میں ہمارا بڑے سے بڑا اردو شاعر بھی کچھ عرصے کے بعد  خود کو دہرانے لگتا ہے۔   اس کی وجہ غالباً یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اس کے پاس کہنے سُننے لے لیے کچھ بھی باقی نہیں رہ جاتا۔  عبداللہ جاوید کی سیکڑوں غزلوں اور نظموں کو پڑھ لیجئے کبھی تکرارِ خیال یا مضمون کی یکسانی سے سابقہ نہیں پڑتا ،  البتّہ بعض احوال و واقعات ضرور ایسے ہو سکتے ہیں جو کسی خاص نام یا موضوع سے مخصوص ہو کر شاعر کی توجّہ کا بار بار مرکز بنتے ہوں۔   اس وصف سے کوئی بھی بڑی اور قابلِ ذکر شاعری خالی نہیں ہو سکتی۔  جاویدؔ صاحب نے جدید اردو غزل کو جو امتیاز و اعتبار بخشا ہے وہ صرف انہیں کی تخلیقی بصیرت کا فیضان ہے۔   بلا شبہ  عبداللہ جاوید ایک مدّت سے سپہرِ غزل پر نمودار ہیں،  لیکن ان کی حیثیت اس روشن ستارے کی ہے،  جس کی تابندگی مہرِ درخشاں کی چمک سے بھی ماند نہیں پڑتی۔  عبداللہ جاوید کی غزل ایک منجھے ہوئے،  کہنہ مشق ،  صاحبِ نظر انسان کا سرمایۂ دلنواز ہے،  جس میں قدیم رنگ و آہنگ اور شعور و ادراک کا شعلہ بھی لپکتا ہے اور عہدِ نو کی زندگی کا وہ منظر نامہ بھی پورے فنّی ادراک کے ساتھ پیشِ نظر رہتا ہے،  جس سے ہمارے حواس آشنا ہیں۔   

جاویدؔ  صاحب کی شاعری کی بنیادی خوبی یا کمال ان کے شعروں کی سادگی ہے جو پھیکے پن سے عبارت نہیں ہے،  بلکہ سہلِ ممتنع کی کیفیت سے مملو ہے،  جو ہر دور میں بڑی شاعری کی ضروری پہچان بتائی جاتی رہی ہے،  اس شاعری میں نہ فاضل اور فضول الفاظ کا گزر ہے نہ منتخب اور بیش قیمت الفاظ کی گرانی یا گراں باری کا احساس ہوتا ہے۔  جاویدؔ کی شاعری کو جو چیز ایک نوع کی خصوصی انفرادیت سے آشنا کرتی ہے،  وہ طنز ہے،  جس نے خوابناک فضاؤں میں بھی جا بجا تیکھے پن ،  کسیلے پن اور کٹیلے پن کی فصل اگائی ہے۔   یہ شاعری معاشرے کے مزاج کی نقل مطابق اصل نہیں ہے،  بلکہ خود اپنی ذات سے ایک مکمل اور البیلی کائنات ہے جس کی اپنی دھوپ چھاؤں،  سبزی اور شادابی ہے   یہ کائناتِ آب و گِل کے متوازی ایک زیادہ مبنی بر حقیقت ،  زیادہ پُر کشش اور با معنی کائنات ہے۔ 

شاعری کی تمام تر قوّت اور اس کی بقاء کا انحصار اس کے اپنے ابتدائی خمیر میں پوشیدہ ہوتا ہے،  اس کو کسی مصنوعی طریقے سے نہ تخلیق کیا جا سکتا ہے اور نہ باقی رکھا جا سکتا ہے،  ہماری تنقید کو اس صورتِ حال کا اندازہ بہت پہلے ہو گیا تھا اور اس نے بڑی کوشش اور  جرأت کے ساتھ ان بیساکھیوں کا سراغ لگا لیا تھا جن کے بل بوتے پر شاعری کے ہفت خواں طے کرنا نسبتاً آسان تھا ،  مثلاً عشقیہ شاعری،  صوفیانہ شاعری ،  فاسقانہ شاعری،  خمریات کی شاعری وغیرہ۔  ہمارے قدیم مذاقِ سخن کو یہ تقسیم کاری راس آ سکتی تھی ،  لیکن اب کوئی شاعر کسی ایک لکیر کا فقیر بن کر زندگی اور اس کی بے کراں وسعت کے ساتھ انصاف نہیں کر سکتا ،  میرے نزدیک  کوئی شخص یا تو شاعر ہوتا ہے  یا  سرے سے شاعر ہوتا ہی نہیں۔   عبداللہ جاوید ان خوش نصیبوں میں سے ہیں،  جو شاعر ہیں  اور یہ توقیر  خود اتنی بڑی ہے، کہ اس پر کسی آرائش کے ذریعے اضافہ ممکن نہیں ہے۔   آئیے ان ہی با توقیر شاعر کی کچھ اور غزلیں ’خواب سماں‘ سے دیکھتے ہیں۔۔ ؂

