ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال (9 نومبر 1877ء تا 21 اپریل 1938ء) بیسویں صدی کے ایک معروف شاعر، مصنف، قانون دان، سیاستدان، مسلم صوفی اور تحریک پاکستان کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک تھے۔ اردو اور فارسی میں شاعری کرتے تھے اور یہی ان کی بنیادی وجہ شہرت ہے۔ شاعری میں بنیادی رجحان تصوف اور احیائے امت اسلام کی طرف تھا۔ "دا ریکنسٹرکشن آف ریلیجس تھاٹ ان اسلام" کے نام سے انگریزی میں ایک نثری کتاب بھی تحریر کی۔ علامہ اقبال کو دور جدید کا صوفی سمجھا جاتا ہے۔ بحیثیت سیاست دان ان کا سب سے نمایاں کارنامہ نظریۂ پاکستان کی تشکیل ہے، جو انہوں نے 1930ء میں الہ آباد میں مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پیش کیا تھا۔ یہی نظریہ بعد میں پاکستان کے قیام کی بنیاد بنا۔ اسی وجہ سے علامہ اقبال کو پاکستان کا نظریاتی باپ سمجھا جاتا ہے۔ گو کہ انہوں نے اس نئے ملک کے قیام کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا لیکن انہیں پاکستان کے قومی شاعر کی حیثیت حاصل ہے۔
علامہ اقبال 9 نومبر 1877ء (بمطابق 3 ذوالقعدہ 1294ھ) کو برطانوی ہندوستان کے شہر سیالکوٹ میں شیخ نور محمد کے گھر پیدا ہوئے۔ ماں باپ نے نام محمد اقبال رکھا۔ مختلف تاریخ دانوں کے مابین علامہ کی تاریخ ولادت پر کچھ اختلافات رہے ہیں لیکن حکومت پاکستان سرکاری طور پر 9 نومبر 1877ء کو ہی ان کی تاریخ پیدائش تسلیم کرتی ہے۔
اقبال کے آباء و اجداد قبول اسلام کے بعد اٹھارویں صدی کے آخر یا انیسویں صدی کے اوائل میں کشمیر سے ہجرت کر کے سیالکوٹ آئے اور محلہ کھیتیاں میں آباد ہوئے۔ شیخ نُور محمد کشمیر کے سپرو برہمنوں کی نسل سے تھے۔ غازی اورنگزیب عالمگیر کے عہد میں ان کے ایک جدّ نے اسلام قبول کیا۔ ہر پشت میں ایک نہ ایک ایسا ضُرور ہوا جس نے فقط دل سے راہ رکھی۔ یہ بھی انہی صاحب دلوں میں سے تھے۔ بزرگوں نے کشمیر چھوڑا تو سیالکوٹ میں آ بسے۔ ان کے والد شیخ محمد رفیق نے محلہ کھٹیکاں میں ایک مکان آباد کیا۔ کشمیری لوئیوں اور دُھسّوں کی فروخت کا کاروبار شروع کیا۔ لگتا ہے کہ یہ اور ان کے چھوٹے بھائی شیخ غلام محمد یہیں پیدا ہوئے، پلے بڑھے اور گھر والے ہوئے۔ بعد میں شیخ محمد رفیق بازار چوڑیگراں میں اُٹھ آئے جو اب اقبال بازار کہلاتا ہے۔ ایک چھوٹا سا مکان لے کر اس میں رہنے لگے، مرتے دم تک یہیں رہے۔ ان کی وفات کے بعد شیخ نُور محمد نے اس سے ملحق ایک دو منزلہ مکان اور دو دکانیں خرید کر مکانیت کو بڑھا لیا۔
شیخ نور محمد دیندار آدمی تھے۔ بیٹے کے لیے دینی تعلیم ہی کافی سمجھتے تھے۔ سیالکوٹ کے اکثر مقامی علما کے ساتھ دوستانہ مراسم تھے۔ اقبال بسم ﷲ کی عمر کو پہنچے تو انھیں مولانا غلام حسن کے پاس لے گئے۔ مولانا ابوعبد ﷲ غلام حسن محلہ شوالہ کی مسجد میں درس دیا کرتے تھے۔ شیخ نُور محمد کا وہاں آنا جانا تھا۔ یہاں سے اقبال کی تعلیم کا آغاز ہوا۔ حسبِ دستور قرآن شریف سے ابتدا ہوئی۔ تقریباً سال بھر تک یہ سلسلہ چلتا رہا کہ شہر کے ایک نامور عالم مولانا سید میر حسن ادھر آ نکلے۔ ایک بچّے کو بیٹھے دیکھا کہ صورت سے عظمت اور سعادت کی پہلی جوت چمکتی نظر آ رہی تھی۔ پوچھا کہ کس کا بچّہ ہے۔ معلوم ہوا تو وہاں سے اُٹھ کر شیخ نور محمد کی طرف چل پڑے۔ دونوں آپس میں قریبی واقف تھے۔ مولانا نے زور دے کر سمجھایا کہ اپنے بیٹے کو مدرسے تک محدود نہ رکھو۔ اس کے لیے جدید تعلیم بھی بہت ضروری ہے انھوں نے خواہش ظاہر کی کہ اقبال کو ان کی تربیت میں دے دیا جائے۔ کچھ دن تک تو شیخ نور محمد کو پس و پیش رہا، مگر جب دوسری طرف سے اصرار بڑھتا چلا گیا تو اقبال کو میر حسن کے سپرد کر دیا۔ ان کا مکتب شیخ نور محمد کے گھر کے قریب ہی کوچہ میر حسام الدین میں تھا۔ یہاں اقبال نے اردو، فارسی اور عربی ادب پڑھنا شروع کیا۔ تین سال گزر گئے۔ اس دوران میں سید میر حسن نے اسکاچ مشن اسکول میں بھی پڑھانا شروع کر دیا۔ اقبال بھی وہیں داخل ہو گئے مگر پرانے معمولات اپنی جگہ رہے۔ اسکول سے آتے تو استاد کی خدمت میں پہنچ جاتے۔ میر حسن ان عظیم استادوں کی یادگار تھے جن کے لیے زندگی کا بس ایک مقصد ہوا کرتا تھا : پڑھنا اور پڑھانا۔ لیکن یہ پڑھنا اور پڑھانا نری کتاب خوانی کا نام نہیں۔ اس اچھے زمانے میں استاد مرشد ہوا کرتا تھا۔ میرحسن بھی یہی کیا کرتے تھے۔ تمام اسلامی علوم سے آگاہ تھے، جدید علوم پر بھی اچھی نظر تھی۔ اس کے علاوہ ادبیات، معقولات، لسانیات اور ریاضیات میں بھی مہارت رکھتے تھے۔ شاگردوں کو پڑھاتے وقت ادبی رنگ اختیار کرتے تھے تاکہ علم فقط حافظے میں بند کر نہ رہ جائے بلکہ طرزِ احساس بن جائے۔ عربی، فارسی، اردو اور پنجابی کے ہزاروں شعر از بر تھے۔ ایک شعر کو کھولنا ہوتا تو بیسیوں مترادف اشعار سنا ڈالتے۔
