پھر چراغ لالہ سے روشن ہوئے کوہ و دمن
مجھ کو پھر نغموں پہ اکسانے لگا مرغ چمن
پھول ہیں صحرا میں پریاں قطار اندر قطار
اودے اودے نیلے نیلے پیلے پیلے پیرہن
برگ گل پر رکھ گئی شبنم کا موتی باد صبح
اور چمکاتی ہے اس موتی کو سورج کی کرن
حسن بےپروا کو اپنے بے نقابی کے لیے
ہوں اگر شہروں سے بن پیارے تو شہر اچھے کے بن
اپنے من میں ڈوب کے پا جا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن ، اپنا تو بن
من کی دولت ہاتھ آتی ہے تو پھر جاتی نہیں
تن کی دولت چھاؤں ہے آتا ہے دھن ، جاتا ہے دھن
پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
تو جھکا جب غیر کے آگے نہ من تیرا ، نہ تن