 

ہاتھ  اُٹھتے  دعا کی  جانب ہیں

وسوسے  سب  انا کی جانب ہیں

جانتے  ہیں   ہوا کی  خصلت کو

پھول  پھر بھی  ہوا کی جانب ہیں

لوگ کہتے ہیں  وہ  بلا  ہے  مگر

لوگ  جاتے  بلا کی جانب ہیں

کبھی لگتا ہے  دو  جہانوں  میں

ہم  اکیلے  خدا کی  جانب  ہیں

کیسے بھٹکیں  خدا کی  جانب سے

سارے رستے خدا کی جانب ہیں

سمت کوئی ہو ،  سمت  اُس کی  ہے

چار  جانب  خدا کی  جانب  ہیں

کیوں نہ  کعبہ ہو آپ کی  جانب

آپ  جب  کربلا کی جانب ہیں

٭

پھول کے  لائق  فضاء رکھنی ہی تھی

ڈر  ہوا  سے  تھا ، ہوا  رکھنی  ہی تھی

گو  مزاجاً  ہم  جُدا تھے  خلق سے

ساتھ میں  خلقِ  خدا رکھنی  ہی تھی

یوں  تو  دل  تھا گھر  فقط  اللہ  کا

بُت جو پالے تھے، تو جاء رکھنی ہی تھی

ترک کرنی  تھی  ہر اک رسمِ جہاں

ہاں  مگر  رسمِ  وفا ،  رکھنی ہی  تھی

صرف کعبے  پر  نہ تھی،  حجت  تمام

بعدِ  کعبہ  کربلا ،  رکھنی  ہی  تھی

شبنم ،  آنسو،   قطرہ ،  دریا  ا ور  مہا  ساگر  بھی  میں

سیپی کے  اندر بھی میں تھا ،  سیپی  کے  باہر  بھی میں

گھر کے اندر  بھی رہتا تھا ،  بیٹھا تھا  در  پر  بھی میں

پنجرے کے اندر بھی میں تھا ، پنجرے کے باہر بھی میں

اپنے  دل کے  دروازے  پر آپ ہی  دستک دیتا تھا

اپنی  ہی  دستک کو  خود ہی  سنتا  تھا  اندر  بھی  میں

٭

پھول   پر   زخم   نہ  آنے  دینا

دل  نہ  کانٹوں سے  لگانے  دینا

عشق  کی  آگ میں  جلنا  لیکن

عشق  پر   آنچ   نہ   آنے  دینا

جان  کہتے  ہو  تو  پھر  یاد  رہے

جان  پر   جان  بھی  جانے  دینا

چھوٹی چڑیوں کو  بڑے خطرے ہیں

ان   کو   محفوظ   ٹھکانے   دینا

جہاں  ہجرت  کے  پرندے اُتریں

وہاں   افراط   سے   دانے   دینا

اک   دیا    اور    بجھانے    والو

اک   دیا   اور    جلانے     دینا

اے   زمانوں  کو  بنانے  والے

میرے  لفظوں  کو  زمانے   دینا

دیے کی  موت سے کیا کام رکھنا

دیے کی  روشنی سے  کام رکھیے

یہ مانا دھوپ میں گھر جل رہا ہے

دریچے  میں  سہانی شام  رکھیے

نئی سی  ہے خلش  سینے کے  اندر

نیا سا  اس خلش  کا  نام  رکھیے

جنونِ  عاشقی   ہو  شاعری   ہو

جنوں کو  ساتھ  ہر  ہر گام رکھیے

 