مولانا کی تدریسی مصروفیات بہت زیادہ تھیں مگر مطالعے کا معمول قضا نہیں کرتے تھے۔ قرآن کے حافظ بھی تھے اور عاشق بھی۔ شاگردوں میں شاہ صاحب کہلاتے تھے۔ انسانی تعلق کا بہت پاس تھا۔ حد درجہ شفیق، سادہ، قانع، متین، منکسر المزاج اور خوش طبع بزرگ تھے۔ روزانہ کا معمول تھا کہ فجر کی نماز پڑھ کر قبرستان جاتے، عزیزوں اور دوستوں کی قبروں پر فاتحہ پڑھتے۔ فارغ ہوتے تو شاگردوں کو منتظر پاتے۔ واپسی کا راستہ سبق سننے اور دینے میں کَٹ جاتا۔ یہ سلسلہ گھر پہنچ کر بھی جاری رہتا، یہاں تک کہ اسکول کو چل پڑتے۔ شاگرد ساتھ لگے رہتے۔ دن بھر اسکول میں پڑھاتے۔ شام کو شاگردوں کو لیے ہوئے گھر آتے، پھر رات تک درس چلتا رہتا۔ اقبال کو بہت عزیز رکھتے تھے۔ خود وہ بھی استاد پر فدا تھے۔ اقبال کی شخصیت کی مجموعی تشکیل میں جو عناصر بنیادی طور پر کارفرما نظر آتے ہیں ان میں سے بیشتر شاہ صاحب کی صحبت اور تعلیم کا کرشمہ ہیں۔ سید میر حسن سر سید کے بڑے قائل تھے۔ علی گڑھ تحریک کو مسلمانوں کے لیے مفید سمجھتے تھے۔
ان کے زیر اثر اقبال کے دل میں بھی سرسید کی محبت پیدا ہو گئی جو بعض اختلافات کے باوجود آخر دم تک قائم رہی۔ مسلمانوں کی خیر خواہی کا جذبہ تو خیر اقبال کے گھر کی چیز تھی مگر میر حسن کی تربیت نے اس جذبے کو ایک علمی اور عملی سمت دی۔ اقبال سمجھ بوجھ اور ذہانت میں اپنے ہم عمر بچوں سے کہیں آگے تھے۔ بچپن ہی سے ان کے اندر وہ انہماک اور استغراق موجود تھا جو بڑے لوگوں میں پایا جاتا ہے۔ مگر وہ کتاب کے کیڑے نہیں تھے۔ کتاب کی لت پڑ جائے تو آدمی محض ایک دماغی وجود بن جاتا ہے۔ زندگی اور اس کے بیچ فاصلہ پیدا ہوجاتا ہے۔ زندگی کے حقائق اور تجربات بس دماغ میں منجمد ہوکر رہ جاتے ہیں، خونِ گرم کا حصّہ نہیں بنتے۔ انھیں کھیل کود کا بھی شوق تھا۔ بچوں کی طرح شوخیاں بھی کرتے تھے۔ حاضر جواب بھی بہت تھے۔ شیخ نُور محمد یہ سب دیکھتے مگر منع نہ کرتے۔ جانتے تھے کہ اس طرح چیزوں کے ساتھ اپنائیت اور بے تکلفی پیدا ہوجاتی ہے جو بے حد ضروری اور مفید ہے۔ غرض اقبال کا بچپن ایک فطری کشادگی اور بے ساختگی کے ساتھ گزرا۔ قدرت نے انھیں صوفی باپ اور عالم استاد عطا کیا جس سے ان کا دل اور عقل یکسو ہو گئے، دونوں کا ہدف ایک ہو گیا۔ یہ جو اقبال کے یہاں حِس اور فِکر کی نادر یکجائی نظر آتی ہے اس کے پیچھے یہی چیز کارفرما ہے۔ باپ کے قلبی فیضان نے جن حقائق کو اجمالاً محسوس کروایا تھا استاد کی تعلیم سے تفصیلاً معلوم بھی ہو گئے۔ سولہ برس کی عمر میں اقبال نے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ فرسٹ ڈویژن آئی اور تمغا اور وظیفہ ملا۔
اسکاچ مشن اسکول میں انٹرمیڈیٹ کی کلاسیں بھی شروع ہوچکی تھیں لہٰذا اقبال کو ایف اے کے لیے کہیں اور نہیں جانا پڑا، وہیں رہے، یہ وہ زمانہ ہے جب ان کی شاعری کا باقاعدہ آغاز ہوتا ہے۔ یوں تو شعر و شاعری سے ان کی مناسبت بچپن ہی سے ظاہر تھی، کبھی کبھی خود بھی شعر موزوں کر لیا کرتے تھے مگر اس بارے میں سنجیدہ نہیں تھے، نہ کسی کو سناتے نہ محفوظ رکھتے۔ لکھتے اور پھاڑ کر پھینک دیتے۔ لیکن اب شعر گوئی ان کے لیے فقط ایک مشغلہ نہ رہی تھی بلکہ روح کا تقاضا بن چکی تھی۔ اس وقت پورا برصغیر داغ کے نام سے گونج رہا تھا۔ خصوصاً اُردو زبان پر ان کی معجزانہ گرفت کا ہر کسی کو اعتراف تھا۔ اقبال کویہی گرفت درکار تھی۔ شاگردی کی درخواست لکھ بھیجی جو قبول کر لی گئی۔ مگر اصلاح کا یہ سلسلہ زیادہ دیر جاری نہ رہ سکا۔ داغ جگت استاد تھے۔ متحدہ ہندوستان میں اردو شاعری کے جتنے بھی رُوپ تھے، ان کی تراش خراش میں داغ کا قلم سب سے آگے تھا۔ لیکن یہ رنگ ان کے لیے بھی نیا تھا۔ گو اس وقت تک اقبال کے کلام کی امتیازی خصوصیت ظاہر نہ ہوئی تھی مگر داغ اپنی بے مثال بصیرت سے بھانپ گئے کہ اس ہیرے کو تراشا نہیں جاسکتا۔ یہ کہہ کر فارغ کر دیا کہ اصلاح کی گنجائش نہ ہونے کے برابر ہے۔ مگر اقبال اس مختصر سی شاگردی پر بھی ہمیشہ نازاں رہے۔ کچھ یہی حال داغ کا بھی رہا۔
6 مئی 1893ء میں اقبال نے میٹرک کیا اور 1895ء میں اقبال نے ایف اے کیا اور مزید تعلیم کے لیے لاہور آ گئے۔ یہاں گورنمنٹ کالج میں بی اے کی کلاس میں داخلہ لیا اور ہاسٹل میں رہنے لگے۔ اپنے لیے انگریزی، فلسفہ اور عربی کے مضامین منتخب کیے۔ انگریزی اور فلسفہ گورنمنٹ کالج میں پڑھتے اور عربی پڑھنے اورینٹل کالج جاتے جہاں مولانا فیض الحسن سہارنپوری ایسے بے مثال استاد تشریف رکھتے تھے۔ اس وقت تک اورینٹل کالج گورنمنٹ کالج ہی کی عمارت کے ایک حصّے میں قائم تھا اور دونوں کالجوں کے درمیان بعض مضامین کے سلسلے میں باہمی تعاون اور اشتراک کا سلسلہ جاری تھا۔ 1898ء میں اقبال نے بی اے پاس کیا اور ایم اے (فلسفہ) میں داخلہ لے لیا۔ یہاں پروفیسر ٹی ڈبلیوآرنلڈ کا تعلق میسّر آیا۔ جنھوں نے آگے چل کر اقبال کی علمی اور فکری زندگی کا ایک حتمی رُخ متعین کر دیا۔