اوپر دیے ہوئے اشعار میں آپ نے بھی یہ بات محسوس کی ہو گی کہ عبداللہ جاوید کے ہاں حقیقت پسندی کا روّیہ بہت توانا ہے،  اسی لیے انہیں اپنے کسی جذبے کے اظہار پر شرمندگی نہیں ہوتی۔  اسی حقیقت پسندی کی وجہ سے وہ آنکھوں میں بسی فضاؤں کی زرد ویرانیوں اور پت جھڑکے موسموں کو آنکھوں سے نکال پھینکنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔   وہ زندگی میں لایعنیت کا مشاہدہ کرتے ہیں لیکن اس میں معنویت کا کوئی نہ کوئی پہلو ڈھونڈھ نکالتے ہیں۔  ’نہ ہونے‘ اور ’ہونے‘ کے درمیان بھی ایک راہ تلاش کر لیتے ہیں۔  شکست خوردگی کی جگہ ’سروائیول ‘ کی بات کرتے ہیں۔  جاویدؔ صاحب تاریخ کی جدلیات کا شعور رکھتے ہیں۔   انہیں معلوم ہے کہ انسان کی زندگی آج صرف اور صرف تہذیبی ارتقاء کے معاشرتی حوالوں سے مربوط اور با معنی ہے۔   یہاں یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ شاعر ابدی حوالوں کا علم رکھنے کے باوجود عصر کے حوالوں کی اہمیّت کو بھی سمجھتا ہے۔   جاویدؔ کے ہاں سفر کی علامت بار بار استعمال ہوئی ہے،  جو بہت با معنی ہے۔   سفر ارتقاء کا اشارہ بھی ہے اور توانائی کا بھی ،  لیکن جاویدؔ کے ہاں ہر علامت اور ہر اشارے کی طرح سفر کا اشارہ بھی نہایت حقیقت پسندانہ شعور کے ساتھ استعمال ہوا ہے۔

عبداللہ جاوید کے نزدیک زندگی کی پیچیدگیوں کو سمجھنے اور اس کے مختلف حوالوں اور رابطوں کا شعور رکھنے کی بات اپنی جگہ اہم ضرور ہے لیکن صرف اس سے شاعری وجود میں نہیں آتی۔  شاعری صرف جذبے یا فکر یا احساس کے اظہار کا نام بھی نہیں ہے۔   یہ کام تو نثر میں بھی آسانی سے ہو سکتا ہے۔   پھر ان باتوں کا شاعری کے ساتھ اور جاویدؔ کی شاعری کے ساتھ کیا تعلق ہوا۔  شاعری کا تعلق خیالات، جذبات، افکار سے بھی ہے،  لیکن اسلوبِ اظہار سے زیادہ ہے۔   ایک ہی بات نثر میں بھی کہی جائے اور نظم میں بھی ،  تو یہ کیسے معلوم ہو کہ شاعری کہاں ہے اور کہاں نہیں ہے  ؟  خیالات اور افکار شاعرانہ  اور غیر شاعرانہ نہیں ہوتے،  ان کا اظہار  اور خالق اور فن کار کا  اسلوب انہیں شاعرانہ یا غیر شاعرانہ بناتا ہے۔   بہت بڑے بڑے اہم نقادانِ فن اور اساتذہ بار بار افکار و خیالات کو شاعرانہ اور غیر شاعرانہ خانوں میں تقسیم کرتے چلے آ رہے ہیں۔   یہ بات بھی اتنی ہی غلط ہے جتنی شاعری کے الہام ہونے کی بات غلط ہے۔   غالبؔ نے بھی یہ نہیں کہا تھا کہ شاعری الہام ہے اور غیب سے آتی ہے۔   انہوں نے یہ بات مضامین کے بارے میں کہی تھی۔۔   ؂