مارچ 1899ء میں ایم اے کا امتحان دیا اور پنجاب بھر میں اوّل آئے۔ اس دوران میں شاعری کا سلسلہ بھی چلتا رہا، مگر مشاعروں میں نہ جاتے تھے۔ نومبر 1899ء کی ایک شام کچھ بے تکلف ہم جماعت انھیں حکیم امین الدین کے مکان پر ایک محفلِ مشاعرہ میں کھینچ لے گئے۔ بڑے بڑے سکّہ بند اساتذہ، شاگردوں کی ایک کثیر تعداد سمیت شریک تھے۔ سُننے والوں کا بھی ایک ہجوم تھا۔ اقبال چونکہ بالکل نئے تھے، اس لیے ان کا نام مبتدیوں کے دور میں پُکارا گیا۔ غزل پڑھنی شروع کی، جب اس شعر پر پہنچے کہ :
موتی سمجھ کے شانِ کریمی نے چُن لیے
قطرے جو تھے مرے عرقِ انفعال کے
تو اچھے اچھے استاد اُچھل پڑے۔ بے اختیار ہو کر داد دینے لگے۔ یہاں سے اقبال کی بحیثیت شاعر شہرت کا آغاز ہوا۔ مشاعروں میں باصرار بُلائے جانے لگے۔ اسی زمانے میں انجمن حمایتِ اسلام سے تعلق پیدا ہوا جو آخر تک قائم رہا۔ اس کے ملّی اور رفاہی جلسوں میں اپنا کلام سناتے اور لوگوں میں ایک سماں باندھ دیتے۔ اقبال کی مقبولیت نے انجمن کے بہت سارے کاموں کو آسان کر دیا۔ کم از کم پنجاب کے مسلمانوں میں سماجی سطح پر دینی وحدت کا شعور پیدا ہونا شروع ہو گیا جس میں اقبال کی شاعری نے بنیادی کردار ادا کیا۔
ایم اے پاس کرنے کے بعد اقبال 13 مئی 1899ء کو اورینٹل کالج میں میکلوڈ عربک ریڈر کی حیثیت سے متعین ہو گئے۔ اسی سال آرنلڈ بھی عارضی طور پر کالج کے قائم مقام پرنسپل مقرر ہوئے۔ اقبال تقریباً چار سال تک اورینٹل کالج میں رہے۔ البتہ بیچ میں چھ ماہ کی رخصت لے کر گورنمنٹ کالج میں انگریزی پڑھائی۔ اعلی تعلیم کے لیے کینیڈا یا امریکہ جانا چاہتے تھے مگر آرنلڈ کے کہنے پر اس مقصد کے لیے انگلستان اور جرمنی کا انتخاب کیا۔ 1904ء کو آرنلڈ جب انگلستان واپس چلے گئے تو اقبال نے ان کی دوری کو بے حد محسوس کیا۔ دل کہتا تھا کہ اُڑ کر انگلستان پہنچ جائیں۔ اورینٹل کالج میں اپنے چار سالہ دورِ تدریس میں اقبال نے اسٹبس کی ’’ارلی پلائجنٹس‘‘اور واکر کی ’’پولٹیکل اکانومی‘‘ کا اردو میں تلخیص و ترجمہ کیا، شیخ عبد الکریم الجیلی کے نظریۂ توحیدِ مطلق پر انگریزی میں ایک مقالہ لکھا اور ’’علم الاقتصاد‘‘ کے نام سے اردو زبان میں ایک مختصر سی کتاب تصنیف کی جو 1904ء میں شائع ہوئی۔ اردو می اپنے موضوع پر یہ اولین کتابوں میں سے ہے۔
اورینٹل کالج میں بطور عربک ریڈر مدت ملازمت ختم ہو گئی تو 1903ء میں اسسٹنٹ پروفیسر انگریزی کی حیثیت سے اقبال گورنمنٹ کالج میں تقرر ہو گیا۔ بعد میں فلسفے کے شعبے میں چلے گئے۔ وہاں پڑھاتے رہے یہاں تک کہ یکم اکتوبر 1905ء کو یورپ جانے کے لیے تین سال کی رخصت لی۔
25 دسمبر 1905ء کو علامہ اقبال اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان چلے گئے اور کیمبرج یونیورسٹی ٹرنٹی کالج میں داخلہ لے لیا چونکہ کالج میں ریسرچ اسکالر کی حیثیت سے لیے گئے تھے اس لیے ان کے لیے عام طالب علموں کی طرح ہوسٹل میں رہنے کی پابندی نہ تھی۔ قیام کا بندوبست کالج سے باہر کیا۔ ابھی یہاں آئے ہوئے ایک مہینے سے کچھ اوپر ہوا تھا کہ بیرسٹری کے لیے لنکنز اِن میں داخلہ لے لیا۔ اور پروفیسر براؤن جیسے فاضل اساتذہ سے رہنمائی حاصل کی۔ بعد میں آپ جرمنی چلے گئے جہاں میونخ یونیورسٹی سے آپ نے فلسفہ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
سر عبدالقادر بھی یہیں تھے۔ اسی زمانے میں کیمبرج کے استادوں میں وائٹ ہیڈ، میگ ٹیگرٹ، وارڈ، براؤن اور نکلسن ایسی نادرۂ روزگار اور شہرۂ آفاق ہستیاں بھی شامل تھیں۔ میگ ٹیگرٹ اور نکلسن کے ساتھ اقبال کا قریبی ربط ضبط تھا بلکہ نکلسن کے ساتھ تو برابر کی دوستی اور بے تکلفی پیدا ہو گئی۔ البتہ میگ ٹیگرٹ کی جلالت علمی کے ساتھ ان کی عمر بھی تھی، وہ اقبال سے خاصے بڑے تھے جب کہ نکلسن کے ساتھ سن کا کوئی ایسا تفاوت نہ تھا۔ میگ ٹیگرٹ ٹرنٹی کالج میں کانٹ اور ہیگل کا فلسفہ پڑھاتے تھے۔ خود بھی انگلستان کے بڑے فلسفیوں میں گِنے جاتے تھے۔ براؤن اور نکلسن عربی اور فارسی زبانوں کے ماہر تھے۔ آگے چل کر نکلسن نے اقبال کی فارسی مثنوی "اسرار خودی" کا انگریزی ترجمہ بھی کیا جو اگرچہ اقبال کو پوری طرح پسند نہیں آیا مگر اس کی وجہ سے انگریزی خواں یورپ کے شعری اور فکری حلقوں میں اقبال کے نام اور کام کا جزوی سا تعارف ضرور ہو گیا۔ انگلستان سے آنے بعد بھی اقبال کی میگ ٹیگرٹ اور نکلسن سے خط کتابت جاری رہی۔
آرنلڈ جو کیمبرج میں نہیں تھے، لندن یونیورسٹی میں عربی پڑھاتے تھے، لیکن اقبال بڑی باقاعدگی سے ان سے ملنے جایا کرتے تھے۔ ہر معاملے میں ان کا مشورہ لے کر ہی کوئی قدم اُٹھاتے۔ انہی کے کہنے پر میونخ یونیورسٹی میں پی۔ ایچ۔ ڈی کے لیے رجسٹریشن کروائی۔ کیمبرج سے بی اے کرنے کے بعد جولائی 1907ء کو ہائیڈل برگ چلے گئے۔ تاکہ جرمن زبان سیکھ کر میونخ یونیورسٹی میں اپنے تحقیقی مقالے کے بارے میں اس زبانی امتحان کی تیاری ہو جائے جو اسی زبان میں ہوتا تھا۔ یہاں چار ماہ گزارے۔ "ایران میں ما بعد الطبیعیات کا ارتقا" کے عنوان سے اپنا تحقیقی مقالہ پہلے ہی داخل کرچکے تھے، ایک زبانی امتحان کا مرحلہ ابھی رہتا تھا، اس سے بھی سرخروئی کے ساتھ گزر گئے۔ 4 نومبر 1907ء کو میونخ یونیورسٹی نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری دے دی۔ 1908ء میں یہ مقالہ پہلی بار لندن سے شائع ہوا۔ انتساب آرنلڈ کے نام تھا۔
ڈاکٹریٹ ملتے ہی لندن واپس چلے آئے۔ بیرسٹری کے فائنل امتحانوں کی تیاری شروع کردی۔ کچھ مہینے بعد سارے امتحان مکمل ہو گئے۔ جولائی 1908ء کو نتیجہ نکلا۔ کامیاب قرار دیے گئے۔ اس کے بعد انگلستان میں مزید نہیں رُکے، وطن واپس آ گئے۔
لندن میں قیام کے دوران میں اقبال نے مختلف موضوعات پر لیکچروں کا ایک سلسلہ بھی شروع کیا، مثلاً اسلامی تصوّف، مسلمانوں کا اثر تہذیب یورپ پر، اسلامی جمہوریت، اسلام اور عقلِ انسانی وغیرہ بدقسمتی سے ان میں ایک کا بھی کوئی ریکارڈ نہیں ملتا۔
ایک مرتبہ آرنلڈ لمبی رخصت پر گئے تو اقبال ان کی جگہ پر لندن یونیورسٹی میں چند ماہ کے لیے عربی کے پروفیسر مقرر ہوئے۔
مئی 1908ء میں جب لندن میں آل انڈیا مسلم لیگ کی برٹش کمیٹی کا افتتاح ہوا تو ایک اجلاس میں سیّد امیر علی کمیٹی کے صدر چُنے گئے اور اقبال کو مجلسِ عاملہ کا رُکن نامزد کیا گیا۔
اسی زمانے میں انھوں نے شاعری ترک کردینے کی ٹھان لی تھی، مگر آرنلڈ اور اپنے قریبی دوست شیخ عبد القادر کے کہنے پر یہ ارادہ چھوڑ دیا۔ فارسی میں شعر گوئی کی ابتدا بھی اسی دور میں ہوئی۔
قیامِ یورپ کے دوران میں اقبال کے دو بنیادی خیالات تبدیل ہونے شروع ہوئے۔ اقبال وطنی قومیّت اور وحدتِ الوجود کی طرف میلان رکھتے تھے۔ اب وہ میلان گریز میں بدلنے لگا تھا۔ خاص طور پر وطنی قومیت کے نظریے کے تو اس قدر خلاف ہو گئے جسے نفرت کہنا زیادہ صحیح ہوگا۔
یورپ پہنچ کر انھیں مغربی تہذیب و تمدّن اور اس کی روح میں کارفرما مختلف تصوّرات کو براہ راست دیکھنے کا موقع ملا۔ مغرب سے مرعوب تو خیر وہ کبھی نہیں رہے تھے، نہ یورپ جانے سے پہلے نہ وہاں پہنچنے کے بعد۔ بلکہ مغرب کے فکری، معاشی، سیاسی اور نفسیاتی غلبے سے آنکھیں چرائے بغیر انھوں نے عالمی تناظر میں امتِ مسلمہ کے گزشتہ عروج کی بازیافت کے لیے ایک وسیع دائرے میں سوچنا شروع کیا۔ یہاں تک کہ ان پر مغربی فکر اور تہذیب کا چھپا ہوا بودا پن منکشف ہو گیا۔
جولائی 1908ء میں وطن کے لیے روانہ ہوئے۔ بمبئی سے ہوتے ہوئے 25 جولائی 1908ء کی رات دہلی پہنچے۔
ابتدا میں آپ نے ایم اے کرنے کے بعد اورینٹل کالج لاہور میں تدریس کے فرائض سر انجام دیے لیکن آپ نے بیرسٹری کو مستقل طور پر اپنایا۔ وکالت کے ساتھ ساتھ آپ شعر و شاعری بھی کرتے رہے اور سیاسی تحریکوں میں بھرپور انداز میں حصہ لیا۔ 1922ء میں حکومت کی طرف سے سر کا خطاب ملا۔ اقبال انجمن حمایت اسلام کے اعزازی صدر بھی رہے۔
اگست 1908ء میں اقبال لاہور آ گئے۔ ایک آدھ مہینے بعد چیف کورٹ پنجاب میں وکالت شروع کردی۔ اس پیشے میں کچھ ہی دن گزرے تھے کہ ایم ۔ اے ۔ او کالج علی گڑھ میں فلسفے اور گورنمنٹ کالج لاہور میں تاریخ کی پروفیسری پیش کی گئی مگر اقبال نے اپنے لیے وکالت کو مناسب جانا اور دونوں اداروں سے معذرت کرلی۔ البتہ بعد میں حکومت پنجاب کی درخواست اور اصرار پر 10 مئی 1910ء سے گورنمنٹ کالج لاہور میں عارضی طور پر فلسفہ پڑھانا شروع کر دیا، لیکن ساتھ ساتھ وکالت بھی جاری رکھی۔ ہوتے ہوتے مصروفیات بڑھتی چلی گئیں۔ کئی اداروں اور انجمنوں سے تعلق پیدا ہو گیا۔
18 مارچ 1910ء کو حیدرآبار دکن کا سفر پیش آیا۔ وہاں اقبال کے قدیمی دوست مولانا گرامی پہلے سے موجود تھے۔ اس دورے میں سر اکبر حیدری اور مہاراجا کشن پرشاد کے ساتھ دوستانہ مراسم کی بنا پڑی۔ مارچ کی تئیسویں کو حیدرآباد سے واپس آئے۔ اورنگزیب عالمگیر کے مقبرے کی زیارت کے لیے راستے میں اورنگ آباد اُتر گئے۔ دو دن وہاں ٹھہرے۔ 28 مارچ 1910ء کو لاہور پہنچے اور پھر سے اپنے معمولات میں مشغول ہو گئے۔ اب معلمی اور وکالت کو ساتھ ساتھ لے کر چلنا مشکل ہوتا جا رہا تھا۔ آخرکار 31 دسمبر 1910ء کو گورنمنٹ کالج سے مستعفی ہو گئے، مگر کسی نہ کسی حیثیت سے کالج کے ساتھ تعلق برقرار رکھا۔ ایک گورنمنٹ کالج ہی نہیں بلکہ پنجاب اور برصغیر کی کئی دوسری جامعات کے ساتھ بھی اقبال کا تعلق پیدا ہو گیا تھا۔ پنجاب، علی گڑھ، الہ آباد، ناگ پور اور دہلی یونیورسٹی کے ممتحن رہے۔ ان کے علاوہ بیت العلوم حیدرآباد دکن کے لیے بھی تاریخ اسلام کے پرچے مرتب کرتے رہے۔ بعض اوقات زبانی امتحان لینے کے لیے علی گڑھ، الہ آباد اور ناگ پور وغیرہ بھی جانا ہوتا۔ ممتحن کی حیثیت سے ایک اٹل اصول اپنا رکھا تھا عزیز سے عزیز دوست پر بھی سفارش کا دروازہ بند تھا۔