  آتے ہیں غیب سے یہ  ’مضامیں‘  خیال میں

ہسرلؔ شعور کو خود گرفتہ نہیں عالمِ گرفتہ سمجھتا ہے۔   ہسرلؔ کے نزدیک انا ، آزاد ، تنہا اور غیر متعلق نہیں  بلکہ ہمہ وقت عالم میں پیوست ہے۔   عالمِ حیات سے اس کا لگاؤ  اور اس کی دلچسپی خدشوں  اور اندیشوں کی راہ اس سے ایک ہمہ جہتی اور ہمہ وقتی تعلق اسے وجودِ روحانی اور ذاتِ منطقی سے مختلف بنا دیتا ہے۔   معروضیت جس فاصلے، لاتعلقی اور عدم دلچسپی کی متقاضی ہے اور جس  کے باعث ذات،  اشیاء سے الگ تھلگ رہ جاتی ہے،  وہ ہسرلؔ کو سائنسی، ریاضیاتی فکر کا فتور نظر آتا ہے۔   شعورِ محض کے تجربے کی اہمیت اس عرفان کے بعد کم ہوتی گئی کہ شعور اپنی ہیتِّ وجود ہی میں ایک خود اندیش یا خود گرفتہ ہستی نہیں،  بلکہ اس کے بر خلاف خود گریزی اور دگر اندیش اس کے ہیتِّ وجودی کا خاصا ہے۔   عالم اس کے امکانات کی طرح  اس کے لیے ہمیشہ کھُلا رہتا ہے  اور  شاید ذات اپنے امکانات ہمیشہ عالم کے حوالے سے ہی بروئے کار لاتی ہے۔   اگر امکانِ ذات کی وجودی ساخت ہے،  تو ذات  ناگزیر طور پر ایک ایسی جولا نگاہ کی  متلاشی رہتی  ہے  جو  اس کے ذوقِ نمود اور شوقِ  نشاۃ و  فروغ کی تکمیل میں مدد دے سکے۔   یہ ذات خود اندیشی نہیں ہے جو وجدان کے شیشے میں اپنے جمال کی تمام رعنائیوں کے ساتھ اتر جائے۔   یہ تو ایک ایسی ہستی ہے جو ہر لمحہ اس جہاں میں ہے اور ہر لمحہ یہ دعویٰ بھی کرتی ہے کہ اس کی آتشِ وجود کا اس خاکداں سے کوئی ایسا تعلق بھی نہیں۔   لیکن ہستی کا یہ ابہام ذات کو عالم سے متعلق رکھتا ہے۔   اسے نت نئے تجربات سے گزارتا ہے۔   

ہستی اور نیستی کی جو رزم گاہ جو میری ذات میں ہے وہ مجھے ایک وجودِ زندہ کا مقام بخش  دیتی ہے،  جو  اس  جہان  میں ہے،  اس  میں پیوست ہے،  اس سے متعلق ہے۔   اس کے خدشات،  اس کے اندیشے،  اس کی ناکامیاں،  اس کی محرومیاں،  سب اسی میں جاں گزیں ہیں،  لیکن پھر بھی وہ اپنی ذات میں منفرد ہے۔  فکرِ سخن میں بسا اوقات شاعر کا ذہن ،  اپنی اعلیٰ صلاحیتوں،  وسعتِ مطالعہ اور سابقہ ریاضتوں کی بدولت ،  تخلیقی بے چینی کے شدید دباؤ کے تحت ،  یہ کام  ایسی پھرتی سے انجام دے لیتا ہے کہ شاعر کو اس کی پوری خبر نہیں ہونے پاتی۔ 

یہ جانفشانی ،  شاعری کے جاندار ہونے کی اپنی فطری شرط ہے،  باہر سے عائد کردہ کوئی اتالیقی ہدایت نہیں ہے۔   جاندار شاعری کے لیے،  فقط معنی کا ابلاغ کافی نہیں ہوتا ،  چاہے وہ موزوں کلام ہی کے وسیلے سے ہو۔  ایسا موزوں کلام شاعری کا جسدِ بے روح ہو گا۔  موزوں کلام میں،  روحِ شعریت سرایت نہ کرے گی جب تک ابلاغ کیف انگیز نہ ہو گا۔  جاندار شاعری کے لیے،  ابلاغ معنی سے زیادہ ضروری ابلاغِ کیف ہے۔   اور یہ سب کچھ تخلیق کار میں شعورِ ذات سے آتا ہے۔   شعورِ ذات ہی انسان کو شعورِ زندگی بخشتا ہے۔   یہ شعور ہی ہے جو ہمیں عصری تقاضوں کے تناظر میں سچائیوں کی پرکھ کرنا سکھاتا ہے۔   