2 مارچ 1910ء کو پنجاب یونیورسٹی کے فیلو نامزد کیے گئے۔ لالہ رام پرشاد، پروفیسر تاریخ، گورنمنٹ کالج لاہور کے ساتھ مل کر نصاب کی ایک کتاب "تاریخ ہند"مرتب کی جو 1913ء کو چھپ کر آئی۔ آگے چل کر مختلف اوقات میں اورینٹل اینڈ آرٹس فیکلٹی، سینیٹ اور سنڈیکیٹ کے ارکان بھی رہے۔ 1919ء میں اورینٹل فیکلٹی کے ڈین بنائے گئے۔ 1923ء میں یونیورسٹی کی تعلیمی کونسل کی رکنیت ملی، اسی سال پروفیسر شپ کمیٹی میں بھی لیے گئے۔ اپنی بے پناہ مصروفیات سے مجبور ہو کر تعلیمی کونسل سے استعفا دے دیا تھا مگر یونیورسٹی کے وائس چانسلر سرجان مینارڈ نے انھیں جانے نہ دیا۔ اس طرف سے اتنا اصرار ہوا کہ مروتاً استعفا واپس لے لیا۔ اس دوران میں پنجاب ٹیکسٹ بک کمیٹی کے بھی رکن رہے۔ میٹرک کے طلبہ کے لیے فارسی کی ایک نصابی کتاب ’’آئینہ عجم‘‘مرتب کی جو 1927ء میں شائع ہوئی۔ غرض، پنجاب یونیورسٹی سے اقبال عملاً 1932ء تک متعلق رہے۔
بیسویں صدی کے عشرہ اول میں پنجاب کی مسلم آبادی ایک ٹھہراؤ میں مبتلا تھی۔ کہنے کو مسلمانوں کے اندر دو سیاسی دھڑے موجود تھے مگر دونوں مسلمانوں کے حقیقی تہذیبی، سیاسی اور معاشی مسائل سے بیگانہ تھے۔ ان میں سے ایک کی قیادت سر محمد شفیع کے ہاتھ میں تھی اور دوسرا سر فضل حسین بھی اپنے اپنے حمایتیوں کو لے کر پہنچے، طے پایا کہ پنجاب میں صوبائی مسلم لیگ قائم کی جائے۔ اس فیصلے پر فوری عمل ہوا۔ میاں شاہ دین صدر بنائے گئے اور سر محمد شفیع سیکرٹری جنرل۔ سر فضل حسین عملاً الگ تھلگ رہے۔ اقبال ان سب قائدین کے ساتھ دوستانہ مراسم تو رکھتے تھے مگر عملی سیاست سے انھوں نے خود کو غیر وابستہ ہی رکھا۔
1911ء تک متحدہ ہندوستان کے اکثر مسلمان قائدین، سرسید کے حسب فرمان، انگریزی حکومت کی وفاداری کا دم بھرتے رہے، لیکن 1911ء اور 1912ء کے بیچ کے عرصے میں حالات جو ایک ڈھرّے پر چلے جا رہے تھے، اچانک پلٹا کھا گئے۔ مسلمان سیاست دان بنگال کی تقسیم کے حق میں تھے، انگریز بھی ایسا ہی چاہتے تھے، مگر ہندو اس منصوبے کے سخت مخالف تھے۔ ان کی جانب سے تشدّد کی راہ اختیار کی گئی تو انگریزی حکومت نے سپر ڈال دی۔ تقسیم بنگال کو منسوخ کر دیا گیا۔ اس جھٹکے نے مسلمان قائدین کی آنکھیں کھول دیں اور ان کے گذشتہ اندازِ فکری کی غلطی ان پر واضح ہو گئی۔ انھیں اب آکر احساس ہوا کہ اپنی قومی اور سیاسی زندگی کے تحفظ کے لیے صرف سرکار کی وفاداری پر کمر بستہ رہنا یا انگریزوں کے بنائے ہوئے آئینی ذرائع اختیار کیے رکھنا ناکافی اور بے معنی ہے۔ بقول مولانا شبلی نعمانی تقسیم بنگال کی تنسیخ مسلمانوں کے چہرے پر ایک ایسا تھپّڑ مارنے کے مترادف تھی، جس نے ان کے منہ کا رُخ پھیر کر رکھ دیا۔
تقسیم بنگال کی منسوخی کا اعلان ہوا تو یکم فروری، 1912ء کو موچی دروازہ لاہور میں مسلمانوں نے ایک احتجاجی جلسہ منعقد کیا، جس میں اقبال بھی شریک ہوئے۔ مقررین نے بڑی جذباتی اور جوشیلی تقریریں کیں۔ اقبال کی باری آئی تو مسلمانوں کی عظمتِ رفتہ کا مینار بن کر اُٹھے اور فرمایا: ’’مسلمانوں کو اپنی ترقی کے لیے خود ہاتھ پاؤں مارنے چاہیئں۔ ہندوؤں کو اب تک جو کچھ ملا ہے، محض اپنی کوششوں سے ملا ہے۔ اسلام کی تاریخ دیکھو وہ کیا کہتی ہے۔ عرب کے خطّے کو یورپین معماروں نے ردّی اور بیکار پتھر کا خطاب دے کر یہ کہہ دیا تھا کہ اس پتھر پر کوئی بنیاد کھڑی نہیں ہوسکتی۔ ایشیا اور یورپ کی قومیں عرب سے نفرت کرتی تھیں مگر عربوں نے جب ہوش سنبھالا اور اپنے کس بل سے کام لیا تو یہی پتھر دنیا کے ایوانِ تمدن کی محراب کی کلید بن گیا اور خدا قسم ! روما جیسی باجبروت سلطنت عربوں کے سیلاب کے آگے نہ ٹھہر سکی، یہ اس قوم کی حالت ہے جو اپنے بَل پر کھڑی ہوئی۔! ‘‘
اس تقریر سے مجمع میں رواں دواں لمحاتی اور بے جہت جوش و خروش اپنی قوم کے زندہ تشخص کے لیے درکار ایک بامعنی قوت میں بدل گیا جو ابھی محدود تھی مگر آگے چل کر اسے وسعت پکڑنی تھی۔ یہ ٹھیک ہے کہ مسلمانوں کے چند حلقوں میں بیداری کے آثار پیدا ہوچلے تھے، مگر اس بیداری کے مراکز ایک دوسرے سے لاتعلق چھوٹے چھوٹے جزیروں کی طرح بٹے ہوئے تھے۔ متفقہ ملّی قیادت میسر نہیں تھی۔ نتیجتہً مسلمانوں کے اندر متحدہ ہندی قومیت کا رجحان پیدا ہوچلا تھا۔ مسلم لیگ اور ہندو کانگریس کے اجلاس ساتھ ساتھ ہونے لگے تھے۔ ابھی اقبال عملی سیاست سے الگ تھے مگر مسلم قومیت کے اس اصول پر پوری طاقت کے ساتھ قائم تھے جو ان پر قیامِ انگلستان کے زمانے میں منکشف ہوا تھا۔
یورپ سے واپسی کے بعد 1914ء تک کا زمانہ اقبال کی بنیادی فکر کی تشکیل و تکمیل کا زمانہ ہے۔