ایک با شعور شاعر کا دل مختلف اضطراری و استعجابی کیفیتوں کی آئینہ داری بھی کرتا ہے۔   کوئی اہم شاعر نہ ان سے رُو گردانی کر سکتا ہے اور نہ ان کیفیات کو جمالیاتی وصف عطاء کرنے کی اس ریاضتِ فن سے دُور رہ سکتا ہے،  جب حقیقت کی مختلف سطحوں کی کشمکش ذہنی تجربے اور تہذیبی وجود کے ربط کو بیان کے نئے سانچوں میں ڈھالتی اور اظہار کے نئے ابعاد دریافت کرتی ہے۔   حقیقت تو ایک لا متناہی تلاش کا نام ہے،  لیکن کبھی کبھی  حقیقت خود  شاعرانہ وجود کو چھو کر گزر جاتی ہے۔   ایسے لمحات کا عکس جب شاعری کے آئینے میں اتر آتا ہے،  تو وہ ایک طلسمی تاثر کا حامل ہوتا ہے۔   شاعرانہ انا کی ربودگی کے وہ انفرادی لمحے بھی جو تہذیب و معاشرے سے یگانگت رکھتے ہیں،  تخلیقی طور پر انسانی سوچ کو آگے بڑھانے میں معاون بن جاتے ہیں۔   کیونکہ یہ لمحے موجودات کی سطح سے اُبھر کر تاثرات کے جہانِ نا آفریدہ کی صورت گری کرتے ہیں۔   ایسے لمحات کی سچائی حقیقت کی نفی نہیں کرتی بلکہ اس کی ایک نئی تعبیر سے عبارت ہوتی ہے۔   اور یہ نئی تعبیر ہمارے شعورِ ذات اور شعورِ زندگی کی  عطاء ہے۔   ہم نے  اب  تک جاویدؔ صاحب کی  جتنی بھی شاعری کا مطالعہ کیا ہے،  اس  میں شعورِ  ذات  اور شعورِ  زندگی  اپنی تمام تر رعنائیوں اور پختگی کے ساتھ جلوہ گر ہے۔   

آئیں آخر میں ہم ایک بار پھر عبداللہ جاوید کی شعورِ ذات اور شعورِ زندگی سے بھر پور ’خواب سماں‘ سے چند اور غزلیں پڑھواتے ہیں۔۔  ؂

 

ازل  ہے  نا  ابد کچھ بھی نہیں ہے

جو سچ پوچھو  تو حد کچھ بھی نہیں ہے

نہیں  ہے  وہ  جسے  ہونا کہو  ہو

کہ ہونے کی سند کچھ بھی نہیں ہے

حقیقت  ماوراء  ہے،  مستند  بھی

وگرنہ  مستند  کچھ  بھی نہیں ہے

جانتا  ہی  نہیں  یہ کیا   ہوں   میں

بس یہی۔۔ آپ سے جدا ہوں میں

اجنبی     اجنبی    سا    لگتا   ہے

سارا   ماحول   سوچتا   ہوں   میں

ایسے   ایسے  سراب   دیکھے   ہیں

اب  تو  دریا  سے کانپتا   ہوں میں

وقت   نے   میرا   قد  نہیں   ناپا

ابھی  چھوٹا ،  ابھی  بڑا   ہوں   میں

مجھ میں دونوں سمارئے سے کیوں ہیں

نہ تو  شیطاں  نہ  ہی  خدا  ہوں میں

اور  کر  دیجیے   جدا    خود   سے

جو  نہ  ہونا   تھا  ہو گیا   ہوں  میں

٭

ایک  تاریخ لکھی  ہم  نے بھی

ایک  تاریخ  سہی  ہم نے بھی

عشق  آباد  کیا   دل کے  بیچ

غم کی  بنیاد  رکھی  ہم نے  بھی

اپنے  اندر کے سفر  میں  دیکھی

وقت کی  بند  گلی  ہم نے  بھی

دل میں اک  بات چھپانے کیلئے

دل کی  ہر  بات کہی  ہم نے بھی

لذتِ  زیست  لٹا کر سب  میں

تلخیِ  زیست چکھی  ہم  نے بھی

وقت  نے  جو بھی  دکھایا ،  دیکھا

وقت کی  مار  سہی ہم نے  بھی

ہم کو  بھی  زہر  دیا  لوگوں نے

سچ کی  تعزیر  سہی  ہم نے  بھی

وقت  کے  ساتھ چلی  جب دنیا

وقت کی چاپ سنی  ہم نے  بھی

اپنے ہی  خونِ  جگر سے  جاویدؔ

اپنی  تصویر  رنگی   ہم  نے  بھی

جانے کس عالم میں،  ہم ہیں آج کل

چاہتے  ہیں  خامشی   باتیں کرے

موت سے باتیں کرے جب اپنا دل

اپنے  دل  سے  زندگی باتیں کرے

ہے  یہی   اک  آرزو  جاویدؔ ہم

چپ رہیں  اور شاعری باتیں کرے

 