یورپ میں پہلی جنگ عظیم شروع ہوچکی تھی۔ اس کے اثرات ہندوستان میں بھی نمایاں ہوئے۔ انگریزی حکومت کا رویہّ سخت سے سخت تر ہوتا گیا جو جنگ کے خاتمے کے بعد بھی برقرار رہا۔ انگریزی حکومت کے خلاف تحریکوں نے زور پکڑ لیا تھا۔
13 اپریل، 1919ء کو امرتسر شہر کے جلیانوالہ باغ میں ایک احتجاجی جلسہ کیا گیا۔ رُسوائے زمانہ جنرل ڈائر نے لوگوں کو گھیرے میں لے کر اندھا دھند فائرنگ کروائی اور سیکڑوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ گو کہ اقبال نے اس زمانے میں خانہ نشینی اختیار کر رکھی تھی لیکن اس حادثے کی دھمک ان کے دل تک بھی پہنچی۔ انھوں نے مرنے والوں کی یاد میں یہ اشعار کہے:
ہر زائرِ چمن سے یہ کہتی ہے خاکِ پاک
غافل نہ رہ جہان میں گردوں کی چال سے
سینچا گیا ہے خونِ شہیداں سے اس کا تخم
تو آنسوؤں کا بخل نہ کر اس نہال سے
عبدالمجید سالک اپنی کتاب ’’ذکر اقبال‘‘میں تحریر کرتے ہیں:
'اب پورا ملک بلا امتیاز مذہب و ملت احتجاج اور تنفر کا ہنگامہ زار بن رہا تھا۔ مسلمانوں کے دلوں پر جلیانوالہ باغ اور پنجاب کے مظالم سے بھی زیادہ گہرا چرکا ترکی کی شکست سے لگ چکا تھا جس کی وجہ سے خطرہ تھا کہ ترکان آلِ عثمان کی آزادی و خود مختاری خاک میں ملا دی جائے گی خلافت اسلامیہ کی مسند کے گرد فرنگی گدھ منڈلا رہے تھے۔‘‘
اسی سال ستمبر کے مہینے میں مولانا محمدعلی جوہر چار سالہ نظر بندی کاٹ کے آل انڈیا مسلم کانفرنس کے اس مشہور احتجاجی جلسے میں شرکت کے لیے لکھنؤ پہنچے جس میں خلاف کانفرنس کا قیام عمل میں آیا۔ خلافت کانفرنس کی تشکیل سے مسلمانوں نے بڑی امیدیں باندھ رکھی تھیں مگر بدقسمتی سے آگے چل کر اس نے کانگریس سے اتحاد کر لیا اور اس کے لیڈروں نے گاندھی کو اپنا قائد مان لیا۔ اقبال صوبائی خلافت کمیٹی کے رُکن تھے لیکن حالات کی اس تبدیلی نے ان کا قائدینِ خلافت سے شدید اختلاف پیدا کر دیا۔ وجہ اختلاف دو باتیں تھیں:
اوّل یہ کہ اقبال اس حق میں نہ تھے کہ خلافت وفد مذاکرات کے لیے انگلستان جائے، وہ اسے انگریز کی چال سمجھتے تھے۔
دوم یہ کہ وہ ہندوؤں کے ساتھ مل کر عدم تعاون کی تحریک چلانے کو مسلمانوں کے لیے مضر خیال کرتے تھے کیونکہ کسی قابلِ قبول ہندو مسلم معاہدے کے بغیر محض انگریز دشمنی کی مشترکہ بنیاد پر متحدہ قومیت کا ناقص تصّور مسلمانوں کی جداگانہ ملّی حیثیت کو ختم کر دے گا۔
یہ اختلافات حل نہ ہوئے تو اقبال صوبائی خلافت کمیٹی سے الگ ہو گئے۔ اقبال کی بصیرت نے بھانپ لیا تھا کہ خود خلافتِ عثمانیہ کا مستقبل مخدوش ہے لہذا مسلمان اقوام کے ملّی اتحاد کی بنیاد اس کی بجائے کسی اور اصول پر رکھنی چاہیے۔
16 اپریل، 1922ء کو انجمن حمایتِ اسلام کے سالانہ جلسے میں اقبال نے اپنی طویل نظم’’خضر راہ‘‘سنائی۔ عبدالمجید سالک وہاں موجود تھے۔ وہ لکھتے ہیں :
'ایک تو اس نظم میں اقبال کے شاعرانہ تخیل اور بدیع اسلوب کا جمال پوری تابانیوں کے ساتھ جلوہ گر تھا اور ایک ایک شعر پر اربابِ ذوقِ سلیم وجد کر رہے تھے، دوسرے اس میں علامہ نے جنگ عظیم کے سلسلے میں فاتح اقوام کی دھاندلی، ان کی ابلیسانہ سیاست، سرمایہ داری کی عیارّی، مزدور کی بیداری عالم اسلام خصوصا ترکانِ آلِ عثمان کی بے دست و پائی پر مؤثر اور بلیغ تبصرہ کیا ہے اور اسی سلسلے میں نسلی قومیت اور امتیاز رنگ و خون کے خیالات پر بھرپور چوٹ کی ہے ۔‘‘
جنوری 1923ء کو اقبال کر سَر کا خطاب ملا۔ ان کے پُرانے دوست میر غلام بھیک نیرنگ نے اندیشہ ظاہر کیا کہ اب آپ شاید آزادیٔ اظہار سے کام نہ لے سکیں تو اقبال نے جواب میں تحریر کیا:
'میں آپ کو اس اعزاز کی اطلاع خود دیتا مگر جس دنیا کے میں اور آپ رہنے والے ہیں، اس دنیا میں اس قسم کے واقعات احساس سے فرو تر ہیں۔ سیکڑوں خطوط اور تار آئے اور آ رہے ہیں اور مجھے تعجب ہو رہا ہے کہ لوگ ان چیزوں کو کیوں گراں قدر جانتے ہیں۔ باقی رہا وہ خطرہ جس کا آپ کے قلب کو احساس ہوا ہے۔ سو قسم ہے خدائے ذوالجلال کی جس کے قبضے میں میری جان اور آبرو ہے اور قسم ہے اس بزرگ و برتر وجود صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جس کی وجہ سے مجھے خدا پر ایمان نصیب ہوا اور مسلمان کہلاتا ہوں، دنیا کی کوئی قوت مجھے حق کہنے سے باز نہیں رکھ سکتی۔ ان شاء اﷲ۔
30 مارچ 1923ء کو انجمن حمایت اسلام کے جلسے میں اقبال نے اپنی معروف نظم ’’طلوع اسلام‘‘ پڑھی۔ یہ نظم یونانیوں پر ترکوں کی فتح کے واقعے پر لکھی گئی تھی۔ نظم کیا ہے، مسلمانوں کے روشن مستقبل کا پیغام ہے
دلیلِ صبحِ روشن ہے ستاروں کی تنک تابی
افق سے آفتاب ابھرا گیا دورِ گراں خوابی