عبداللہ جاوید کی شاعری کے اِس تجزیاتی مطالعے کی اختتامی سطور میں مجھے یہی عرض کرنا ہے کہ جاویدؔ صاحب فکر اور جذبے کی آمیزش اور آویزش کے شاعر ہیں ان کے ہاں نہ تو نری جذباتیت ملتی ہے اور نہ ہی مجرّد فکر ،  لیکن ان کی شاعری میں سموئے ہوئے فکری عنصر کی وسعت کو محسوس کر کے قاری حیران ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ،  شعری ابلاغ کو مجروح کیے بنا یہ کیسے ممکن ہوا۔  اس کے علاوہ یہ بھی کم حیران کن نہیں کہ ان کی فکر کا مزاج سائنسی اور منطقی ہے۔   وہ حقائق کی اضافیت کو بھی ہمیشہ پیشِ نظر رکھتے ہیں۔   یہ سب کچھ بے حد خلط ملط سا ہے۔   مذہب کے معاملے میں بھی انہوں نے جو راستہ اختیار کیا وہ طریقت کا ہے،  اور طریقت میں جو روایتی اور رسمی طور در آیا ہے اس سے بھی انحراف روا رکھّا ہے۔   زمانی و مکانی حقائق کا اعتراف کرتے ہوئے بہ یک وقت وہ لا زمانی و لا مکانی حقائق کو نظر انداز نہیں کرتے،  جو نظر آ رہا ہے اس کو نظر انداز کیے بغیر وہ اس کو نظر میں رکھتے ہیں جو نظر نہیں آ رہا ہے۔   

بصارتی مشاہدہ ان کے ہاں بصیرتی مکاشفے کی صورت اختیار کر تا دکھائی دیتا ہے۔   مختلف اور بعض اوقات متضاد حسّی اور فکری تجربات ، مشاہدات اور معاملات کے مابین توازن پیدا ہونے لگتا ہے۔   ان کی شاعری میں یہ سب فطری طور پر ہو گزرتا ہے،  جس طرح رات اور دن ایک دوسرے سے متضاد ہونے کے باوجود باہم متبدّل بھی ہوتے ہیں اور ہم آہنگ بھی۔  عبداللہ جاوید کی شاعری کی صد رنگی بھی اسی اساس پر قائم ہے۔   ان کی شاعری میں جو ابلاغ ہے خواہ وہ حسّی ہو یا فکری،  قاری کی صلاحیت کے مطابق ہے۔   

قاری میں جس سطح اور جس نہج کی قبولی صلاحیت ہوتی ہے،  اسی سطح اور نہج کا ابلاغ ممکن ہے۔   شعری ابلاغ پر بات ہو رہی ہے،  لیکن یہ معاملہ بھی اتنا سادہ نہیں ہے۔  کیونکہ ہماری طرح آپ نے بھی دیکھا کہ ’موج صد رنگ‘  سے  ’حصارِ امکاں‘  اور  ’حصارِ امکاں‘  سے  ’خواب سماں‘  تک شعری ابلاغ کی ایک سے زائد جہات نظر آتی ہیں۔   ابلاغ کی سادہ ترین صورت اظہار ہے۔   پیشِ نظر شاعری میں بیان اور اظہار کی سادہ صورتیں کم ہی دیکھنے میں آتی ہیں،  اکثر اوقات یہ شاعری قاری کی طرف کچھ پہنچانے کی جگہ یعنی  Communicate  کرنے کے بجائے خود قاری کو اپنی دنیا ،  اپنے ماحول اور اپنی فضاء میں پہنچا دیتی ہے۔   

جاویدؔ صاحب  ! 

دامانِ نگہ تنگ ،  و گُل حُسنِ تَو بسیار

  تسلیم الٰہی زلفیؔ

142 Oxford Street

Richmond Hill, Ontario

L4C 4L7 - Canada.

٭

zulfi@rogers.com

www.zulfi.ca

416 737 3458 (Cell)

 

٭٭٭

تشکر: جناب سردار علی (شعر و سخن ڈاٹ کام) جن کے توسط سے فائل کا حصول ہوا

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