خلافت کانفرنس نے برصغیر کے مسلمانوں کے جذبات ابھار کر انھیں اس طرح اپنی گرفت میں لے رکھا تھا کہ مسلم لیگ کا وجود آنکھوں سے اوجھل ہو گیا۔ 1924ء میں قائد اعظم محمد علی جناح کی لگاتار کوششوں سے اس کا احیاء ہوا۔ ادھر پنجاب میں بھی مسلم سیاست بحران کا شکار تھی۔ مسلمانوں کے اندر شہری اور دیہاتی جھگڑا کھڑا ہو گیا تھا، جس نے یونینسٹ پارٹی کو جنم دیا۔ 1923ء کے صوبائی انتخابات کے موقع پر اقبال سے اصرار کیا گیا کہ لیجسلیٹو کونسل کا الیکشن لڑیں مگر انھوں نے انکار کر دیا کیونکہ ان کے قریبی دوست میاں عبد العزیز بیرسٹر اسی حلقے سے اپنی امیدواری کا اعلان کرچکے تھے جو اقبال کے لیے تجویز کیا جا رہا تھا۔ اقبال حسبِ معمول وکالت میں مصروف تھے کہ 1926ء آ گیا۔ اس سال پنجاب لیجسلیٹو کونسل کے دوبارہ انتخابات ہونے تھے۔ دوستوں نے پھر زور ڈالا۔ اس مرتبہ میاں عبد العزیز نے بھی کہہ دیا کہ وہ اقبال کے مقابلے میں کھڑے نہ ہوں گے بلکہ ان کی مدد کریں گے۔ اس بار اقبال مان گئے۔ امیدواری کا باقاعدہ اعلان چھاپ دیا گیا۔ الیکشن ہوئے، ظاہر ہے کہ اقبال ہی کو کامیاب ہونا تھا۔ کونسل کے اندر یونینسٹ پارٹی اکثریت میں تھی۔ اس کی قوّت کو مسلمانوں کے قومی مفاد میں استعمال کرنے کے لیے اقبال یونینسٹ پارٹی میں شامل ہو گئے مگر جب اس جماعت کی ناقابلِ اصلاح خرابیاں مشاہدے میں آئیں تو اقبال نے علیحدگی اختیار کرلی۔ باقی مدت ایک تنہا رُکن کی حیثیت سے گزار دی۔ اسی سال پنجاب کی صوبائی مسلم لیگ کے سیکرٹری بنائے گئے جس سے برّصغیر کی مسلم سیاست کا دروازہ ان پر کھل گیا۔ اب اقبال عملی سیاست کے میدان میں قدم رکھ چکے تھے۔
ہندوؤں کی طرف شدھی اور سنگھٹن کی رُسوائے زمانہ تحریکوں کا زور تھا جس کی وجہ سے قدم قدم پر ہندو مسلم فسادات ہو رہے تھے۔ ان فتنوں کا تدارک کرنے کے لیے مسلمانوں میں بھی مختلف تبلیغی مشن بنائے جا رہے تھے۔ غلام بھیک نیرنگ نے ایسی ہی ایک جماعت کی مدد کے لیے لکھا تو علامہ نے اپنی خدمات پیش کرتے ہوئے تحریر کیا:
'میرے نزدیک تبلیغ اسلام کا کام اس وقت تمام کاموں پر مقدم ہے۔ اگر ہندوستان میں مسلمانوں کا مقصد سیاسیات سے محض آزادی اور اقتصادی بہبودی ہے اور حفاظت اسلام اس مقصد کا عنصر نہیں ہے جیسا کہ آج کل کے قوم پرستوں کے رویّے سے معلوم ہوتا ہے، تو مسلمان اپنے مقاصد میں کبھی کامیاب نہ ہوں گے۔‘‘
دیکھنے میں تو یہ سیدھے سادے دو جملے ہیں مگر علامہ کے اس ارشاد میں تحریکِ پاکستان کا جوہر سمایا ہوا ہے۔
2 جنوری 1929ء کو اقبال دہلی سے جنوبی ہند کے دورے پر روانہ ہو گئے۔ وہاں الہٰیات اسلامیہ کی نئی تشکیل کے موضوع پر مدراس، میسور، بنگلور اور حیدرآباد دکن میں خطبات دیے۔ جنوری کے آخر میں لاہور واپس پہنچ گئے۔
1929ء ہی میں افغانستان کے ساتھ اقبال کے عملی تعلق کی ابتدا ہوئی۔ 17 جنوری 1929ء کو بچّہ سقّہ نے امیرامان ﷲ خان والیٔ افغانستان کو ملک بدر کر کے کابل پر قبضہ کر لیا۔ پورا ملک خانہ جنگی کا شکار ہو گیا۔ آخر جنرل نادر خان بچہّ سقاّ کی سرکوبی کے لیے اُٹھ کھڑے ہوئے۔ اقبال انھیں جانتے تھے۔ علامہ نے مختلف ذرائع سے ان کی مدد کی۔
جنرل نادر خان کو مالی امداد فراہم کرنے کے لیے اقبال نے برّصغیر کے مسلمانوں کے نام ایک اپیل شائع کی جسے دیکھیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آج ہم بھی اس کے مخاطب ہیں: ’’اس وقت اسلام کی ہزا رہا مربع میل سر زمین اور لاکھوں فرزندان اسلام کی زندگی اور ہستی خطرے میں ہے اور ایک درد مند اور غیور ہمسایہ ہونے کی حیثیت سے مسلمانان ہند پر بھی یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ افغانستان کو بادِ فنا کے آخری طمانچے سے بچانے کے لیے جس قدر دلیرانہ کوشش بھی ممکن ہوکر گزریں۔‘‘
فلسطین میں یہودیوں بڑھتے ہوئے پُرتشدّد غلبے اور خاص طور پر مسجدِ اقصیٰ پر ان کے ناپاک قبضے کے خلاف ہندوستان بھر میں مسلمانوں کے احتجاجی جلسے ہو رہے تھے، 7 ستمبر 1929ء کو اقبال کی صدارت میں ایسا ہی ایک عظیم الشان جلسہ ہوا۔ اقبال نے اپنے خطبے میں فرمایا: ’’یہ بات قطعاً غلط ہے کہ مسلمانوں کا ضمیر حبّ ِ وطن سے خالی ہے۔ البتہ یہ صحیح ہے کہ حبّ ِ وطن کے علاوہ مسلمانوں کے دل میں دینیت و محبّت اسلام کا جذبہ بھی برابر موجود رہتا ہے اور یہ وہی جذبہ ہے جو ملّت کے پریشان اور منتشر افراد کو اکٹھا کر دیتا ہے اور کر کے چھوڑے گا اور ہمیشہ کرتا رہے گا ... 1914ء میں انگریز مدبرّوں نے اپنے سیاسی اغراض و مقاصد کے لیے یہودیوں کو آلۂ کار بنایا، صہیونی تحریک کو فروغ دیا اور اپنی غرض کی تکمیل کے لیے جو ذرائع استعمال کیے ان میں ایک کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔ یہودی مسجدِ اقصیٰ کے ایک حصّے کے مالکانہ تصرّف کا دعوٰی کر رہے ہیں۔ انھوں نے آتشِ فساد مشتعل کر رکھی ہے۔ مسلمان، ان کی عورتیں اور بچّے بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح کیے جا رہے ہیں ... اب حکومتِ برطانیہ نے فلسطین میں تحقیقاتِ حالات کے لیے ایک کمیشن بھیجنا منظور کیا ہے مگر میں اعلان کر دینا چاہتا ہوں کہ مسلمانوں کو اس پر کوئی اعتماد نہیں۔‘‘ 1930ء کا سال پاکستان اور اقبال، دونوں حوالوں سے ایک تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ دسمبر کی انتیسویں تاریخ کو الٰہ آباد کے شہر میں آل انڈیا مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس ہوا۔ قائداعظم پہلی گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے لندن گئے ہوئے تھے۔ آپ کے ارشاد کے مطابق اس اجلاس کی صدارت اقبال کو کرنی تھی۔ یہیں انھوں نے وہ تاریخ ساز خطبۂ صدارت دیا جو خطبۂ الہ آباد کے نام سے مشہور ہوا۔ اس خطبے میں پہلی مرتبہ ہندوستان کے اندر ایک آزاد مسلم ریاست کا ٹھوس اور غیر مبہم خاکہ پیش کیا گیا۔
برطانوی حکومت نے دوسری گول میز کانفرنس میں اقبال کو بھی مدعو کیا۔ لندن جانے کے لیے 8 ستمبر 1931ء کو لاہور سے روانہ ہوئے۔ اگلی صبح دہلی پہنچے۔ اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر ہزاروں کا مجمع استقبال کو موجود تھا۔
10 ستمبر 1931ء کو بمبئی پہنچے۔ اگلے روز وہاں سے بحری جہاز کے ذریعے انگلستان کے لیے روانہ ہو گئے اور 27 ستمبر کو لندن پہنچ گئے۔ ویسے تو اقبال دوسری گول میز کانفرنس میں شریک ہونے گئے مگر انگلستان میں ان کی علمی اور ادبی شہرت نے جو سیاسی شہرت سے کہیں بڑھی ہوئی تھی، ان کی مصروفیات کو دو حصّوں میں بانٹ دیا۔ کانفرنس کی ابتدا ہی سے کچھ ایسے آثار رونما ہونے شروع ہوئے کہ اقبال بد دل ہو گئے۔ کچھ اجلاسوں میں ایک اندازِ لاتعلقی کے ساتھ شریک رہے مگر جب کسی بھی مثبت نتیجے سے بالکل مایوسی ہو گئی تو بآلاخر 19 نومبر 1931ء کو مسلمان وفد سے الگ ہو کر اس کانفرنس سے علانیہ کنارہ کش ہو گئے۔ اب لندن میں ٹھہرنا بیکار تھا۔ مولانا غلام رسول مہر کو ساتھ لے کر 22 نومبر کی رات روم پہنچے۔
21 مارچ 1932ء کو لاہور میں اقبال کی زیر صدارت آل انڈیا مسلم کانفرنس کا اجلاس ہوا۔ اقبال نے خطبۂ صدارت پڑھا، جس میں انھوں نے دوسری گول میز کانفرنس کا ماجرا سنایا، اس زمانے کے اہم سیاسی مسائل کا گہرا جائزہ لیا اور مستقبل کی تعمیر کے امکانات پر نظر ڈالی۔ یہ خطبہ ہر لحاظ سے بہت اہم ہے۔ اسے نظر انداز کر کے برّصغیر کی مسلم تاریخ کے جوہر کو نہیں سمجھا جا سکتا۔
1932ء کے آخر میں برطانوی حکومت کی طرف سے لندن میں تیسری گول میز کانفرنس کا اہتمام کیا گیا۔ اقبال اس مرتبہ بھی بلائے گئے۔ 17 اکتوبر 1932ء کو انگلستان روانہ ہوئے۔ 30 دسمبر تک وہیں رہے۔ اقبال نے پھر کانفرنس میں کوئی دلچسپی نہ لی، کیوں کہ اس میں اُٹھائے گئے بیشتر مباحث وفاق سے متعلق تھے، جس سے اقبال کوئی سروکار نہ رکھتے تھے۔ وہ تو ہندوستان کے اندر صوبوں کی ایسی خود مختاری کے قائل تھے جس میں مرکزی حکومت نام کی کوئی شے موجود نہ ہو بلکہ صوبوں کا براہِ راست تعلق لندن میں بیٹھے ہوئے وزیرِ ہند سے ہو۔
برّصغیر میں مسلم سیاسی جماعتیں سخٹ انتشار اور افتراق میں مبتلا تھیں۔ اپنا اپنا راگ الاپا جا رہا تھا۔ مسلمانوں کے قومی مستقبل کا مسئلہ عملاً فراموش کیا جا چکا تھا۔ قائد اعظم مایوس ہو کر لندن جا چکے تھے، یہ سب دیکھنے اور کُڑھنے کو ایک اقبال رہ گئے تھے، لیکن قدرت کو مسلمانوں کی بہتری منظور تھی، اقبال اور دوسرے مخلصوں کے اصرار پر قائداعظم ہندوستان واپس آ گئے اور 4 مارچ 1934ء کو مسلم لیگ کے صدر منتخب ہوئے۔ لیگ کے تن مردہ میں جان پڑ گئی اور برّصغیر کے مسلمانوں کے دن پھرنے کا آغاز ہو گیا۔
6 مئی 1936ء کو حضرت قائد اعظم رحمۃ ﷲ علیہ اقبال سے ملنے ’’جاوید منزل‘‘ تشریف لائے۔ آپ نے اقبال کو مسلم لیگ کے مرکزی پارلیمانی بورڈ کا رکن بننے کی دعوت دی جسے اقبال نے اپنی شدید علالت کے باوجود بخوشی قبول کر لیا۔
12 مئی کو اقبال دوبارہ پنجاب مسلم لیگ کے صدر مقرر ہوئے۔ آپ کی تعلیمات اور قائد اعظم کی ان تھک کوششوں سے ملک آزاد ہو گیا اور پاکستان معرض وجود میں آیا۔
علامہ اقبال مولانا رومی کو اپنا روحانی استاد مانتے تھے اور انہیں پیر رومی کے نام سے یاد کرتے۔
جنوبی ایشیا کے اردو اور ہندی بولنے والے لوگ محمد اقبال کو شاعر مشرق کے طور پہ جانتے ہیں۔ محمد اقبال حساس دل و دماغ کے مالک تھے آپ کی شاعری زندہ شاعری ہے جو ہمیشہ برصغیر کے مسلمانوں کے لیے مشعل راہ بنی رہے گی۔ یہی وجہ ہے کہ کلام اقبال دنیا کے ہر حصے میں پڑھا جاتا ہے اور مسلمانان برصغیر اسے بڑی عقیدت کے ساتھ زیر مطالعہ رکھتے اور ان کے فلسفے کو سمجھتے ہیں۔ اقبال نے نئی نسل میں انقلابی روح پھونکی اور اسلامی عظمت کو اجاگر کیا۔ ان کے کئی کتب کے انگریزی، جرمنی، فرانسیسی، چینی، جاپانی اور دوسری زبانوں میں ترجمے ہو چکے ہیں۔ جس سے بیرون ملک بھی لوگ آپ کے متعرف ہیں۔ بلامبالغہ علامہ اقبال ایک عظیم مفکر مانے جاتے ہیں۔